چنبل سے پارلیمان تک پہنچنے والی پھولن دیوی کے گاؤں سے ہاتھرس کا فاصلہ کب ختم ہو گا؟


اس پورے علاقے کے مناظر میں ایک عجیب سی سادگی ہے۔ مگر اس کا احساس آپ کو تب ہوتا ہے جب شام ڈھلنے کے وقت آپ دریائے چنبل کے کنارے کھڑے ہوتے ہیں۔ چنبل جو اس بنجر علاقے کو چیرتا ہوا گزرتا ہے۔

ایک عورت، جسے گزرے ہوئے عرصہ ہوا، وہ چنبل کے قصے کہانیوں میں، یہاں تک کہ لوک گیتوں میں ابھی بھی زندہ ہے۔ وہ عورت ایک ڈاکو تھی۔ مگر اس علاقے کے لوگوں کی نظر میں ایک رابن ہوڈ جیسا کردار تھی۔

’نچلی ذات‘ کی اس خاتون نے یہاں کے بادشاہ کہلائے جانے والے ٹھاکروں کی ہستی کو چیلینج کیا تھا۔ یہاں اس گاؤں میں، جہاں وہ پیدا ہوئی تھیں، لوگ ابھی بھی ان کے بچپن کے قصے سناتے ہیں۔

جب وہ ڈاکو بنی اور ٹھاکروں سے انتقام لیا، اس وقت کا ذکر گیتوں کی شکل میں کیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر، تہواروں میں اور دوسرے مواقع پر بھی ان کی بہادری کے گانے گائے جاتے ہیں۔

تین ریاستوں پر پھیلا ہوا چنبل

چنبل کا یہ ویران علاقہ انڈیا کی تین ریاستوں پر پھیلا ہوا ہے۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش۔

چنبل کی چٹانوں کا رنگ بھی شام کی طرح بھورا ہے۔ اب یہاں ڈاکووں کا راج نہیں رہا۔ لیکن چٹانیں آج بھی ہیں۔

اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد یہاں کچھ ترقیاتی کام ضرور ہوئے ہیں۔ جیسے کہ نئی سڑکیں وغیرہ بنی ہیں۔ لیکن یہ ترقی بھی ان ناہموار چٹانوں والے اس علاقے کو قابو میں نہیں کر سکی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ کسی اور دنیا میں آ گئے ہیں

دور بہتے دریا پر نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے کہ کوئی بڑا اژدہا ہے جو سب کچھ نگل جانے کو بیقرار ہے۔

آپ نے زندگی میں پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا ہوگا۔ یہ بہت ہی غیر معمولی منظر ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے الیکٹروگراف میں دل کی دھڑکنوں کی ایک لکیر اچانک بےترتیب ہو گئی ہو۔ یہاں آکر ایسا لگتا ہے آپ دوسری دنیا میں آ گئے ہوں۔ ایک ایسا علاقہ جسے ماپنے میں نقشہ نگاروں کے پسینے چھوٹ جائیں۔ اور ہر بار جب بھی ’اونچی ذات‘ کے مرد کے ہاتھوں کسی ’چھوٹی ذات‘ کی عورت کے ریپ کی خبر سامنے آتی ہے تو پھولن دیوی کا قصہ دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں ہاتھرس کیس: میڈیا کا کیمرہ آف ہو چکا ہے، ماں اب بھی رو رہی ہے

ہاتھرس ریپ کیس: ایک جان لیوا حملہ اور تنہائی میں ادا کی گئیں آخری رسومات

ہاتھرس ریپ کیس: بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ کی ویڈیو پر کیا سزا ہو سکتی ہے؟

ہاتھرس ’گینگ ریپ‘: متاثرہ خاندان سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے راہل اور پرینکا گاندھی حراست میں

پھولن کی طرح ہتھیار اٹھانے کی تنبیہ

اتر پردیش کے ہاتھرس میں ہونے والا ریپ جس میں ایک 19 برس کی دلت لڑکی کو گاؤں کے ٹھاکروں نے مبینہ طور پر ریپ کیا تھا۔ جس کے بعد وہ ہلاک ہو گئی تھیں۔

