خادم حسین بھی رخصت ہوگئے



امام عالی مقام سیدنا امام حسین نے ذی حسم کے مقام پر اپنے ایک خطبہ میں دنیا کی تبدیلی، نیکیوں سے روگردانی پر فرمایا تھا کہ، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ حق پر عمل نہیں ہوتا، باطل سے پرہیز نہیں کیا جاتا، مومن کو اب چاہیے کہ حق پر رہ کر خدا سے ملاقات کرے، میں دیکھتا ہوں کہ مرجانا شہادت ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ناگوار امر ہے، (تاریخ الطبری:ج: 5، ص: 403 ) ”۔

امام عالی مقام کے اقدار کو زندہ رکھنے والے نایاب لوگ ہوتے ہیں اسی لیے تو علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ

”گرچہ تابدار ہے، اب بھی گیسوئے دجلہ وفرات
قافلۂ حجاز میں، ایک حسین بھی نہیں۔ ”“

یہ ستم ہی تو ہے کہ محبت حسین کے دعوے دار تو بہت ہیں اور اپنے اپنے انداز میں ان کی یاد بھی مناتے ہیں، ان کا غم بھی تازہ کرتے، مگر ان کی اقدار کو زندہ کرنے والے آج بھی نایاب ہیں۔ انہی کامیاب ترین نایاب تابندہ ستاروں میں دمکتا ستارہ جو آج ہماری نظر سے اوجھل ہو گیا وہ تھے حافظ القرآن، شیخ الحدیث، امیر المجاہدین عاشق رسول مرد قلندر صالح مومن ماہر اقبالیت حضرت علامہ مولانا خادم حسین رضوی۔ علامہ خادم حسین رضوی تحفظ ختم نبوت کی ایک پرجوش اور جاندار آواز بن کر ابھرے۔

ان کے انداز بیان اور جوشیلے پن سے جہاں اپنے خائف وہیں بیگانے بھی ناخوش تھے مگر یہ سب جانتے تھے کہ وہ ذاتی زندگی میں ملنسار، نرم مزاج، خوش طبیعت اور محبت کرنے والے انسان ہیں مگر آقائے دوجہاں خاتم النبین رحمت للعالمین صلی اللہ وعلیہ والہ و سلم کی حرمت و ختم نبوت کے معاملے میں صحابہ کرام ہی کی سنت پر عمل پیرا تھے وہ حرمت رسول و ختم نبوت کے معاملے پر لچک دکھانے، مصلحت کا شکار ہونے اور کمزور موقف کے سخت مخالف تھے۔ ختم نبوت اور حرمت رسول پر پہرہ دیتے ہوئے ذاتی زندگی میں نرم یہ شخص اقبال کے اس شعر کی تصویر بن جایا کرتا تھا کہ،

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

علامہ خادم حسن رضوی کی وفات سے قبل ان سے اختلاف رکھنے والے بھی آج ان کی حق گوئی، اور سرکار علیہ الصلوة والسلام سے عشق اور موقف کی پختگی کی داد دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ خادم حسین رضوی اپنے رب کے حضور پیش ہوچکے مگر تاجدار ختم نبوت زندہ باد، زندہ باد کا درس اس عہد کے ہر بچے، جوان اور بزرگ کو یاد کرواگئے۔ جب بھی حرمت رسول کی بات آئی یا ختم نبوت پر شب خون مارنے کی کوشش کی گئی اس نے موسم کی سختی دیکھی نہ طبیعت کی ناسازی دن نہ رات بارش نہ سرد ہوائیں بس آرام دہ بستر سے اٹھا اور میدان کارزار میں پہنچ گیا۔

جب بڑے بڑے آستانے، بزرگ اور سجادہ نشین مصلحت کی چادر اوڑھے خواب خرگوش کے مزے لیتے نظر آتے دونوں ٹانگوں سے معذور وہ شخص تحفظ ختم نبوت کے عملی میدان میں دکھائی دیا گرچہ وہ عزیمت کے بجائے رخصت کا راستہ چن سکتا تھا مگر امام عالی مقام سیدنا امام حسین کے اس سچے پیروکار اور خادم نے خادم حسین ہونے کا ثبوت دیا اور امام عالی مقام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے عزیمت کا انتخاب کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ امام عالی مقام کی شہادت کے بعد جس طرح یزید خوش ہوا کہ وہ جیت گیا امام کو شہید کر دیا گیا اب اس کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں رہا عین اسی طرح آج کی یزیدی سوچ بھی خوش اور بغلیں بجاتی دکھائی دے رہی کہ اس ایک مرد مجاہد کے جانے سے ان کے ناپاک عزائم مکمل ہوجائیں گے مگر وہ بھول گئے کہ جب بھی یزیدی سوچ جنم لے گی کہیں نہ کہیں سے رب پاک خادم حسین بھیج دے گا۔

