اس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں


ہر عہد کی ایک خوشبو ہوتی ہے، کسی انجان جنگلی پودے سے آنے والی تیز مہک، بعد کے برسوں میں ہم جس کی ایک اداس کر دینے والی کیفیت میں جستجو کرتے ہیں. وہ جنگل ہی کٹ گیا، لوگ اوجھل ہو گئے، گلیاں اور مکان بدل گئے، تو وہ خوشبو کہاں رہی جو دلوں میں خوشی اور خواب جگاتی تھی. شکرگڑھ شہر سے مشرق میں کوٹ نیناں کی طرف سفر کریں تو بڈوال جنگل کے کنارے بارہ منگا کے پڑاؤ پر ایک یک و تنہا بنگلے میں چوہدری انور عزیز رہتے تھے. بنگلہ کیا تھا، موسموں کے سرد گرم کی مار کھائی دیواروں پر اداسی کی دھوپ اتر آئی تھی. برآمدوں میں پڑے ناکارہ کولروں میں جنگلی جانوروں نے گھر بنا لئے تھے. ہاں اگر انور صاحب موجود ہوتے تھے تو یہاں ہیر وارث شاہ کی تانیں اڑتی تھیں. ہاؤ و ہو کی مجلسیں برپا ہوتی تھیں. بے تکلف ملاقاتیوں کی ہنسی میں انور عزیز کے قہقہے سب سے بلند ہوتے تھے. ایک ان دیکھے خلا پر بے پناہ بذلہ سنجی کا پردہ کر رکھا تھا. یہاں الیکشن کے معرکوں کی تفصیل طے پاتی تھی. پنجاب میں انتخابی سیاست کی سر چھوٹو رام سے شیخ رشید تک پھیلی اپنی ایک ثقافت ہے اور چوہدری انور عزیز اس گہری تلیا کے شناور تھے، ممکنہ طور پر پرویز الٰہی سے بھی کئی ہاتھ آگے.

چوہدری انور عزیز نوے برس کی عمر میں رخصت ہوئے تو اپنے والد ڈاکٹر عزیز کی سو برس پرانی روایت بھی ساتھ ہی لے گئے. دانیال عزیز نے تو اسلام آباد میں سکونت اختیار کر لی ہے، اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں. کچھ اخبارات میں قیمہ کرنے کی مشین سے نکلے تعزیتی شذروں میں چوہدری انور عزیز کی پیراکی کا ذکر بھی آیا. کسی کو استحضار نہیں ہوا کہ امریکہ سے انجنیئرنگ کی تعلیم پانے والا انور عزیز “دل دریا” کے عنوان سے اخباری کالم بھی لکھتا تھا. چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد، سرخ و سپید رنگت، چوڑے شانے، مردانہ حسن کی تصویر انور عزیز کے دل میں بیک وقت تین دریا بہتے تھے، چناب کی عشق لہر، راوی کی خود سپردگی اور سندھو کا چوڑا پاٹ. انور عزیز سے مل کر پہلا احساس یہی ہوتا تھا کہ علم ذات کا حصہ بن جائے تو صاحب علم موتیے کے پھولوں کا گجرا بن جاتا ہے.

