’میراڈونا آف ہاکی‘: شہباز احمد جن کے ساتھ پاکستانی ہاکی کا عروج بھی رخصت ہو گیا


یہ 1986 کی بات ہے جب لاہور کے مشہور منٹو پارک میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہاکی سیریز کی تیاری کے لیے پاکستانی ٹیم کا کیمپ لگا ہوا تھا۔ اس کیمپ میں شریک ایک 17 سالہ نوجوان کے کھیل پر بریگیڈیئر عاطف کی نظریں جمی ہوئی تھیں جو اسے قومی ہاکی چیمپئن شپ کی متاثر کن کارکردگی کی بنیاد پر قومی کیمپ میں لے کر آئے تھے۔

بریگیڈیئر عاطف اس نوجوان میں موجود بلا کی پھرتی اور گیند پر کمال کنٹرول دیکھ کر اپنے ساتھ بیٹھے سابق اولمپئن سعید انور سے کہہ رہے تھے ʹیہ کیسا نوجوان ہے جو تجربہ کار فل بیک قاسم ضیا اور ناصر علی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا۔ʹ

ہاکی کے قومی افق پر شہباز احمد سینیئر کا یہ پہلا تعارف تھا جو بعد میں ہاکی کی تاریخ کے چند بہترین فارورڈز میں شمار کیے گئے۔ مہارت سے بھرپور سٹک ورک، تیز رفتاری، حیران کن باڈی ڈاج، کلاسیکل ڈربلنگ، ناقابل یقین حد تک گیند پر کنٹرول اور ساتھی کھلاڑیوں کو صحیح پاسز دینا۔ ان ہی خوبیوں کی وجہ سے وہ ’میراڈونا آف ہاکیʹ اورʹمین ود الیکٹرک ہیلʹ جیسے القابات سے پکارے گئے۔

شہباز احمد ایک ایسے کھلاڑی تھے جن کے کھیل کی کشش ہاکی سے دور ہوتے ہوئے شائقین کو ایک بار پھر سٹیڈیم کا رخ کرنے پر مجبور کر چکی تھی۔ ان کے جانے کے بعد نہ پاکستانی ہاکی کو دوبارہ عروج مل سکا اور نہ ان جیسا کھلاڑی دوبارہ میدان میں نظر آیا۔

پاکستانی ہاکی کا آخری عروج

چار دسمبر 1994 کو آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں پاکستان نے چوتھی اور آخری بار ہاکی کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد تھے۔ فائنل میں پاکستان کا مقابلہ ہالینڈ سے تھا اور مقررہ وقت پر مقابلہ ایک ایک گول سے برابر رہنے کے بعد فیصلہ پنالٹی سٹروکس پر ہوا اور وہ تاریخی لمحہ بھلا کون بھول سکتا ہے جب ہالینڈ کے ڈیلمی کا پنالٹی سٹروک روک کر گول کیپر منصور احمد مرحوم نے پاکستان کو ورلڈ چیمپئن بنوا دیا۔

1994 اس لحاظ سے پاکستانی ہاکی کے لیے بھی یادگار ہے کہ اس نے اس برس شہباز احمد کی قیادت میں لاہور میں منعقدہ چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی تھی۔ یہ آخری موقع تھا جب پاکستانی ہاکی ٹیم نے یہ دو بڑے ٹائٹل اپنے نام کیے تھے کیونکہ اس کے بعد وہ مایوسیوں اور ناکامیوں میں ایسی کھو گئی کہ آج تک نہیں نکل سکی ہے۔

