فلسطین اور امت مسلمہ



کرونا کی دوسری لہر دنیا میں آ چکی ہے اور گزشتہ سال کی طرح دسمبر آتے ہی معاملات گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں، کافی ممالک جن میں پہلی لہر پر کسی حد تک قابو پایا جا چکا ہے، وہ اب دوسری لہر سے حفاظت کے لیے انتظامات میں مصروف ہیں۔ کچھ ممالک دوبارہ سے لاک ڈاؤن کی طرف جا رہے ہیں یا عوامی سطح پر لاک ڈاؤن کی افادیت پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے نتائج مکمل ہو چکے ہیں اور بالآخر ٹرمپ نے اپنی شکست کے نتائج تسلیم کر لئے ہیں اور جوزف بائڈن حکومت سازی پر توجہ دے رہے ہیں۔

امت مسلمہ کے بھی کافی محاذ گرم ہیں، جن میں کشمیر اور فلسطین سب سے اہم ہیں۔ قبلہ ٹرمپ کے سینہ پر یہ دونوں تمغہ اعزاز کی طرح چمکیں گے کہ انھوں نے تقریباً ان دونوں معاملات کو حل کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے، اور تمام عرب ممالک کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ وہ اپنے تایازاد یہودی بھائیوں کو اسرائیل کا باشندہ تسلیم کر لیں۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، اور اومان نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ سعودی عرب جو ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے خفیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہے بس اعلان باقی ہے۔

اللہ کی مہربانی سے اسرائیل کو اب ایران اور اس کی ذیلی تنظیمیں جن میں حماس اور حزب اللہ پیش پیش ہیں کے علاوہ کسی عرب ملک سے خطرہ نہیں ہے۔

بقول ہمارے استاد محترم یہودی اور مسلمان ایک ہی جوتی کہ دو پاؤں تھے جنھیں ڈونلڈ ٹرمپ ایک ہی ڈبہ میں رکھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

مسلمان اور یہودیوں کا یہ اتفاق اس لئے بھی ممکن ہوا ہے کہ مشرق وسطی کی تمام نام نہاد آل اولادوں کو اگر کسی قسم کا خطرہ ہے تو وہ ایرانی انقلاب سے ہے۔ جو تقریباً ہر عرب ملک میں آتش فشاں کی طرح موجود ہے اب یہ لاوہ پھٹنے میں کتنی دیر لگائے گا وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مشرق وسطی میں شیعہ افراد قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں، اگر وہاں ریاستی جبر نا ہو تو یہ انقلاب نا جانے آل سعود، آل صباح، آل الثانی اور آل الخلیفہ کو آل پہلوی کی طرح کب کا بہا کر لے گیا ہو۔

کسی دانشور کی وہ بات نہایت خوبصورت تھی کہ دشمن کا دشمن آپ کا دوست ہوتا ہے، اس لئے نظریہ ضرورت کے تحت عرب اور یہود بھائی چارہ دیکھنے میں نظر آ رہا ہے۔ عرب چاہتے ہیں، کہ اسرائیل سے تجارت ہو جس میں دفاعی مصنوعات اولین ترجیح ہیں کیونکہ یہود علم و فضل میں عرب لوگوں سے افضل ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل بھی ایران کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کر سکتا ہے جس لے لئے اسے عرب مالک کی فضائی حدود استعمال کرنی پڑیں گی جن کی اب بلا مشروط اجازت دے دی جائے گی اگر کبھی ضرورت پڑی۔

کیونکہ اسلام کی سب سے زیادہ فہم ہمارے ملک کے لوگوں کے پاس ہے یہی وجہ ہے کہ سنی اکثریتی ملک ہوتے ہوئے بھی ہم یوم القدس مناتے ہیں، حالانکہ ہمارے مرد مومن مرد حق جناب ضیاء الحق مرحوم نے فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا جب وہ اردن کے محاذ پر امت مسلمہ کا دفاع سرانجام دے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائی ہم پاکستانیوں کی محبت میں گرفتار نہیں ہیں۔

ہمارے مقتدر لوگ تو چاہتے ہیں کہ یہودی بھائیوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے، اگر یہ نہیں ہو سکتا تو کم از کم خفیہ ملاقاتوں اور محبت بھرے خطوط لکھنے کا سلسلہ ہی شروع کیا جا سکے، کیونکہ ہمارے ملک کے ازلی دشمن بھارت کو قابو کرنے کہ لئے ہمیں بہرحال کسی نا کسی وقت اپنے یہودی بھائیوں کی ضرورت درپیش ہو گی۔ کیونکہ بھارت اسرائیل سے دفاعی مصنوعات خریدتا ہے، اس کا مقابلہ کرنے کہ لئے ہمیں آج نہیں تو کل اپنے یہودی بھائیوں کو دل کی اتھا گہرائیوں سے خوش آمدید کہنا پڑے گا۔

مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو ہمارا کشمیر کا مسئلہ بہت نازک صورتحال اختیار کر جاتا ہے۔ کیونکہ دونوں جگہ حق خودارادیت کا مسئلہ درپیش ہے۔ اگر آپ ایک سے دستبردار ہوتے ہیں تو دوسرے کہ لئے بھی معاملات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ میری ناقص رائے بطور سیاسی طالبعلم یہ ہے کہ کیونکہ مسئلہ کشمیر ایک قسم کا حل ہو چکا ہے اس لئے پاکستان بھی علانیہ نہیں تو خفیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔ حالیہ دنوں میں عوام الناس کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لئے پاکستان اسرائیل دوستی کے راگ بہت سے لوگوں نے الاپنے شروع کر دیے ہیں جنھیں ذرائع ابلاغ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ وہی موسیقار ہیں جو کسی زمانہ میں امن کی آشا کے سریلے گیت گاتے تھے، اور اس کے بعد کے نتائج ہم سب نے بھگتے ہیں۔ خیر گھبرانے کی بات نہیں مجھے اپنی ایماندار، نیک، خوبرو قیادت پر مکمل بھروسا ہے کہ وہ کبھی ایسا نہیں ہونے دے گی، مگر ڈر اس بات کا بھی ہے کہ باقی باتوں کی طرح اس پر بھی یوٹرن نا لے لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).