دولت اسلامیہ کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو دھمکانے پر مجبور کیے گئے بچے کی شام سے امریکہ واپسی


میتھیو
شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کی ایک ویڈیو میں جس بچے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دھمکی دلوائی گئی تھی انھوں نے بتایا ہےکہ امریکہ واپس آ کر انھیں ’راحت کا میٹھا احساس‘ ہوا ہے۔

میتھیو اپنی والدہ اور سوتیلے باپ کے ساتھ شام گئے تھے۔ جب وہ دس سال کے تھے تو انھیں صدر ٹرمپ کو یہ کہتے ہوئے فلمایا گیا تھا کہ وہ امریکی سرزمین پر جنگ کے لیے تیار ہیں۔

اب وہ 13 سال کے ہیں اور ایک سال سے اپنے والد کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ سنہ 2018 میں امریکی فوج کے ذریعے انھیں امریکہ ان کے گھر لایا گیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’جو ہوا وہ اب ختم ہو چکا ہے۔ میرے لیے اب یہ سب ماضی کی بات ہے۔‘

’میں اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوا۔‘

یہ بھی پڑھیے

شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی 90 ہزار سے زائد کتب پر مشتمل ڈیجیٹل لائبریری دریافت

دولتِ اسلامیہ کی پروپیگنڈہ ’وار‘

’اتحادی دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو واپس لیں‘

میتھیو کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے لیے ان کی کونسلنگ کی گئی ہے اور وہ اس سے نکلنے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ان کے سوتیلے والد موسیٰ الحسانی سنہ 2017 کے موسم گرما میں ایک مبینہ ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے جبکہ ان کی والدہ سمانتھا سیلی کو رواں ماہ کے آغاز میں دہشت گردی کی مالی اعانت کے الزام میں ساڑھے چھ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

اپریل سنہ 2015 کی بات ہے جب بظاہر ایک عام امریکی کنبہ ترکی کے سرحدی صوبے شنلی اورفہ سے دولت اسلامیہ کے علاقے میں داخل ہوا تھا۔

میتھیو

میتھیو امریکہ میں اپنے سوتیلے والد اور والدہ کے ساتھ

بی بی سی کے پینوراما پروگرام اور امریکی سرکاری میڈیا پی بی ایس کے ساتھ پہلی بار اپنی آزمائشوں کا ذکر کرتے ہوئے میتھیو نے کہا: ’ہم ایک ایسے علاقے میں بھاگتے رہے جو بہت تاریک تھا۔ رات کا وقت تھا، جگہ جگہ خاردار تاریں لگی ہوئی تھیں۔ میرے ذہن میں بھاگتے رہنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔‘

رقہ کو دولت اسلامیہ اپنا دارالخلافہ قرار دیتی تھی۔ وہاں میتھیو کے سوتیلے والد الحسانی کو فوجی تربیت کے لیے بھیجا گیا اور وہ دولت اسلامیہ کے سنائپر (نشانہ باز) بن گئے۔

اس وقت میتھیو کی عمر آٹھ سال تھی اور انھوں نے اسے اپنے نئے گھر کے طور پر تسلیم کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے بتایا: ’جب ہم پہلے پہل رقہ پہنچے تو ہم شہری علاقوں میں تھے۔ وہ علاقہ بہت پر شور تھا، گولیاں چلنے کی آواز معمول کی چیز تھی۔ کبھی کبھی ادھر ادھر دور دھماکے بھی ہوتے۔ اس لیے ہمیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔‘

لیکن سنہ 2017 کے اوائل میں میتھیو کی والدہ نے امریکہ میں اپنی بہن کو ای میل کی اور ان سے وہاں سے انھیں نکلنے میں پیسوں کی درخواست کی۔ اس ای میل کے ساتھ انھوں نے میتھیو کی انتہائی پریشان کن ویڈیوز بھی بھیجی تھی۔

ایک ویڈیو میں الحسانی نے میتھیو کو خودکش بم والے بیلٹ ترتیب دینے پر مجبور کیا۔ اپنے سوتیلے باپ کی ہدایت پر میتھیو نے یہ کردار ادا کیا کہ وہ کس طرح خود کو بچانے والے امریکیوں کا خیر مقدم کریں گے لیکن دراصل وہ تھوڑی دیر میں انھیں دھماکے سے اڑا دیں گے۔

ایک دوسری ویڈیو میں اس بچے کو بھری ہوئی اے کے 47 بندوق کو کھولتے ہوئے دیکھا گیا۔ اُن کے سوتیلے والد نے اُنھیں ایک منٹ میں ایسا کرنے کا چیلنج دیا تھا۔

جب امریکی قیادت میں فوجی اتحاد نے رقہ پر اپنے فضائی حملوں میں اضافہ کیا تو ایک بم ان کے پڑوس کے مکان پر گرا اور وہ مکان ان کے مکان پر آ گرا اور پھر میتھیو نے ملبے اور دھول کے درمیان باہر نکلنے کا راستہ تلاش کیا۔

اگست سنہ 2017 تک رقہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا تھا لیکن پھر بھی دولت اسلامیہ اپنی فتح کی پیش گوئی کر رہی تھی اور انھوں نے میتھیو کو مزاحمت کا پیغام دینے پر مجبور کیا۔ دولت اسلامیہ نے میتھیو کی ایک ویڈیو جاری کیی جس میں اُن کی عمر دس سال تھی اور اس میں میتھیو نے امریکہ کو دھمکی دی تھی۔

