دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا


ملک پاکستان کے علاقہ گوجر خان کے نواح کی خبر ملاحظہ فرمائیں جہاں، میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا اور اس کے نتیجے میں بیوی نے 3 بچیوں سمیت کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ اہل محلہ کے اکٹھے ہونے پر بد نصیب ماں کو تو زندہ نکال لیا گیا، تاہم 3 معصوم پھول ہمیشہ کے لئے مرجھا کر، ابدی راحت کی تلاش میں اپنے خالق کے ہاں روانہ ہو گئے۔ اس حادثہ جانکاہ نے قلب و ذہن پہ اس قدر اثر کیا کہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ بندہ کس سے پوچھے اور کہاں جائے۔

اگر اس اور اس جیسے دوسرے واقعات کی کھوج لگائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ، ہمارے ہاں عمومی طور پہ جو گھروں میں جھگڑے چلتے ہیں، ان کی تہہ میں اصل مسئلہ معاشی ہوتا ہے، جس کی آگ کی تپش سے دوسرے ذیلی مسائل بھی بھڑک اٹھتے ہیں اور انجام کار کسی نہ کسی کی موت پہ جا کر ختم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ نہایت اہم ہے کہ، آخر کیوں ہم اس طرف سے دامن بچا کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اور کیوں اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کرتے۔

ہمارا معاشرہ جس کی اٹھان بہت حد تک مذہبی ہے اور جہاں مذہب کے احکامات کی تاویلات کرنا گویا دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اور ایسے میں اس سوچ کی بھی ہمارے یہاں کمی نہیں پائی جاتی، جس کے مطابق اسلام تمام مسائل کا واحد اور شافی علاج دیتا ہے، تو اس کے باوجود بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے اہم مسئلے پر وہ ہماری رہنمائی نہ کرے۔ ہمارے یہاں جو عمومی سوچ معاشرے میں رائج ہے، اس کے تحت جب اولاد جوان ہوجاتی ہے، تو ان کی خانگی زندگی کے متعلق تحریک گھر میں شروع ہوجاتی ہے، اور یوں اس نوجوان کے والدین متفکر انداز میں مناسب رشتے کے لئے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں۔

لیکن اس سارے عمل کے دوران جو ایک اہم بات نظر انداز کر دی جاتی ہے، وہ معاش کا وسیلہ ہے کہ آیا وہ نوجوان جس نے آگے چل کر اپنے کنبے کی ذمہ داری سنبھالنی ہے، وہ کیا معاشی طور پہ اس قابل ہے کہ اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہو سکے۔ ایسے عالم میں اگر کوئی بد بخت، لادین اور گستاخ یہ سوال کر ہی بیٹھے تو، اسے ایک سادہ سا جواب ملتا ہے کہ ”آنے والا یا آنے والی اپنا رزق خود لے کر آئے گی، اللہ وارث ہے“ اور کوئی جو زیادہ بڑ بڑ کرے، تو اس کو ایک مجہول السند واقعہ سنا یا جاتا ہے کہ، جب نبی اکرم ﷺ نے ایک صحابی کو تنگدستی کی بناء پر شادی کرنے کو کہا، اور یوں کرتے کرتے اس نے 3 شادیاں کیں اور گھر سے غربت کا خاتمہ ہو گیا۔ تاہم اس کے برعکس ہمیں سیرت نبوی ﷺ سے وہ مستند واقعات ملتے ہیں، جب آپ ﷺ نے معاشی تنگدستی والے انسان کو شادی نہ کرنے کا مشورہ دیا، مگر ہم اپنی جنسی اور جبلی خواہشات کے بے لگام گھوڑے کی خاطر ان کو پس پشت ڈالنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔

اس ایک مجہول السند واقعے کو سند اور ثبوت بنا کر، بے دھڑک شادیاں کرنے کا انجام وہی ہے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں، کہ جہاں گھروں میں سکون اکارت اور لڑائی جھگڑا معمول بن چکا ہے۔ ہمارے علماء کرام بھی خطبہ نکاح کے موقع پر ”النکاح من سنتی“ کا جملہ ادا کر کے اپنی مذہبی ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کا ثبوت تو دیتے ہیں، مگر نہ جانے کیوں وہ حدیث سنانے سے کتراتے ہیں، جس میں آپ ﷺ نے قریش کے نوجوانان کو نکاح کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اگر استطاعت ہو تو نکاح کرو، وگرنہ روزہ رکھ لو اپنی نفسانی خواہشات کو لگام دو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کہا؟ تو اس کا واضح جواب صرف اور صرف معاش ہی ہے، کہ مبادا شادی ثواب کی بجائے وبال بن جائے اور انسان کسی انتہائی قدم کو اٹھانے پر مجبور ہو جائے۔ یہ تو روایت کی بات ہو گئی اور اگر ہم درایت کی بات کریں تو کیا ہمیں سیرت نبوی ﷺ سے ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ نے کسی بھی انسان کو معاشی تنگدستی کے عالم میں شادی کرنے کا مشورہ دیا ہو؟ ہم میں سے جس نے بھی امیر المومنین سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رض کی سیرت کا مطالعہ کیا ہے، وہ بخوبی واقف ہے کہ مدینہ منورہ کے اندر ان کی، معاشی حالت اتنی اچھی نہ تھی اور ایک صحابیہ رض جو بیوہ ہو گئیں، وہ نبی ﷺ کے پاس آئیں اور کہا کہ مجھے حضرت معاویہ رض نے نکاح کا پیغام بھجوایا ہے، لہذا آپ مجھے مشورہ دیجیے۔

