جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات اور اجتماعی ذمہ داری


وطن غزیز اس وقت شدید مالی اور انتظامی بحران سے گزر رہا ہے۔ مگر سب سے بد ترین اورخطرناک بحران یہاں اخلاقی بحران ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی یا بربادی کا تعلق اس ملک کے باشندوں کے اخلاقی اقدار سے بڑا تعلق رکھتا ہے۔

بڑوں سے سنا تھا، پرانے وقتوں میں حیا اور حرمت کا بہت خیال کیا جاتا تھا۔ ماؤں بہنوں کو سانجھا سمجھا جاتا تھا چاہے وہ دشمن کی ہی کیوں نہ ہوں۔ اب مجھے لگتا ہے کہ وہ پتھروں کے زمانے کی بات کرتے ہوں گے ۔ جدید ریاست مدینہ میں نہ تو عزتیں محفوظ ہیں اور نہ ہی مال و جان۔ انسان کب انسایت کے درجے سے اتر کر بلکہ گر کر حیوانیت کی ذلیل ترین تہہ تک پہنچا ہے یہ پورے معاشرے نے دیکھا ہے۔ ہمارے یہاں حرمت رسول ہے مگر حرمت بنت بتول نہیں ہے، ہمارے یہاں حرمت صحابہ ہے مگر حرمت بنت حوا نہیں ہے۔

ہم ولیوں کی قبروں پر چادریں چڑھانے والے لوگوں کی بیٹوں کی چادریں پھاڑ دیتے ہیں، ہم بیٹیوں کے جہیز بنانے والے بہؤوں کی عصمتیں لوٹ لیتے ہیں، ہم ماؤں کے قدموں تلے جنت بنانے والے بچوں کے سامنے ان کی ماں کو درندگی کا نشانے بناتے ہیں۔ ”ہم“ میں معاشرے کا ہر ایک فرد شامل ہے کیونکہ ہم ناموس کا رکھوالے ہی اصل میں درندے بن چکے ہیں۔ ہر روز سنتے اور دیکھتے ہیں، تین ماہ کی بچی سے لے کر 86 سال کی بڑھیا تک، نہ صرف صنف نازک بلکہ ماؤں کے نا جانے کتے راج دلارے بغیر رنگ، نسل، جنس یا عمر کی تفریق ابن آدم کی بدترین ہوس کا نشانہ نبتے ہیں اور یہی تلک بات نہیں رکتی، زندہ تو پھر زندہ یہاں تو قبروں سے مردے نکال کر ہوس کا نشانہ بن جاتے ہیں اور ہم خاموش رہتے ہیں، سر جھکا کر چلتے ہیں، منہ پھیر لیتے ہیں، آنکھیں چرا لیتے ہیں۔ منٹو نے ٹھیک کہا تھا؛ ہمارے یہاں عزت کی حقدار صرف گھر کی عورتوں کو سمجھا جاتا ہے باقی عورتیں ہمارے لئے گوشت کی دکانیں ہیں جس کے باہر ہم کتوں کی طرح زبان لٹکائے کھڑے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ درندے ہمارے گھروں کی چار دیواری تک پہنچ جائیں ان کو لگام ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان میں ریپ کیسز بڑھنے کی شرح بہت خطرناک اور تشویشناک بھی ہے۔ اگر گزشتہ سالوں سے اس کا موازنہ کیا جائے تو ایک نجی ادارے کے مطابق پاکستان میں ہر روز تقریباً 10 ریپ کیسز درج ہو رہے ہیں، اس غلیظ ترین فعل کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چھ سالوں میں 22 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن کی اکثریت پنجاب سے ہے۔ جبکہ صرف اور صرف 77 ملزمان کو گرفتار کر کہ سزا دلوائی گئی ہے۔ جبکہ 4۔ 5 ہزار مقدمات زیر سماعت ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق اندراج مقدمات اور سے آدھے سے زیادہ کیسز بدنامی اور معاشرتی پریشر کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے گرفتار ملزمان کی تعداد دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملزمان کس قدر آزادی سے ناموسوں کو داغ دار کر کہ آزادی سے دندناتے پھر رہے ہیں۔ اور سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 80 % واقعات میں مظلوم کے قریبی رشتہ دار ہمسایہ یا محلے دار ہی اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

معاشرے کے اس رویے کو بدلنے میں بہت سے عوامل شامل ہیں جس میں سے دوسری بڑی وجہ ڈرامہ سیریلز کی غیر حقیقی اور غیر اخلاقی کہانیاں ہیں اس کے بعد ہم سرے سے ہی اپنے بچوں کے ساتھ ”کمفرٹ زون“ نہیں بناتے جس کی وجہ سے ہم اپنے بچوں کی روزانہ کی روٹین ہی نہیں جان سکتے کہ وہ کس طرح کی سوچ کو پروان چڑھا رہے ہیں کن نظریات پر چل رہے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ صرف سخت سزاؤں کے ساتھ ساتھ تربیت سے بھی مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

سیکس ایجوکیشن کو نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ بچوں کے اندر جنسی شعور اجاگر ہو۔ بچوں کو ”گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ“ کے بارے میں بتانا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ ”پرائیویٹ پارٹس اور پرائیویٹ سپیس“ کے بارے میں مکمل تعلیم دینی چاہیے تاکہ وہ بچپن سے ہی خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ اور خدانخواستہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو فوراً اپنے والدین کو آگاہ کریں۔ یا

سب سے اہم مسئلہ معاشرتی رویے کو بدلنا بھی ہے، عام طور ہر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ زیادتی کا نشانہ بننے والوں کے ماتھے پہ دھبہ سجا دیا جاتا ہے اور ابھیں بدترین معاشرتی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جسمانی تکالیف برداشت کرنے والے مظلوم ساری زنگی کے لئے معاشرے کی طرف سے دی جانے والی نفسیاتی تکالیف برداشت کرتے رہتے ہیں اسی ڈر سے آدھے سے زیادہ کیسز رپورٹ نہیں ہو پاتے اور مجرمان بے ڈر ہو کر گھومتے ہیں، موقع دیکھ کر دوبارہ ایسا فعل کرنے سے نہیں گھبراتے۔ اس لئے یہ لازمی ہے کہ ظلم کے خلاف مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تا کہ حقدار کو اس کا حق مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).