کوئی بھی پنالٹی سٹروک لگانے کو تیار نہ تھا

شہباز احمد 1994 کے عالمی کپ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سیمی فائنل میں ہم نے جرمنی کو پنالٹی سٹروکس پر شکست دی تھی اور یہی کچھ فائنل میں بھی ہوا لیکن ہالینڈ کے خلاف جب پنالٹی سٹروکس کا مرحلہ آیا تو اس میچ کے غیر معمولی دباؤ کے سبب پاکستانی ٹیم کا کوئی بھی کھلاڑی پنالٹی سٹروک لگانے کے لیے تیار نہ تھا۔ ہمیں پنالٹی سٹروکس لگانے کے لیے پانچ کھلاڑی نہیں مل رہے تھے۔ اگرچہ میں نے کبھی پنالٹی سٹروک نہیں لگایا تھا اور میری فلک بھی اچھی نہیں تھی لیکن میں نے آگے بڑھ کر خود کو پیش کیا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اگر کپتان نے انکار کیا تو پھر دوسرے کھلاڑیوں کے حوصلے بھی پست ہو جائیں گے۔‘

شہباز احمد کہتے ہیں کہ ’اس ورلڈ کپ کے دوران طاہر زمان کے والد کے انتقال کی خبر آئی۔ وہ ہماری ٹیم کے اہم کھلاڑی تھے۔ وہ صدمے سے دوچار تھے لیکن انھوں نے کہا کہ وہ وطن واپس نہیں جائیں گے کیونکہ ٹیم کو ان کی عالمی کپ میں زیادہ ضرورت ہے۔‘

شہباز احمد کا کہنا تھا کہ ’طاہر زمان کو پہلے میچ میں نہیں کھلایا گیا لیکن اس کے بعد پورے ٹورنامنٹ میں انھوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، درحقیقت اس عالمی کپ میں گول کیپر منصور احمد، طاہر زمان، عثمان اور کامران اشرف نے نہ بھولنے والی کارکردگی دکھائی تھی۔‘

شرٹ نمبر کے لیے پرچیاں ڈالی گئیں

1994 کے عالمی کپ میں شہباز احمد نے نو نمبر والی شرٹ پہنی تھی جبکہ اس سے قبل وہ 10 نمبر والی شرٹ پہنتے آئے تھے۔ اس بارے میں شہباز کہتے ہیں کہ ’10 نمبر شرٹ دنیا کے مشہور کھلاڑی پہنتے رہے ہیں، میں نے بھی اپنے کریئر میں دس سال نمبر 10 شرٹ پہنی ہے لیکن 1994 کے عالمی کپ میں کھلاڑیوں کی شرٹ نمبر کے لیے پرچیاں ڈالی گئیں تھیں اور اس لکی ڈرا میں میرے حصے میں نو نمبر آیا جو میرے لیے خوش قسمت ثابت ہوا۔‘

میں اچھا نہیں کھیلا اس لیےاولمپک نہ جیت سکے

شہباز احمد نے تین اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے لیکن انھیں اپنی قیادت میں 1992 کے اولمپکس نہ جیتنے کا بہت افسوس ہے۔

شہباز احمد کہتے ہیں کہ ’بارسلونا اولمپکس کی پاکستانی ٹیم میرے پورے کریئر کی سب سے مضبوط ٹیم تھی اور ہر ایک کا یہی کہنا تھا کہ یہ ٹیم اولمپک گولڈ میڈل جیت سکتی ہے لیکن میں اس ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں کلک نہیں کر سکا۔ اگر میں 1994 کے عالمی کپ اور چیمپئنز ٹرافی جیسا کھیل پیش کرتا تو ہم فائنل میں پہنچ جاتے لیکن میں اچھا نہیں کھیل سکا جس کا پوری ٹیم پر اثر پڑا۔‘شہاز احمد

مین آف دی ٹورنامنٹ بننے کی عادت

شہباز احمد نے اپنے بین الاقوامی کریئر میں 92 گول کیے ہیں لیکن اس سے زیادہ گول اپنے ساتھی کھلاڑیوں سے کروائے ہیں اسی لیے انھیں بے غرض فارورڈ کہا جاتا ہے جس نے کبھی بھی صرف اپنی ذات کو نمایاں کرنے کے لیے ہاکی نہیں کھیلی۔

شہباز احمد کے کریئر کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ متعدد ٹورنامنٹس میں مین آف دی ٹورنامنٹ رہے ہیں جن میں 1987 میں اندرا گاندھی ٹورنامنٹ، 1989 میں بی ایم ڈبلیو ٹرافی، 1990 کی ایشین گیمز، 1990 میں ہی ورلڈ کپ اور 1994 میں ورلڈ کپ قابل ذکر ہیں۔

یہ پہلا موقع تھا کہ کسی کھلاڑی نے لگاتار دو عالمی کپ مقابلوں میں مین آف دی ٹورنامنٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

شہباز احمد واحد ہاکی کے کھلاڑی ہیں جنھیں حکومتِ پاکستان نے ہلال امتیاز کے ایوارڈ سے نوازا ہے۔ پاکستان میں یہ ایوارڈ صرف چار کھلاڑیوں کو ملا ہے جن میں شہباز احمد کے علاوہ عمران خان، جہانگیر خان اور جان شیر خان شامل ہیں۔

دھنراج پلے بھی شہباز کے مداح

اپنے ہوں یا غیر، پاکستان ہو یا کوئی دوسرا ملک، شہباز احمد کی فین فالوئنگ غضب کی تھی۔ اپنے کریئر کے ابتدائی دنوں میں جب وہ لکھنو میں اندرا گاندھی ٹورنامنٹ میں کھیل رہے تھے تو سٹیڈیم میں موجود بھارتی شائقین کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز پر درج ’ایف 16‘ اور ’سپرمین‘ کے الفاظ سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ہر کوئی ان کے کھیل کا کتنا معترف ہے۔

بھارت کے مشہور فارورڈ پلیئر دھنراج پلے جن کے کھیل کی دنیا مداح رہی ہے وہ خود شہباز احمد کے زبردست پرستار ہیں۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے دھنراج پلے کہتے ہیں ʹجب میں انٹرنیشنل ہاکی میں بھی نہیں آیا تھا اس وقت میں نے اپنے سینیئر کھلاڑیوں سے شہباز احمد کے چرچے سن رکھے تھے کہ پاکستان میں ایک بہترین کھلاڑی آیا ہے جس کی رفتار اور بال پر کنٹرول غضب کا ہے اور اگر وہ اسی طرح کھیلتا رہے تو طویل عرصے تک اپنے ملک کی نمائندگی کرتا رہے گا۔‘

دھنراج پلے کا کہنا ہے کہ ’شہباز بھائی سانپ کی طرح گیند لیے آگے بڑھتے تھے اور حریف دفاعی کھلاڑی کو اپنی نظروں میں ہی رانگ فٹ پر پکڑتے تھے کہ وہ ان کے قریب ہی نہیں آ پاتا تھا اور وہ اسے دور ہی سے کاٹتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ یہ خوبی میں نے ان میں دیکھی اور سیکھنے کی کوشش کی۔ ان کی اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ ہم آہنگی کمال کی تھی۔ نظروں ہی نظروں میں ساتھی کھلاڑیوں کو پتہ ہوتا تھا کہ شہباز بھائی کا پاس کہاں آئے گا۔‘

دھنراج پلے کہتے ہیں کہ ʹمیں نے شہباز کے نام پر کراؤڈ کو انٹرنیشنل اور لیگ میچوں میں سٹیڈیم میں آتے دیکھا ہے۔‘

دھنراج پلے اس واقعے کے عینی شاہد ہیں جب 1994 کے عالمی کپ میں آسٹریلیا کے خلاف شہباز نے اپنے ہی ہاف میں گیند حاصل کر کے حریف ٹیم کی ڈی میں جا کر کامران اشرف سے گول کروایا تھا۔

وہ اس بارے میں کہتے ہیں ’میں وہ میچ دیکھ رہا تھا جب شہباز کو اپنے ہاف میں گیند ملی ان کے ساتھ آسٹریلوی کھلاڑی کین وارک تھے جنھیں شہباز نے ایک ہی ڈاج سے بے بس کیا اور کمال کی پھرتی اور سٹک ورک کے ساتھ گیند کو آسٹریلوی ڈی تک لے گئے اور ریورس سٹک سے کامران اشرف کو گیند دی جنھوں نے گول کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی۔‘