ہاتھرس کے بعد مظاہرین نے دلت خواتین کے ساتھ ہونے والی ظلم کے بارے میں متنبہ کیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ظلم کا شکار کوئی دلت لڑکی پھولن دیوی کی طرح بندوق اٹھا لے۔

مظاہرین نعرہ لگا رہے تھے، ’اگر ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوگا، تو ہمیں پھولن دیوی کی طرح بندوق اٹھانا بھی آتا ہے۔‘

لیکن ہاتھرس کے واقعے کے بعد #dalitlivesmatter ہیش ٹیگ اور سوشل میڈیا پر غصہ نکالنے کے بعد خبروں کا کاروان آگے دیگر خبروں کی جانب بڑھ گیا۔

ہاتھرس کے واقعے کے متاثرہ خاندان کے ساتھ سی بی آئی اب بھی پوچھ گچھ کر رہی ہے اور ملزمان جیل میں ہیں۔ ان کے گھر کے باہر نگرانی کے لیے نیم فوجی دستے سی آر پی ایف کے جوان تعینات کر دیے گئے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اس معاملے میں سی بی آئی کی رپورٹ کب سامنے آئے گی۔

بہمائی، پھولن کا گاؤں

بہمائی سے بس سے ہاتھرس قریب پانچ گھنٹے کا سفر ہے۔ بہمائی وہ گاؤں ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ پھولن دیوی نے 22 ٹھاکروں کو مار ڈالا تھا۔ خود پھولن دیوی نے بعد میں اس واقعے میں ملوث ہونے سے انکار کر دیا تھا۔

اس علاقے میں آتے ہی تصویر ایک دم بدل جاتی ہے۔ گاؤں کے باہر ایک ٹوٹا پھوٹا سا گیٹ ہے جس پر بہمائی لکھا ہے۔

اس پر لکھے لفظ بھی مٹ گئے ہیں۔ ایک تنگ سڑک گاؤں کی طرف جاتی ہے جو ندی کنارے آباد ہے۔ یہاں دھول کی وجہ سے ہر تصویر دندھلی سی نظر آتی ہے۔ ایک زمانے میں یہ چٹانیں ڈاکوؤں یا ہائی وے کے لٹیروں کے لیے چھپنے کا سب سے اچھا ٹھکانا ہوا کرتی تھیں۔

india

ٹھاکروں کا قتل

اس واقع میں مارے گئے لوگوں کی یاد میں گاؤں میں ایک یادگار بھی بنی ہے، جس کی دیوار پر 20 لوگوں کے نام درج ہیں۔ پھولن دیوی، جنھیں لوگ ڈاکوؤں کی رانی کہا کرتے تھے، چٹانوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی اس گاؤں تک آئی تھیں۔

بہمائی اس علاقے کے ان کل 84 گاؤں میں سے ایک ہے جہاں ٹھاکروں کی کافی آبادی ہے۔

بہمائی میں پھولن دیوی نے 30 مردوں کو گھیر کر ان پر گولیاں چلائی تھیں، جن میں سے 22 ہلاک ہو گئے تھے، یہ چودہ فروری 1981 کا واقعہ ہے۔ اس وقت پھولن دیوی کی عمر 18 برس تھی۔

جب وہ سترہ سال کی تھیں، بہمائی کے ٹھاکروں نے ان کا اجتماعی ریپ کیا تھا۔

وہ کسی طرح ٹھاکروں کے چنگل سے جان بچا کر بھاگ نکلی تھیں اور بعد میں انھوں نے ڈاکووں کا اپنا ایک گروہ بنا لیا تھا۔

40 برس کا عرصہ کافی لمبا ہوتا ہے۔ لیکن لوگوں کو موت کا وہ خونی کھیل آج بھی یاد ہے۔ دوسری جگہوں کے لوگ اسے پھولن دیوی کا انتقام کہتے ہیں۔ وہ پھولن دیوی کو ایک بہادر اور غصے والی خاتون کے طور پر دیکھتے ہیں، جو ’چھوٹی ذات‘ کی تھی۔ اب تو پھولن دیوی کو مرے ہوئے بھی لگ بھگ 20 سال ہوگئے ہیں۔