میتھیو

میتھیو دولت اسلامیہ کی پروپیگنڈا ویڈیو میں

میتھیو نے اس پیغام کو دہرایا جو انھیں یاد کروایا گیا تھا۔ اس پیغام میں انھوں نے کہا: ’یہودیوں کے کٹھ پتلی ٹرمپ کو میرا پیغام: اللہ نے ہم سے فتح کا وعدہ کیا ہے اور اُس نے تمہاری شکست کا وعدہ کیا ہے۔ یہ لڑائی رقہ یا موصل میں ختم ہونے والی نہیں ہے۔ یہ تمہاری سرزمین میں جا کر ختم ہوگی۔ اس لیے تیار ہوجائیں کیونکہ لڑائی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔‘

اپنے انٹرویو میں میتھیو نے بتایا کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اور انھوں نے اپنے سوتیلے باپ کے غصے کی وجہ سے ویڈیو میں حصہ لیا۔ میتھیو نے کہا: ’وہ کبھی بھی غصے سے پھٹ پڑتے، ایسا لگتا کہ وہ ذہنی طور پر بالکل ہلے ہوئے ہیں، بہت ہلے ہوئے ہیں۔‘

اس کے فوراً بعد ہی الحسانی ایک مبینہ ڈرون حملے میں مارے گئے۔ میتھیو نے کہا: ‘میں خوش تھا کیوں کہ ظاہر ہے میں انھیں پسند نہیں کرتا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایک آدمی کے مرنے پر مجھے خوش ہونا چاہیے تھا لیکن میں خوش تھا۔ ہم سب خوشی سے چیخ رہے تھے۔‘

اس کے بعد میتھیو کی والدہ سمانتھا سیلی نے سمگلروں کو پیسے دے کر اپنے چار بچوں کے ساتھ وہاں سے نکلنے کا انتظام کیا۔ جب وہ دولت اسلامیہ کی چوکیوں سے گزرتے تو میتھیو کو ٹرک کے پچھلے حصے میں ایک بیرل کے اندر چھپا دیتے۔

جب وہ کردوں کے زیر قبضہ علاقے میں پہنچے تو انھیں ایک حراستی کیمپ میں رکھا گیا، اور وہیں 2017 کے موسم سرما سے ہی پینوراما پروگرام نے سیلی سے بات کرنا شروع کی۔

سیلی

سمانتھا سیلی نے شروعات میں اپنا مؤقف رکھا کہ وہ مجبور تھیں تاہم بعد میں انھوں نے اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا

انھوں نے بتایا کہ ان کے شوہر دھوکے سے انھیں شام لے گئے اور انھیں ان کے منصوبوں کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔

سیلی نے کہا جب ہم ایک بار رقہ پہنچ گئے تو وہ متشدد ہوگئے تھے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ انھوں نے دو یزیدی نوعمر لڑکیوں کو بطور غلام خریدا تھا اور اُن کے شوہر باقاعدگی سے ان کا ریپ کیا کرتے تھے۔

اپنے کنبے کے ساتھ امریکہ لوٹنے کے بعد جب وہ جیل میں تھیں تو وہ اس کہانی پر قائم رہیں کہ انھیں دھوکا دیا گیا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اگرچہ انھوں نے اپنے شوہر کے ’احمقانہ منصوبوں‘ میں اُن کی مدد کی تھی لیکن دولت اسلامیہ میں اُن کی شمولیت کے لیے وہ قصوروار نہیں۔

لیکن پینوراما اور فرنٹ لائن کی تفتیش میں ایسے شواہد سامنے آئے جو اس کہانی کو جھوٹ ٹھہراتے ہیں۔

سمانتھا سیلی کی ایک دوست نے بھی کہا کہ سمانتھا نے ایک بار بات چیت کے دوران ان سے کہا تھا کہ ان کے شوہر ’مقدس جنگ‘ میں شامل ہونے جا رہے ہیں۔

اور پینوراما/فرنٹ لائن کی تفتیش سے پتا چلاہے کہ سیلی نے امریکہ سے روانہ ہونے سے کئی ہفتے قبل ہانگ کانگ کا کئی بار دورہ کیا اور کم از کم 30 ہزار امریکی ڈالر نقد اور سونے کو سیفٹی ڈپازٹ باکس میں جمع کیا تھا۔

میتھیو

میتھیو اپنے والد جوان کے ساتھ

تقریباً 12 ماہ سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد سیلی نے اپنی کہانی بدل دی اور دہشت گردوں کو مالی اعانت فراہم کرنے کا اعتراف کیا۔

استغاثہ کو جب یہ پتا چلا کہ سیلی نے اپنے بیٹے میتھیو کی خودکش بیلٹ اسمبل کرنے اور ایک کے 47 کو الگ کرنے پر مجبور کرنے کی ویڈیو بنانے میں مدد کی تو وہ دنگ رہ گئے اور اسے ’دہشت انگیز‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید یہ کبھی معلوم نہ ہو کہ انھوں نے اپنے شوہر کی دولت اسلامیہ میں شامل ہونے میں مدد کیوں کی۔ وکیل دفاع نے دلیل دی کہ ان کو کنٹرول کرنے والے شوہر نے انھیں مجبور کیا۔

امریکی سرزمین پر واپس آنے کا احساس کیسا رہا؟ اس کے جواب میں میتھیو نے کہا: ’سارا دن تنگ اور چست کپڑوں یا تنگ موزوں اور جوتوں میں رہنے کے بعد انھیں اتار کر گرم غسل خانے میں موج کرنے جیسی راحت محسوس ہوئی۔ میٹھا احساس ہوا۔ اچھا لگا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp