جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں


حرف اور صدا کا وہی رشتہ ہے جو سانس اور زندگی کا، جو مٹی اور تخلیق کا اور جو ماں اور آغوش کا۔ بہرحال کاغذ ہے تو لفظ تو لکھے جائیں گے، حرف ہیں تو صدا تو آئے گی، نقش ہیں تو تصویر تو بنے گی۔

ملتان جلسے میں آصفہ بھٹو محترمہ بینظیر بھٹو کی اور مریم نواز اپنے والد کی سیاسی تصویر بنتی نظر آئیں۔ مولانا فضل الرحمن کی ایک جانب آصفہ بھٹو اور دوسری جانب مریم نواز کو دیکھ کر خوش کن احساس ہوا کہ ایک فاطمہ جناح نے کتنی فاطماؤں اور ایک بینظیر نے کتنی بینظیروں کے رستے آسان بنا دیے ہیں۔

ملتان کے حالیہ جلسے کے دوران گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ یہ سوچنے پر مجبور کر رہی تھی کہ بند کمروں میں بیٹھے چند افراد، اختیار ہاتھ میں لیے کچھ اشخاص اور انصاف کے ترازو تھامے صاحب کردار جب فیصلوں کی لکیریں کھینچ لیتے ہیں تو اُن کے ذہنوں میں کہیں بھی وہ عوام نہیں ہوتی جو صرف اپنے فیصلوں کی خود پابند ہے۔

حزب اختلاف کے جلسے ہوں یا حکومتی ریلیاں، جوق در جوق شریک ہوتے لوگ دراصل ہر اس سوچ کو چیلنج کر رہے ہوتے ہیں جو اُن سے متعلق بند کمروں میں سوچی جاتی ہے۔

مثلاً فیصلہ ہو جائے کہ انتخابات نہیں ہوں گے، یہی نظام اگلے ڈھائی سال مکمل کرے گا، فیصلہ ہو جائے کہ اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی بنائیں گے اور پارلیمان کو بھنک تک نہیں پڑنے دیں گے، معیشت آئی ایم ایف کے پاس ہو یا ورلڈ بینک کے پاس، چین ناراض ہو یا سعودی عرب پشیمان۔۔۔ ہو گا وہی جو ہمارے لیے مناسب ہے۔

پھر بھی گلی کوچوں سے بلند ہوتے نعرے عوام کی طاقت کا اظہار تو کرتے ہی ہوں گے۔

ہو سکتا ہے کہ یہ سوچ حاوی ہو کہ لگتے رہیں نعرے، ہوتے رہیں جلسے، چلتی رہے تحریک اور بڑھتے رہیں لانگ مارچ، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ اپوزیشن حکومت کا کیا بگاڑ لے گی؟

ایک صفحے کی حکومت ہے، ابھی کل ہی آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں وزیراعظم کے شانہ بشانہ چلتے آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کس قدر سج رہے تھے، سوشل میڈیا پر اس تصویر کی کیسی دھوم تھی، قوم صدقے واری ہوئے جا رہی تھی، اور جائے بھی کیوں نہ کبھی سنا کہ وزیراعظم عمران خان کے پنڈی سے اختلافات ہو گئے؟

کبھی دیکھا کسی وزیراعظم کو یہ اعلان کرتے کہ ان کے ٹیلی فون ٹیپ ہوتے ہیں اور انھیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ سوال تو بس یہ ہے کہ جب جناب وزیراعظم کو کسی بات سے مسئلہ نہیں تو اپوزیشن کو کس بات کی تکلیف۔

حزب اختلاف کی گیارہ جماعتوں نے اپنی طرف سے ٹھان لی ہے کہ سویلین بالادستی کا خواب پورا کرنا ہے۔ مگر کیسے؟ اس ایک سوال کا جواب شاید کسی کے پاس موجود نہیں۔ حزب اختلاف چاہتی ہے کہ فوج کا سیاست سے کردار ختم کر دیا جائے جو کہ آئینی خواہش ہے مگر یہ انقلاب کیسے آئے گا؟

مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں سیاسی جماعتیں حکومت کا فوری خاتمہ اور نئے انتخابات کی خواہش مند ہیں اور چاہتی ہیں کہ وسط مدتی انتخابات کا انعقاد ہو مگر یہ سب کیسے ہو گا؟ کون طاقتور حلقوں کو باور کرائے گا کہ یہ سب ممکن بنایا جائے؟ ہو سکتا ہے کہ اس کا ایک طریقہ عوامی طاقت ہو، عوام لانگ مارچ کا حصہ بن جائیں اور شاہراہ دستور تک پہنچ جائیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟

مارچ تو کپتان نے بھی کیا تھا اور طاقتور حلقے ان کی پشت پر تھے اس کے باوجود نواز شریف کی حکومت ختم نہ ہو سکی تھی۔ اس وقت سیاسی جماعتیں پارلیمان میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گئیں اور یوں ’انقلاب‘ عین پارلیمان کے سامنے دم توڑ گیا۔ یہاں تک کہ خان صاحب کو ساؤنڈ سسٹم لپیٹنے میں بھی دشواری نہ ہوئی۔

کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ تب جب خان صاحب کے ساتھ طاقت تھی اور وہ کامیاب نہ ہوئے تو اب اپوزیشن کے پاس کیا معجزہ ہے کہ وہ حکومت کی بساط لپیٹ دیں گے؟ سوال بہر حال اہم لیکن جس رفتار سے اپوزیشن بیانیہ بنا رہی ہے اور ’بدعنوانوں‘ پر حکومتی بیانیہ اپنی کارکردگی کی بنا پر جس قدر دن بہ دن کمزور پڑ رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ حکومت موجود رہے مگر کمزور ترین۔

مانا کہ حکومت کو ان خطرات سے نہیں نمٹنا پڑا جن کا ماضی کی حکومتوں کو سامنا رہا، مانا کہ ارباب اختیار ایک ہی ٹرین کے مسافر ہیں، مانا کہ تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے مگر لہر ابھی نہیں آئی، مانا کہ اختیار کو ابھی چیلنج نہیں کیا گیا مگر پھر بھی طاقت کے مراکز مت سمجھیں کہ عوام ہلکے ہیں۔

عوام ہلکے ہوں گے مگر اتنے بھی نہیں جتنے بند کمروں میں بیٹھے اشخاص تصور کر رہے ہیں۔ جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).