دھنراج پلے کا کہنا ہے کہ ’شہباز بھائی نے مجھے کئی باتیں سکھائیں کہ اگر کسی چیز میں مہارت حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے پریکٹس بہت ضرورت ہے۔ مجھے ان کی یہ بات اس لیے بھی اچھی لگتی تھی کہ پاکستان انڈیا تعلقات اور میدان میں ایک دوسرے کے سخت حریف ہوتے ہوئے بھی شہباز احمد یہ باتیں بتانے میں بڑے پن کا مظاہرہ کرتے تھے۔‘

آج دونوں کھلاڑیوں کو ریٹائر ہوئے عرصہ ہو چکا ہے لیکن دونوں کے درمیان دوستی بدستور قائم ہے اور دونوں باقاعدگی سے ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔

سیمنٹ کے گراؤنڈ پر پریکٹس

شہباز احمد سے ہمیشہ یہ سوال کیا جاتا رہا ہے کہ اتنی تیز رفتار اور گیند پر کنٹرول کیسے سیکھا جس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ʹمجھے اندازہ تھا کہ اگر مجھے آسٹروٹرف پر بہترین کارکردگی دکھانی ہے تو اس کے لیے مجھے اس سے بھی تیز جگہ پر پریکٹس کرنی ہو گی لہذا میں نے سیمنٹ کے گراؤنڈ پر کھیلنا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ دیوار کے سامنے کھڑے ہو کر گیند کو تیز تیز ہٹ مارنے کی گھنٹوں پریکٹس کی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میرے ریفلیکسز تیز ہو گئے اور جب میں آسٹروٹرف پر کھیلتا تو وہ مجھے سلو لگتی تھی کیونکہ میں اپنی پریکٹس آسٹروٹرف سے بھی تیز میدان پر کرتا تھا۔‘

جتنے بھی نمبر آئیں ہمارے کالج میں داخلہ لینا

شہباز احمد کا کہنا ہے کہ ʹجب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو میرے اچھے کھیل کے چرچے ہونے لگے کہ یہ کون کھلاڑی آ گیا ہے۔ لوگوں کو میرا کھیل بہت پسند تھا اور ایسا بھی ہوا کہ انھوں نے خوشی میں میری جیبوں میں پیسے بھی ڈالنے شروع کر دیے تھے۔ جب میں نویں دسویں جماعت میں کھیل رہا تھا تو گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے اساتذہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میٹرک میں آپ کے جتنے بھی نمبر آئیں آپ نے ہمارے کالج میں ہی داخلہ لینا ہے کیونکہ انھیں میرے کھیل کا اندازہ ہو چکا تھا۔‘

شہباز احمد سابق اولمپئنز بریگیڈئر عاطف سعید انور اور اسد ملک کا نام بڑے احترام سے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے کریئر کو آگے بڑھانے میں ان تینوں کا اہم کردار ہے۔

بیگم بھی لاڈا کہہ کر بلاتی ہیں

شہباز احمد کو ان کے دوست احباب پیار سے لاڈا کہہ کر پکارتے ہیں۔ شہباز احمد کا کہنا ہے کہ ’یہ نام مجھے والدین نے دیا جو مجھے لاڈ پیار میں لاڈا پکارتے تھے لیکن میری بیگم بھی مجھے لاڈا کہہ کر ہی بلاتی ہیں۔‘

شہباز احمد کہتے ہیں کہ ʹمیرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹی کی شادی ہو گئی ہے، بڑا بیٹا انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا ہے جبکہ چھوٹا بیٹا اے لیول کر رہا لیکن دونوں بیٹوں کو ہاکی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی وہ ہاکی پر کوئی بات کرتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp