بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ مان گئے


سوشل میڈیا کی بروقت اور تازہ ترین خبر یا اطلاع کی وساطت سے ہم بھی بروقت مطلع ہو جاتے ہیں اور جب خبر اچھی ہو تو پھر پڑھنے کو بھی دل کرتا ہے ورنہ اکثر خبریں حوصلہ افزا نہیں ہوتی اور پھر خبر ٹرمپ کی جانب سے ہو تو بڑے بوڑھوں کی طرح یک دم یا اللہ خیر کی صدا منہ سے نکلتی ہے لیکن اب کی بار جب ٹرمپ سے متعلق خبر نظروں سے گزری تو واقعی خیر کی خبر تھی اور وہ یہ کہ جب صدر ٹرمپ سے جمعرات کو پوچھا گیا کہ کیا وہ اس وقت وائٹ ہاؤس چھوڑنے پر راضی ہو جائیں گے جب انھیں الیکٹورل کالج ووٹوں میں شکست ہوتی ہے، تو انھوں نے جواب دیا کہ بالکل میں ایسا ہی کروں گا اور آپ کو بھی یہ معلوم ہے۔

تاہم انھوں نے مزید کہا کہ اگر وہ جو بائیڈن کو منتخب کرتے ہیں تو وہ غلطی کریں گے۔ انھوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ شاید وہ کبھی بھی شکست تسلیم نہ کریں۔ انھوں نے ایک مرتبہ پھر غیر مصدقہ الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے لیے شکست تسلیم کرنا اتنہائی مشکل ہو گا کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ بہت بڑا فراڈ کیا گیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ آیا وہ بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوں گے یا نہیں۔

امریکی الیکشن میں فتح حاصل کرنے کے لیے 270 یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ جو بائیڈن کو مجموعی ووٹوں کے اعتبار سے بھی صدر ٹرمپ پر 60 لاکھ ووٹوں کی مجموعی برتری حاصل ہے۔ انتخاب کنندہ (الیکٹرز) اگلے ماہ ووٹوں کے حوالے سے حتمی فیصلہ کریں گے اور اگلے برس 20 جنوری کو نومنتخب صدر جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہو گی۔

امریکی صدر اور ان کے حامیوں کی جانب سے پہلے ہی الیکشن سے متعلق مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں تاہم ان مقدمات میں سے اکثر کو عدالتیں مسترد کر چکی ہیں۔

رواں ہفتے کے اوائل میں صدر ٹرمپ نے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی ٹیم کو بالآخر اقتدار منتقل کرنے کے عمل کے آغاز پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اس فیصلے کے بعد سے بائیڈن اب ان خفیہ میٹنگز میں بیٹھ سکتے ہیں یا ان اہم حکومت عہدیداروں اور لاکھوں ڈالر کی فنڈ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جو انھوں 20 جنوری سے قبل تیاری میں مدد دے سکیں گی۔ اب تک روس واحد سپر پاور ملک ہے جس نے جوبائیڈن کو باضابطہ مبارک باد نہیں دی جبکہ ٹرمپ کی کامیابی کے وقت روس سب سے پہلا ملک تھا جس نے ٹرمپ کو مبارک باد اور تہنیتی کا پیغام بھیجا تھا لیکن اب کی بار روس کھل کر اپنی من مانی پر اتر آیا ہے اور اب تک سیاسی اور سفارتی دونوں محاذوں پر خاموشی کو برقرار رکھا ہوا یے جبکہ اس کے مقابلے میں چائنہ صدر نے پچھلے جمعرات کو کھل کر جوبائیڈن کو مبارک باد دی۔

اورساتھ ساتھ چائنہ نے اعتماد بھرے لہجے میں کہا کہ چونکہ اب تک جو بائیڈن کی پوزیشن واضح نہیں تھی تو اس وجہ سے جوبائیڈن کو مبارک باد دینے میں تاخیر ہوئی اور جیسے ہی چائنہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اب امریکا نے باضابطہ طور پر جوبائیڈن کی کامیابی کا اعلان کر دیا ہے تو چائنہ کے صدر نے بھی جوبائیڈن کے نام تہنیتی پیغام کے ساتھ ساتھ مبارک باد کا پیغام بھی بھیجا ہے۔ ٹرمپ کے ماننے یعنی وائیٹ ہاؤس چھوڑنے کی خبر سے اب وہ تمام خدشات اور پروپیگنڈے دم توڑ گئے جو ٹرمپ سے متعلق ہوتے رہے کہ ان کو وائیٹ ہاؤس سے زبردستی نکالا جائے گا، ملٹری کو بلایا جائے گا، وہاں پر بھی گیٹ نمبر چار ہے، امریکہ میں بھی ایمرجنسی لگ سکتی ہے، امریکہ میں بھی خانہ جنگی کی کیفیت پیدا یوسکتی ہے اور کوئی تو دور کی کوڑی لاتے رہے کہ امریکہ نے ہمیشہ دوسرے ممالک میں مارشل لا کی حمایت کی ہے اب کی بار امریکہ بھی اپنے ملک میں مارشل لاء کا مزہ چکھے لیکن ٹرمپ کی اس خبر نے اگر ایک جانب تمام لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہے تو دوسری طرف ان کی بولتی بھی بند کردی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).