انور عزیز 31 برس کی عمر میں 62ء والی اسمبلی کا انتخاب جیتے تھے. سیاست ایک عبادت گاہ تھی، ہم نے چائنا کٹنگ کر کے اسے ہاؤسنگ سوسائٹی بنا دیا جس کی فائلیں کسی تیسرے فریق کے میز کی دراز میں رکھی ہیں. چوہدری انور عزیز طبعاً گرج چمک کی سیاست سے تعلق نہیں رکھتے تھے، ہواؤں میں خراماں خراماں گزرتی ایک بدلی تھی جسے اپنی ٹھنڈک پر اعتماد تھا. مزاج کا ایسا دھیرج سیاسی پختگی کی دین ہوتا ہے. بظاہر مرنجاں مرنج لیکن وقت آئے تو انور عزیز امیر محمد کالاباغ سے ٹکر لیتا ہے، انگریز ماں کا بیٹا سلمان تاثیر لاہور کے تھانہ سبزہ زار میں الٹا لٹک کر تشدد برداشت کرتا ہے، ایک غریب مسیحی عورت کے لئے انصاف مانگتے ہوئے قتل ہو جاتا ہے. نرم خو پرویز رشید اپنی استقامت سے مشرف آمریت کا کتبہ لکھ دیتا ہے. ناز و نعم میں پلنے والا شاہد خاقان احتساب کے کٹہرے میں اُپی تلوار بن جاتا ہے. چوہدری انور عزیز 77 ء کا انتخاب جیت کر وفاقی کابینہ کا حصہ بنے. بھٹو صاحب سے قریبی ربط رہا. ضیا آمریت میں کوٹ لکھپت کی جیل کاٹی. سرکاری ملازمت کی اوٹ میں سیاسی قیدیوں پر تشدد کرنے والوں کی “متاع حیات” انور عزیز نے مشاہدہ کر رکھی تھی. 85ء کا انتخاب جیت کر وفاقی کابینہ میں شامل ہوئے. محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ کے دوران چوہدری انور عزیز کو بدعنوانی کے الزام میں وزارت سے سبک دوش کیے جانے کا بہت چرچا رہا. اہل خبر جانتے ہیں کہ اختر عبدالرحمن نام کا ایک “فاتح” ان کی سیاسی بصیرت سے خائف ہو گیا تھا. تحقیقات کے نتیجے میں چوہدری صاحب کا دامن شفاف ثابت ہوا لیکن اس ملک کی سیاست میں شفاف دامن چاک ہوتے آئے ہیں، سازش کی رفو گری کے کرشمے اعزاز کا نشان ٹھہرتے ہیں. محض اہلیت اور دیانت سرمایہ سمجھی جاتی تو کیمبل پور کے ملک جعفر احمد کی سیاست گم نامی کا شکار نہ ہوتی جنہیں خود ضیا آمریت نے ہر نوع کی بدعنوانی سے مبرا قرار دیا تھا.

بدعنوانی کی بے بنیاد خبر ذہنوں میں نقش ہو جاتی ہے اور یوسف کے دامن کی پاکیزگی کسی نئے بحران کی خبروں میں دب جاتی ہے. خدا حشر میں ہو مددگار میرا. خدا ایسا غیر منصف نہیں کہ خلق کے دکھ بیان کرنے والی خبر پر سیاہی پھیر دے. ہم ایسے اہل جنوں کو تو مگر کار زار دنیا کی فکر رہتی ہے کیونکہ ہم نے ماہ و سال کی دشت نوردی میں جانا کہ جب خبر قتل ہوتی ہے، اخبار نویس کی تحریر روک لی جاتی ہے تو لکھنے والے کا کچھ نہیں جاتا، قوم کمزور ہو جاتی ہے. واقعے کی خبر نہیں مل سکے گی تو اہل وطن درست رائے کیسے قائم کریں گے. صاحبان ذی وقار، زمانوں کی خوشبو سے بات چلی تھی. دو خوشبودار نام یاد آ گئے، تفصیل کا یارا نہیں. پاک فوج کے ایک نہایت قابل احترام سپوت میجر جنرل خادم حسین راجہ نومبر 1922 میں پیدا ہوئے تھے. امریکا کے صحافی جیمز بالڈون 1924 میں پیدا ہوئے تھے. جنرل خادم حسین راجہ نے ایک مختصر سی کتاب لکھی ہے، Stranger in my own country. ضرور پڑھیے۔ آپ کی پاکستان کے ایک قدآور بیٹے سے ملاقات ہو گی. اتفاق دیکھیے، جیمز بالڈون کی کتاب کا عنوان ہے، Stranger in the village. جیمز بالڈون کا ایک ٹکڑا دیکھیے. باقی یہ کہ پڑھنے والا لکھنے والے سے زیادہ ذہین ہوتا ہے. ٹھیک سے جانتا ہے کہ شاعر کسے کہتے ہیں.

“The poets (by which I mean all artists) are finally the only people who know the truth about us. Soldiers don’t. Statesmen don’t. Priests don’t. Union leaders don’t. Only poets.”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).