خادم رضوی تاریخ کے آئینے میں


دنیا میں ایسی شخصیات بہت کم ہوں گی جن کے بارے میں تاریخ کا ایک موقف اور فیصلہ ہوگا جبکہ بے شمار ایسی شخصیات ہیں جن کے متعلق تاریخ کوئی ایک موقف نہیں رکھتی بلکہ ان کے چاہنے والے اور ان کے مخالفین کے متضاد بیانات اور خیالات تاریخ کا حصہ ہیں۔ خادم حسین رضوی بھی ایسی شخصیات میں شامل ہیں جن کے متعلق متضاد آراء موجود ہیں۔ وفات سے پہلے جہاں ان کے حامیوں کا ایک طبقہ تھا وہیں ان پر بہت زیادہ تنقید بھی ہوتی تھی اور وفات کے بعد بھی لوگ انہیں کوئی ایک درجہ دینے پر راضی نہیں۔

جہاں ان کی بے باکی، بے خوفی اور عشق رسول کی باتیں ہو رہی ہیں وہیں ان کے سخت لب و لہجہ، گالم گلوچ اور بے لچک شخصیت کا بھی تذکرہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ ان کی وفات پر ان کی قدرومنزلت اور عزت میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ کوئی منفرد بات نہیں جب بھی کسی کی وفات ہوتی ہے تو یہ فطری اور اخلاقی تقاضا ہے کے ہم اس کو اچھے لفظوں میں یاد کریں۔ 2017 سے پاکستان کے مذہبی و سیاسی افق پر نمودار ہونے والے دونوں ٹانگوں سے محروم علامہ خادم حسین رضوی 19 نومبر 2020 کو 54 سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کر گئے۔

خادم حسین رضوی 22 جون 1966 کو پنجاب (پاکستان) کے ضلع اٹک، تحصیل پنڈی گھیب کے ایک قدیم قصبے نکہ کلاں میں اعوان برادری سے تعلق رکھنے والے حاجی لعل خان کے گھر پیدا ہوئے۔ اگرچہ ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں لیکن میسر معلومات کے مطابق انہوں نے چوتھی کلاس تک تعلیم اپنے قصبے سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جہلم چلے گئے۔ اس سفر میں انہوں نے قرآن پاک حفظ کیا اور درس نظامی کی ڈگری حاصل کی۔

1993 میں خادم حسین رضوی نے محکمہ اوقاف کے تحت داتا دربار کے نزدیک واقعہ پیر مکی مسجد میں خطیب کے طور پر ملازمت شروع کی۔ 2009 میں لاہور اپنے آبائی گاؤں جہاں ان کے بڑے بھائی ایک مسجد تعمیر کروا رہے تھے جاتے ہوئے ڈرائیور کو نیند آنے کی وجہ سے ان کی گاڑی ایک کھائی میں جا گری جس سے ان کے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا اور پھر وہ کبھی اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو سکے۔ خادم حسین رضوی کو شہرت گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی سزائے موت کے فیصلے پہ حکومت وقت کے خلاف سخت موقف اپنانے سے ملی۔

جس کی وجہ سے انہیں محکمہ اوقاف نے ملازمت سے بھی فارغ کر دیا۔ اس کے بعد ختم نبوت کی شق میں ترمیم کرنے پر حکومت کے خلاف فیض آباد انٹر چینج پر دھرنے کی وجہ سے ان کا نام پورے ملک میں مشہور ہو گیا۔ حکومتی پابندیوں اور دیگر اختلافات کی وجہ سے نیشنل میڈیا نے انہیں زیادہ کوریج نہ دی جس کی کمی انہوں نے سوشل میڈیا کو بھرپور استعمال کر کے پوری کی۔ اپنے دیرینہ ساتھی اشرف آصف جلالی سے اختلاف کے بعد انہوں نے تحریک لبیک پاکستان کے نام سے اپنی سیاسی جماعت رجسٹر کروا لی۔

خادم حسین رضوی کے سخت لب و لہجہ اور مقتدر حلقوں پر بلا امتیاز تنقید نے انہیں متنازعہ شخصیت بنا دیا۔ خادم حسین رضوی نے اپنی تقریروں میں عدالت، فوج، حکومت، میڈیا کسی کو بھی نہ بخشا۔ حتی کہ پاکستان کے ہیرو عبدالستار ایدھی کی وفات پر انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنا ڈالا کہ ”اس نے پاکستان کو ایسا کیا دیا ہے جو اسے اتنی عزت اور سرکاری اعزاز دیا جا رہا ہے“ ۔ خادم حسین رضوی ایک اچھے عالم، مقرر اور با اثر شخصیت تھے۔

جتنی خوبصورتی سے انہوں نے علامہ اقبال کی شاعری کو پڑھا شاید ہی کوئی پڑھ سکے۔ لوگ حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ان کی عقیدت اور عشق کو تو مانتے ہیں لیکن وہ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ خادم صاحب کی اکثر باتیں اور طریقہ کار اسلامی اصولوں کی نفی ہے۔ ان پہ یہ بھی اعتراض کیا جاتا رہا کہ ”انہوں نے مذہب کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا“ جس کی خادم حسین رضوی نے تردید کر دی۔ یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ خادم حسین رضوی کی جذباتی تقریریں اشتعال انگیزی کا باعث بنیں۔

خیر اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کے متعلق بات تو ہوتی رہے گی۔ ان کے حامی کہہ رہے ہیں کہ جب بھی عشق رسول اور ناموس رسالت کی بات ہوگی علامہ خادم حسین رضوی کا نام لیا جائے گا۔ جبکہ ان کے مخالفین کہہ رہے ہیں کہ جب بھی مذہبی انتہا پسندی، عدم برداشت اور اشتعال انگیزی کی بات ہوگی تو خادم حسین رضوی کا نام لیا جائے گا۔ تاریخ بہت بے رحم ہے وہ اپنا فیصلہ سنانے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتی۔ میرے مطابق تاریخ کے امتحان میں عبدالستار ایدھی کے نمبر خادم حسین رضوی سے ہمیشہ زیادہ ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).