تاریخی حوالوں سے کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جیسا کہ فتنہ قادنیت نے پنجے گاڑنے کی کوشش کی تو نورانی صاحب آہنی دیوار بن کر سامنے آ گئے، طالبانئزیشن نے زندگی عذاب کی، علماء حق کو شہید، مزارات کی بے حرمتی کی جانے لگی تو مرد حق صاحبزادہ فضل کریم کی صورت میں رب پاک نے تحریک پیدا کردی۔ صاحبزادہ فضل کریم کی وفات پر دل میں یہ ہی وہم وگمان تھے کہ حق گوئی اور صداقت کی آخری آواز بھی خاموش ہو گئی مگر اس وقت کس نے سوچا تھا کہ جب حکومتی سرپرستی میں اسلامی شعائر کی توہین کی جائے گی، مساجد کی آوازیں دبائی جانے لگے گی، ختم نبوت کی عظیم جدوجہد کو پس پشت ڈال کر قومی اسمبلی کے رکنیت فارم سے ختم نبوت کے حلف نامے کو ختم کیا جائے گا تو دونوں ٹانگوں سے معذور ایک مرد حر سامنے آئے گا اور ایک تاریخ رقم کر جائے گا۔ لیکن پھر چشم فلک نے دیکھا کہ پچاس سال کا معذور شخص دیدہ و نادیدہ قوتوں سے ٹکراگیا ایسا چلایا کہ صدیوں سنائی دیتا رہے گا یہ محض اتفاق نہیں بلکہ یہ قانون قدرت ہے کہ جب بھی فتنہ آئے گا حسین کا کوئی نہ کوئی خادم سامنے آ جائے گا کیونکہ۔

نورخدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ خادم حسین رضوی کی وفات سے امت مسلمہ ایک سچے عاشق رسول اور ماہر اقبالیات سے محروم ہو گئی۔ علامہ خادم حسین رضوی کی کرشماتی شخصیت میں اقبال کی شاعری کا ایک بہت بڑا کردار تھا انہیں اقبال کے اشعار ازبر تھے اور وہ ان کی تشریح بھی شاندار کرتے تھے اور شاید یہ اقبال کی شاعری کا ہی فیض تھا کہ علامہ خادم حسین رضوی نہ جھکے نہ بکے کیونکہ اقبال نے فرمایا تھا کہ

آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

خود کو عقل کل جاننے والے ٹی وی چینلز کے اینکرز ہوں یا طاقت کے گھمنڈ کا شکار حکمران جس نے بھی دین اسلام، شریعت رسول یا عقیدہ ختم نبوت پر آئیں بائین شائیں کی کوشش کی خادم حسین رضوی نے اپنا موقف بغیر کسی مصلحت اور لپٹی لپٹائی کے پیش کیا۔ ان کے ناقدین کو ان کے انداز گفتار سے اختلاف تھا لیکین ناقدین آج تک یہ نہ سمجھ سکے کہ حرمت رسول اور تاجدار ختم نبوت کی تعظیم میں ہم ہر حد کو چھو سکتے ہیں۔ کوئی ایک ناقد ایسا نہیں جو بولے کہ خادم حسین نے اس سے ذاتی مقصد کے لیے اخلاقیات کا دامن چھوڑا ہو۔

ان کی زندگی کا مقصد محض دین اسلام کی سربلندی تھا اسلام آباد کے پہلے دھرنوں کے بعد جب انہیں گرفتار کیا گیا اور وہ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر کے رہا کیے گئے تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اب یہ خاموش ہوجائیں گے، مگر چشم فلک نے دیکھا کہ وہ شخص ہر بار گرجا اور یوں برسا کہ ہر بار نئی تاریخ رقم کرگیا۔ خادم حسین رضوی کے جلسوں اور جلوسوں کو میڈیا بلیک آؤٹ کیا گیا، حکمرانوں نے ان کے خلاف بیان بازیاں کی ان پر پابندیاں لگائی گئی مگر جمعہ کو اس بزرگ عالم کا جسد خاکی بھی فرما رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی عزت پر پہرا دینے والے کبھی نہیں مرتے۔

ان کے جنازے میں لاکھوں کی تعداد میں شریک افراد، میڈیا کی خصوصی کوریج، مسلمانوں کے تمام مسالک کے علماء کرام کے تعزیتی بیانات، زندگی میں ان پر اور ان کی تحریک پر گولیاں اور شیل برساتی ریاستی مشینری کا بعد از وفات پروٹوکول اور حکمرانوں کا اظہار افسوس اللہ کے شیر کے اس جملے پر مہر صداقت ثبت کر گیا کہ ”عزت اسی کی ہوگی جو رسول اللہ کی عزت و توقیر کی بات کرے گا“ ۔

انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ حمد میں دنیا سے مسلمان گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).