ٹھاکروں کے قتل پر عدالتی فیصلے کا انتظار

گاؤں کے باہر ہی کچھ لوگ ایک پیڑ کے نیچے کھڑے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے خاندان کا کوئی نہ کوئی اُس دن مارا گیا تھا۔ انھوں نے مجھے اس یادگار پر جانے کو کہا جو مارے جانے والوں کی یاد میں بنائی گئی ہے۔

ان کی عمر 16 سے 65 برس کے درمیان تھی۔ ان میں سے 18 افراد بہمائی کے ہی رہائشی تھے۔ باقی دو قریب کے راجپور اور سکندرا گاؤں کے رہائشی تھے۔ دیواروں پر ان کے نام لال رنگ سے لکھے گئے ہیں۔ آج بھی کئی مندروں کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔

اس علاقے میں آج بھی لوگوں کو وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب 40 سال پہلے خون کا دریا بہایا گیا تھا۔

لوگوں کو آج بھی اس معاملے میں عدالت کے فیصلے کا انتظار ہے۔ عدالت کا فیصلہ اس سال جنوری میں ہی آنا تھا لیکن ایک گمشدہ پولیس ڈائری کی وجہ سے معاملہ پھر تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔

بہمائی، ٹھاکروں کے زیرِ اثر 84 گاؤں میں سے ایک ہے۔ یہاں دو خاندانوں کے علاوہ باقی پوری آبادی ٹھاکروں کی ہی ہے۔ بس ایک گھر براہمنوں کا اور ایک دلت خاندان ہے۔

یادگار پر لگے پتھر پر لکھا ہے کہ 14 فروری 1981 کی شام کو قریب چار بجے ڈاکووں کے ایک گروہ نے نہتے، معصوم اور نیک دل لوگوں کو مار ڈالا تھا۔

بہمائی کے عوام کو میڈیا سے کسی ہمدردی کی توقع نہیں ہے۔ یہاں پھولن دیوی کے قصے نے ان کے درد کو بھی نگل لیا ہے۔ گاؤں کے لوگ آج بھی اس قتل عام کا سوگ منا رہے ہیں۔ وہ پھولن دیوی کو بے رحم قاتل تصور کرتے ہیں۔

بہمائی کے سربراہ جے ویر سنگھ اس دن گھر پر نہیں تھے، جب فروری کی اس سرد شام ٹھاکروں کو لائن میں کھڑا کرکے گولیاں مار دی گئیں تھیں۔

’ہر سال 14 فروری کو برسی منائی جاتی ہے‘

جے ویر سنگھ کہتے ہیں کہ ’پھولن دیوی اپنے گروہ کے ساتھ چٹانوں میں گھومتی رہتی تھیں۔ شری رام اور للا رام (وہ ڈاکو جنھوں نے پھولن کے عاشق وکرم ملاح کو ہلاک کیا تھا) بھی ہمارے گاؤں کے نہیں تھے۔ ان کا گاؤں دمنپور تو ہمارے گاؤں سے دس کلومیٹر دور ہے۔ ہمیں امید تھی کہ بی جے پی کی حکومت آئے گی تو ہمیں انصاف ملے گا۔ لیکن ہم انصاف کی لڑائی جاری رکھیں گے۔ انھیں اپنی کرنی کی سزا تو ملنی چاہیے۔‘

اس گاؤں میں پرانے قلعوں کے کھنڈر بھی ہیں اور پکے مکان بھی۔ گاؤں کے سربراہ کے گھر پر چل رہے تھریشر کے شور میں بھی ان کی آواز گونجتی ہے، جب وہ کہتے ہیں کہ پھولن دیوی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوئی۔ یہ تو پولیس اور میڈیا کا بنایا ہوا ایک قصہ ہے۔

جے ویر سنگھ کہتے ہیں ’ہر تہوار پر ہماری بیوائیں روتی ہیں، ہمارے بچے آنسو بہاتے ہیں۔ ہر سال 14 فروری کو ہم اس قتل عام کی برسی مناتے ہیں۔‘

ایک زمانے میں پھولن دیوی انڈیا کی ’موسٹ وانٹیڈ‘ عورت بن گئی تھیں۔ ان پر حکومت نے دس ہزار ڈالر کا انعام رکھا تھا۔ بہمائی گاؤں کے سربراہ کہتے ہیں ’اس زمانے میں پولیس والوں اور ڈاکوؤں میں فرق کر پانا بہت مشکل تھا۔ دونوں ہی خاکی وردی پہنتے تھے۔ وہ اکثر پینے کا پانی یا کھانا لینے گاؤں آتے تھے۔ وہ تو قانون کی نظر میں مجرم تھے۔ ایسے میں یہ چٹانیں ان کے چھپنے کا سب سے اچھا ٹھکانا ہوا کرتی تھیں۔‘

پھولن دیوی کا گاؤں

لوہے کے گیٹ پر لکھا ہے کہ یہ بہادر خاتون پھولن دیوی کا گھر ہے، جو شہید ہو گئیں۔ ایکلویہ سینا نے یہاں پر پھولن دیوی کا ایک مجسمہ بھی نصب کر رکھا تھا۔

ایکلویہ سینا کی بنیاد خود پھولن دیوی نے ہی رکھی تھی۔ اس کا مقصد ’چھوٹی ذات‘ کے لوگوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف لڑنا تھا۔ اس گھر کے اندر ہی پھولن دیوی کا مجسمہ لگا ہوا ہے۔

اب یہاں پھولن کی والدہ مولا دیوی رہتی ہیں۔

اونچے چبوترے پر لگے اس مجسمے تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں بنی ہیں۔ ساڑھی پہنے اور ہاتھ جوڑے کھڑے ان کے مجسمے کو دیکھ کر قطعی نہیں لگتا کہ یہ وہی پھولن دیوی ہیں جو خاکی وردی پہنے بندوق اٹھائے چلتی تھیں۔۔۔ جن کی کمر سے پستول لٹکتی رہتی تھی اور جو اپنے ماتھے پر لال رنگ کا کپڑا باندھتی تھیں تاکہ بال قابو میں رہیں۔

ایکلویہ سینا اب پھولن دیوی کو ایک سنت، ایک مسیحا اور ساڑی پہن کر، ہاتھ جوڑے کھڑی خاتون کے طور پر پیش کرتی ہے۔

یہ پھولن دیوی کی سیاسی شبیہ ہے، جسے ان کی موت کے بعد ترتیب دیا گیا ہے۔

اب پھولن دیوی کے مداح ان کی اسی شبیہ کی یاد کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔

پھولن کی یہاں دیوی کی طرح پوجا کی جاتی ہے

پھولن دیوی کا گاؤں مین روڈ سے کچھ فاصلے پر دریا کے کنارے واقع ہے اور یہاں زیادہ تر آبادی ملاحوں کی ہے۔ ملاح ’دیگر پسماندہ طبقے‘ میں آتے ہیں۔

اس قتل عام کو قریب 40 سال گزر چکے ہیں۔ دریا کنارے بسے اس گاؤں میں پھولن واقعی دیوی کی طرح پوجی جاتی ہیں۔ وہیں دریا کے پار والے گاؤں میں پھولن دیوی ایک قاتل ہیں۔

یہاں دو یادگاریں ہیں۔ ایک پھولن دیوی کے ٹھاکروں سے لیے گئے انتقام کی علامت ہے۔ وہ ٹھاکر جو صدیوں سے پھولن دیوی جیسی ’چھوٹی ذات‘ والوں کا استحصال کرتے آئے تھے۔ وہیں دوسری یادگار ان لوگوں کی یاد میں بنائی گئی ہے جو اس دن مارے گئے تھے۔

دونوں ہی گاؤں میں اکثر گھنٹیوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ دونوں گاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے کبھی نہیں ملے۔ وہ ایک دوسرے سے دور ہی رہتے ہیں۔ یہ روایت آج بھی قائم ہے۔

پھولان کا تذکرہ گیتوں میں کیا جاتا ہے

انیل کمار پھولن دیوی کی اس ٹیم کا حصہ رہے ہیں جو مرزاپور میں الیکشن لڑتے وقت ان کے لیے کام کر رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ تب سے اب تک کچھ خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