آپ ﷺ نے ان کی بات سنی اور فرمایا کہ (حضرت) معاویہ رض کے معاشی حالات چنداں اچھے نہیں ہیں، لہذا ان سے نکاح مت کریو۔ ہم جو آج چیخ چیخ کر یہ کہتے نہیں تھکتے کہ شادی کرو، آنے والی اپنا رزق خود لے کر آئے گی، وہ کیوں نہیں سوچتے کہ کیا معاذ اللہ ثم معاذ اللہ نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی اس بات سے لاعلم تھی۔ اگر نہیں تو آپ ﷺ نے ان کو وہاں نکاح نہ کرنے کا مشورہ کیوں دیا، سیدھا کہہ دیتے جاؤ نکاح کرو، رزق کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے وہ دے گا۔ مگر چونکہ ہم اسلام کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کے قائل ہیں، لہذا؟ ”مستند ہے میرا فرمایا ہوا“ کے مصداق ہم نے نہ سمجھنے کی قسم کھا رکھی ہے، اور نت نئے مسائل کا شکار ہو کر نہ صرف خود کو بلکہ اپنے معاشرے کو بھی اذیت ناک عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔

اسلام میں جو حق مہر کا تصور رکھا گیا ہے، اس کی ایک جہت معاشی بھی ہے۔ چنانچہ جب امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رض کے نکاح کا موقع آیا، تو آپ ﷺ نے حضرت علی رض سے صاف صاف پوچھا کہ تمہارے پاس میری بیٹی فاطمہ رض کو دینے کے لئے کیا ہے؟ اس پہ سیدنا علی رض نے اپنی زرہ کا ذکر کیا کہ صرف وہی ہے۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ جاؤ، اس زرہ کو بازار میں بیچو اور جو رقم ملے وہ میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ یہ بازار میں گئے جہاں ان کی ملاقات حسن اتفاق سے سیدنا عثمان بن عفان رض سے ہو گئی۔

انہوں نے بازار آنے کا قصد معلوم کیا، تو فرمایا کہ یہ زرہ میں خریدوں گا۔ چنانچہ سیدنا عثمان رض نے وہ زرہ پہلے سیدنا علی رض سے خریدی، رقم ادا کی اور اس کے بعد وہی زرہ بطور تحفہ سیدنا علی رض کو واپس کر دی اور فرمایا کہ میری طرف سے شادی کا یہ تحفہ ہے۔ سیدنا علی رض وہ رقم لے کر مسجد نبوی آئے اور آقا ﷺ کو وہ رقم دی۔ چنانچہ آقا کریم ﷺ نے وہ رقم سیدنا ابو بکر رض کے حوالے کی اور فرمایا کہ اس سے میری بیٹی فاطمہ (رض) کے لئے جہیز کا سامان خرید لو۔

یہ اور اس طرح کے دوسرے واقعات ہمیں آخر کیا بتاتے ہیں؟ کیا نبی ﷺ اور صحابہ نعوذ باللہ توکل سے بے خبر تھے، کیا وہ اللہ کو رازق نہیں مانتے تھے؟ کیا ان کو قرآن اور حدیث کا فہم ہم سے کم تھا؟ کیا ان کو نبی ﷺ کی ذات اور ان کے فرمودات سے محبت ہماری نسبت کم تھی؟ اگر نہیں تو مان لیجیے کہ ہم توکل کا غلط مفہوم لے کر کتنے ہی گھروں کی خوشیاں اجاڑ رہے ہیں، اور وقتی جذبات کی تکمیل کی خاطر زندہ انسانوں کو دنیا میں ہی جہنم کی زندگی میں دھکیل کر ان کی بد دعائیں لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نوجوان بھی جو ہنوز معاشی مشکلات کا شکار ہیں، ان سے یہی استدعا کروں گا کہ خدارا! سیرت نبوی ﷺ کے عملی پہلوؤں کا بنظر عمیق مطالعہ کریں، اور ہر وہ کام جو استطاعت سے باہر ہے، اس سے اجتناب برت کر اپنی اور معاشرے کی زندگی کو جنت کا نمونہ بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).