انیل کمار کہتے ہیں کہ، ’ٹھاکر ہم سے جلتے ہیں۔‘

انیل کمار جو گیت گاتے ہیں وہ بیہڑ کی رانی کا ہے۔ جو ان کی اپنی برادری سے تھیں۔ وہ گیت پھولن کی گرفتاری کا منظر بیان کرتا ہے۔

پھولن دیوی ملاح برادری میں پیدا ہوئیں۔ ملاح آج بھی شادی بیاہ کی تقریبوں میں گائے جانے والے گیتوں میں پھولن کا ذکر کرتے ہیں۔

وہ انھیں تہواروں پر یاد کرتے ہیں، خاص طور پر اکتوبر کے مہینے میں جب ماں درگا گھر آتی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پھولن دیوی ہمیشہ اپنی جیب میں ماں درگا کا ایک چھوٹا مجسمہ رکھا کرتی تھیں، اور ان کے ہتھیار ڈالنے کے وقت بھی جو خبریں سامنے آئی تھیں ان میں بھی لکھا گیا تھا کہ سرنڈر کرتے وقت بھی درگا کی ایک مورتی پھولن دیوی کے ساتھ تھی۔

امریکی اخبار دی ایٹلانٹک میں میری این ویور نے 1996 میں ایک مضمون میں لکھا کہ کس طرح ’فروری 1983 کی شدید سردی والی شام میں پھولن دیوی بھورے رنگ کا اونی کمبل لپیٹے ہوئے اور لال رنگ کی شال سر پر ڈالے، مدھیہ پردیش کے چمبل کی چٹانوں سے اپنے گروہ کے بارہ ارکان کے ساتھ نکلی تھیں۔ ان کے کندھے سے 315 بور کا پستول لٹک رہا تھا۔ پھولن کے بیلٹ سے ایک درانتی بھی لٹکی ہوئی تھی، اور ان کے سینے کو کارتوسوں کی پٹی نے ڈھکا ہوا تھا۔‘

پھولن دیوی اور ان کا گروہ غریبوں میں بہت مقبول ہوا جو انھیں اپنے مددگار اور مسیحا کے طور پر دیکھتے تھے۔

انیل کہتے ہیں کہ ’وہ جب گاؤں آتی تھیں تو لڑکیوں کی شادی کے لیے زیور لے کر آتی تھیں۔ وہ غریبوں کے خاندانوں کو پیسے دیا کرتی تھیں۔‘

پھولن کے قصے آج بھی فضاؤں میں ہیں

ایک باغی کے رومانی قصے آج بھی یہاں کی فضاؤں میں ہیں۔ جب پھولن دیوی نے بھنڈ ضلع کے ایک گاؤں میں سرنڈر کیا تھا تو کسی کو پتا نہیں تھا کہ پھولن دیوی کیسی دکھتی ہیں۔

پولیس کے پاس بھی پھلون دیوی کی کوئی تصویر نہیں تھی۔ پھولن دیوی نے اپنی شرطوں پر پولیس کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ ارجن سنگھ کے اس سیاسی قدم کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے بھرپور انداز میں کور کیا تھا۔

تب بہت سے صحافیوں نے لکھا تھا کہ ’جب ایک چھوٹے قد کی عورت نے آگے آ کر، بھیڑ کی طرف منہ کر کے اپنے ہتھیار اٹھائے اور زمین پر رکھ کر ہاتھ جوڑے، تو بہت سے لوگوں کو کافی افسوس ہوا تھا۔ انھیں لگا تھا کہ پھولن دیوی قد آور، خوبصورت مگر خطرناک خاتون ہوں گی۔‘

جس ڈاکو کو صحافیوں نے ڈاکو حسینہ کہہ کر اس کے بارے میں ایک کہانی گڑھی تھی، اسے حقیقت میں دیکھ کر بہت سے لوگوں کے دل ٹوٹے تھے۔

GETTY IMAGES

ڈاکو حسینہ سے جیل اور پھر پارلیمان تک کا سفر

انڈیا ٹوڈے کے ایک صحافی نے پھولن دیوی کے سرنڈر سے پہلے انہھں ’ڈاکو حسینہ‘ اور ’بیہڑ کی رانی‘ جیسے القاب سے نوازا تھا۔ لیکن جب پھولن نے سرنڈر کیا تو اسی صحافی نے پھولن کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کیے، ’وہ بہت پھیکی رنگت والی، بے حد چنچل دماغ والی بچکانہ اور تیز لڑکی تھی، جو بہت جلدی بھڑک اٹھتی تھی اور اسی لڑکی نے علاقے میں ہنگامہ کھڑا کر رکھا تھا۔‘

پھولن دیوی کو بنا مقدمہ چلائے قریب 11 برس کی قید ہوئی۔

جب ملائم سنگھ یادو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے سرکاری وکیلوں کو پھولن دیوی پر لگے تمام الزامات واپس لینے کا حکم دیا، جس کے بعد فروری 1994 میں انھیں قید سے رہا کر دیا گیا۔

پھولن دیوی کی رہائی کو ’پسماندہ ذات‘ والوں نے ’اونچی ذات‘ والوں کے خلاف ایک بغاوت کے طور پر دیکھا۔ اپنے اور ’چھوٹی ذات‘ کے دوسرے لوگوں پر ہونے والے مظالم کا انتقام لینے والی پھولن دیوی، ذات کی بنا پر بنے اس نظام کو چیلینج کرنے کی ایک علامت بن گئیں۔

اپنی رہائی کے دو سال بعد پھولن دیوی نے مرزا پور سے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا الیکشن لڑا اور جیت گئیں۔ 1999 میں انھوں نے پھر سے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم 38 سال کی عمر میں پھولن دیوی کو دہلی میں واقع ان کے گھر کے باہر گولی مار دی گئی۔

بہمائی آج بھی انصاف کے منتظر ہیں

ایک بزرگ خاتون کو آج بھی اس بات کا انتظار ہے کہ مرنے سے پہلے انھیں انصاف ملے گا۔

شری دیوی کہتی ہیں کہ وہ انتظار کر رہی ہیں، لیکن انھیں کوئی امید نہیں ہے۔ بہمائی کے قتل عام میں شری دیوی کے سسر اور دیور ہلاک ہو گئے تھے۔ اس وقت شری دیوی کی عمر 24 برس تھی اور ان کی چار چھوٹی بیٹیاں تھیں۔

وہ اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’ہمیں کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ ہمارے آدمیوں کو کہاں لے گئے۔ ہم تو شام کو لاشیں دیکھنے گئے تھے۔‘

شری دیوی پوچھتی ہیں، ’کیا اب ہمیں انصاف ملے گا؟ پھولن دیوی مر چکی ہیں۔ اب اس دن کے بارے میں بات نہ کریں۔ اس سے تکلیف دہ یادیں واپس آ جاتی ہیں۔ ہم اس دن کو بھولے ہی کہاں ہیں۔‘

دلتوں پر تشدد میں اضافہ

یہ جدوجہد تو صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ اسی کی ایک اور مثال ہمیں ہاتھرس میں ایک ماہ پہلے دیکھنے کو ملی تھی۔ جب 19 برس کی ایک دلت لڑکی کو ٹھاکروں نے ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ اس لڑکی کے کردار پر سوال اٹھائے گئے۔ کیس میں ایک دعویٰ یہ بھی کیا گیا کہ خود لڑکی کے خاندان نے اپنی عزت بچانے کے لیے اپنی ہی بیٹی کو مار ڈالا۔

حالیہ برسوں میں دلت لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے اور یہ بات نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار سے واضح ہے۔

پچھلے سال انڈیا میں ہر دن دس دلت لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے واقعات درج کیے گئے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں۔

عورتوں کے ساتھ تشدد اور لڑکیوں کے خلاف جنسی جرائم کے معاملے میں اتر پردیش پورے ملک میں پہلے نمبر پر ہے۔ پھولن دیوی کا تعلق جس ذات سے تھا وہ ’دیگر پسماندہ طبقات‘ میں سے ایک ہے، تاہم پھر بھی وہ ٹھاکروں کی طاقت کے خلاف بغاوت کرنے والی ’چھوٹی ذات‘ والوں کی علامت بن گئیں۔

گاؤں والوں کی میوزیم بنانے کی خواہش

انیل کمار کہتے ہیں کہ، ’پھولن دیوی نے جس راستے کا انتخاب کیا وہ کوئی آسان تو تھا نہیں۔ ہمارے لیے وہ باغی ہیں۔ اور باغی وہ ہیں جو مشکل زندگی جیتے ہیں۔ وہ باغی اس لیے ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔ ’چھوٹی ذات‘ کے لوگوں نے ٹھاکروں کی بہت دہشت برداشت کی ہے۔ وہ سب ٹھکروں کی یہ دہشت ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘

انیل کمار یاد کرتے ہیں کہ جس دن پھولن دیوی کا قتل ہوا اس دن پورا گاؤں غم زدہ تھا۔

پھولن دیوی کا گاؤں آج بھی الگ تھلگ ہے۔ دریا پر ایک پل بننا تھا، مگر وہ آج تک نہیں بنا، گاؤں کے لوگ کافی عرصے سے ڈگری کالج کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ پھولن دیوی کا انتخابی حلقہ تو نہیں تھا لیکن اگر آج وہ زندہ ہوتیں تو یقیناً یہاں کے لوگوں کی مدد کرتیں۔

گاؤں کے لوگ پھولن دیوی کی یاد میں ایک میوزیم بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جہاں وہ پھولن دیوی کی تمام چیزیں رکھیں گے، ان کی وردی، لال سکرٹ، لال شال اور جوتے وغیرہ۔

گاؤں کے لوگوں نے پھولن دیوی کے قصے کو اپنے لوک گیتوں کا حصہ بنا لیا ہے۔ وہ اس انتقام لینے والی باغی عورت کو یاد رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

گاؤں کی لڑکیوں کو بھی پھولن دیوی کا قصہ معلوم ہے اور انھیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ پھولن دیوی کے گاؤں سے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس خاتون کا قصہ بھی پرانا پڑنے کا ڈر ہے، جس نے ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی جرآت کی۔

انیل کمار کو اس بات کی بہت فکر ہے کہ پھولن دیوی کی یادوں کو کیسے سمیٹ کر رکھا جائے۔

پھولن کا خاندان

اس گاؤں میں سو سے زیادہ خاندان رہتے ہیں اور وہ اپنی بیٹیوں کو ’چیریا‘ (چڑیا) کہہ کر بلاتے ہیں۔ جب پھولن دیوی کا مجسمہ یہاں لگایا گیا تھا تو پھولن کی ماں نے کہا تھا کہ ان کی چیریا لوٹ آئی ہے۔

پھولن کی چھوٹی بہن جو ماں کا خیال رکھا کرتی تھیں وہ اب نہیں ہیں، اور پھولن دیوی کی بڑی بہن رکمنی دیوی سیاسی رہنما بن چکی ہیں۔ کل ملا کر پھولن دیوی کی چار بہنیں تھیں۔

پھولن دیوی کی ماں زیادہ نہیں بولتیں۔ رام کلی، جو پھولن دیوی کی والدہ کا خیال رکھتے تھے، وہ بھی گزر چکے ہیں۔ اب گاؤں میں رام کلی کا بیٹا اور ان کی بیوی رہتی ہیں۔ رکمنی دیوی اب گوالئیر میں رہتی ہیں۔

ہاتھرس میں ریپ اور قتل ہونے والی لڑکی کی لاش کو ان کے خاندان والوں کی اجازت کے بغیر جلا دیا گیا تھا۔ چتا کی راکھ اب بھی وہاں موجود ہے۔ وہیں جالون کے گاؤں میں ڈاکو حسینہ کی یاد میں آج بھی گیت گائے جاتے ہیں۔

ان دونوں کے درمیان پانچ گھنٹے اور چالیس برس کا فاصلہ ہے۔ یہی فاصلہ انصاف اور ناانصافی کے درمیان بھی ہے۔ آخر میں سب کچھ ایک فاصلہ ہی تو ہوتا ہے۔ ایک منزل سے دوسرے ٹھکانے کے درمیان کا فاصلہ۔ عدالت سے عوام کے درمیان فاصلہ۔ لوگوں کے دو فرقوں کے درمیان کا فاصلہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp