لکھ پتی ’ڈونٹ کنگ‘: کمبوڈیا سے تعلق رکھنے والے ٹیڈ نگوئے جنھوں نے زندگی میں دو مرتبہ غربت سے امارت تک کا سفر طے کیا


اگر آپ کیلیفورنیا کی کسی ’ڈونٹ‘ کی دکان میں داخل ہوں گے تو امکان ہے کہ یہ کمبوڈیا سے تعلق رکھنے والے کسی ایک خاندان کی ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کمبوڈیا کے ایک تارکِ وطن نے اس بڑے کاروبار کو کھڑا کیا اور اسی کی وجہ سے وہ ’ڈونٹ کنگ' کے نام سے مشہور ہو گئے، لیکن ان کا یہ سارے کا سارا کاروبار ایک دم ختم ہو گیا تھا۔

ٹیڈ نگوئے کمبوڈیا کے شہر نوم پِنہ میں ایک سکول کے طالب علم تھے جب ان کی سوگنتیھنی خوئیوں پر پہلی نظر پڑی تھی۔ یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی بیٹی تھی۔ اُسے یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’وہ بہت ہی حسیِن تھی۔ آپ کو اُس سے زیادہ خوبصورت کوئی عورت مل ہی نہیں سکتی۔‘

سکول کے تمام لڑکے اُس کے عشق میں مبتلا تھے، اس لیے تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب گاؤس کا ایک نصف چینی النسل کا ہونے کی وجہ سے ٹیڈ کا کوئی چانس ہی نہیں تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’وہ بہت زیادہ سحر انگیز تھی، جیسا کہ کوئی شہزادی ہو۔‘ اسی وجہ سے اُس کے ارد گرد ہر وقت سخت نگرانی رہتی تھی۔

پھر چند دنوں کے بعد ٹیڈ کو پتہ چلا کہ وہ فلیٹوں کے جس بلاک میں رہتے تھے وہاں ان کے فلیٹ کے کمرے سے سوگنتھینی کا بنگلہ صاف نظر آتا تھا۔ ان کے لیے یہ ایک زبردست موقع تھا۔ وہ ہر شام اپنے اس فلیٹ کی کھڑکی کے سامنے بیٹھ جاتے اور بانسری بجاتے۔ اس خاموش قصبے میں جب ان کی بانسری کی آواز گونجتی تو سوگنتھینی کی ماں کہتی ہے جو بھی یہ بانسری بجا رہا ہے وہ گہری محبت میں ہے۔

ایک شب انھوں نے سوگنتھینی کو اپنے بنگلے میں کمرے کی بالکونی پر دیکھا، انھوں نے سوچا کہ یہی وہ وقت ہے کہ وہ اُسے اپنی جانب متوجہ کرے۔ اُسے یہ بتانے کے لیے کہ وہ اُس کے گھر کے سامنے والے فلیٹ میں رہتے ہیں اور بانسری بجاتے ہیں انھوں نے اُسے ایک چٹھی لکھی۔ انھوں نے اپنی چٹھی کو ایک پتھر پر لپیٹا اور سوگنتھینی کی جانب پھینک دیا۔ ان کی اِس حرکت کا کئی دنوں تک کوئی جواب نہ ملا۔ لیکن ایک دن سوگنتھینی کا ایک ملازم اس چٹھی کا جواب لیے ان کے فلیٹ پر آیا۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا کے امیر ترین ملک کا غریب ترین شہر

چین کے آئس بوائے کی زندگی ایک برس میں بدل گئی

’دنیا کا امیر ترین شخص مسلمان تھا‘

ٹیڈ کا کہنا ہے کہ ’جواب میں بھیجے گئے رقعے میں لکھا تھا میں آپ کی بانسری بجانے کی قدر کرتی ہوں۔ آپ کمال کی بانسری بجاتے ہیں جو گہرا اثر کرتی ہے۔ اس کے بعد ہم دونوں کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ہم دونوں ایک دوسرے کو پیغامات بھیجتے۔‘

ٹیڈ نے ایک مرتبہ اپنے خط میں لکھا ‘اگر میں تمھارے کمرے میں پہنچنے کا ارادہ کروں تو؟‘ سوگنتھینی نے جواب لکھا کہ ’اچھا، لیکن بہت احتیاط کرنا، اگر تم میرے کمرے تک نہ کود سکے تو تم میری ماں کے کمرے میں پہنچ جاؤ گے۔‘

سوگنتھینی کا خیال تھا کہ ٹیڈ مذاق کر رہے ہیں لیکن وہ تو سنجیدہ تھے۔ اُس کے بڑے سے گھر میں گارڈز اور گارڈز کے کتوں کے باوجود ایک بارش کی شب ٹیڈ ناریل کے درخت پر چڑھ گئے اور دیوار پر لگی خاردار تاروں کو عبور کر کے اس کے کمرے میں باتھ روم کی کھڑکی کے ذریعے پہنچ گئے۔

انھوں نے ہمت کر کے سوگنتھینی کے کمرے کے ساتھ منسلک باتھ روم کا دروازہ کھولا اور وہاں سوگنتھینی محوِ خواب تھی۔

انھوں نے اُسے جگایا، وہ اچانک اُنھیں دیکھ کر ابھی چلانے ہی کو تھی کہ اسے دوسرے لمحے ہی یہ احساس ہوا کہ یہ تو اُس کا وہی ہم جماعت ہے۔

سوگنتھینی نے پوچھا ‘تم یہاں کیا کر رہے ہو؟’

ٹیڈ نے جواب دیا ’میں اس لیے آیا ہوں کیونکہ میں تمہارے عشق میں مبتلا ہو چکا ہوں۔’

سوگنتھینی نے کہا کہ ’لیکن میں صبح کیا کروں گی؟ مجھے تو سکول جانا ہے۔‘ ٹیڈ نے جواب دیا ’گھبراؤ نہیں، میں تمہارے بستر کے نیچے چھپ جاتا ہوں۔‘ اور اُنھوں نے ایسا ہی کیا۔

سوگنتھینی رات کو اُنھیں کھانا پہنچاتی، اور پھر کافی دنوں بعد اُس نے بھی ٹیڈ سے کہا کہ اسے بھی ان سے محبت ہو گئی ہے۔ انھوں نے ایک دوسرے سے ہمیشہ پیار کرنے کا عہد اپنے خون سے لکھا۔

ٹیڈ کا کہنا ہے کہ ’وہ سوگنتھینی کے کمرے میں 45 دنوں تک چھپا رہا اور پھر وہ پکڑا گیا۔‘

سوگنتھینی کے گھر والوں نے ٹیڈ پر زور ڈالا کہ وہ سوگنتھینی سے اپنا ناطہ یہ کہہ کر توڑ لے کہ وہ اُس سے محبت نہیں کرتا ہے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ انھیں کہا گیا تھا، لیکن اُس نے فرطِ جذبات میں آ کر ایک چاقو نکال کر اپنے آپ کو مار لیا، اور کہا کہ وہ اُس کے بغیر زندگی پر موت کو ترجیح دے گا۔

جب وہ ہسپتال میں اس زخم کا علاج کروا رہے تھے تو اس وقت سوگنتھینی نے بھی خود کشی کرنے کی کوشش کی۔ ان دونوں کے اتنے مضبوط پیار کو دیکھ لڑکی کے گھر والوں نے اِن دونوں پیار بھرے دلوں کو اکھٹا رہنے کی اجازت دے دی۔

ٹیڈ جو کہ اب 78 برس کے ہیں کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک پاگل پنے کی کہانی ہے، لیکن یہ سچی کہانی ہے۔ مجھے اُس سے سچا پیار تھا۔‘ لیکن وہ یہ مانتے ہیں کہ وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ سوگنتھینی کا دل جیتنے کی وجہ سے ان کے دن بھی بدل جائیں گے۔

ان دونوں نے شادی کرلی، ان کی زندگی کے دن بہت اچھے گزرنے لگے۔ لیکن جب سنہ 1970 میں پول پوٹ کی قیادت میں خمر روژ ملیشیا نے طاقت حاصل کی تو حالات خراب ہو گئے۔ ٹیڈ جنھیں چار زبانیں بولنا آتی تھیں، اسے سوگنتھینی کے بھائی جنرل ساک سُٹ ساخن نے تھائی لینڈ کی فوج میں ایک رابطہ افسر کی نوکری کی پیش کش کی۔ فوراً ہی انھیں میجر کا رینک مل گیا اور ٹیڈ اور ان کا پورا خاندان بنک کاک منتقل ہو گیا۔ وہ ہر ماہ اپنے سپاہیوں کی تنخواہیں لینے کے لیے کمبوڈیا جاتے تھے۔

لیکن جب انھوں نے اپریل سنہ 1975 میں کمبوڈیا کا آخری سفر کیا تھا تو اس وقت وہاں حالات بہت خراب ہو چکے تھے، دارالحکومت پر خمر روژ ملیشیا کا قبضہ ہو چکا تھا۔ ٹیڈ کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پِنہ سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن سوگنتھینی کے والدین وہیں ٹھہرے رہے۔ بعدازاں سوگنتھینی کو پتہ چلا کہ اس کے والدین کو خمر روژ ملیشیا نے قتل کر دیا۔

اگلے ماہ امریکی صدر جیرالڈ فورڈ نے اس بات پر اصرار کیا کہ امریکہ کو ویت نام اور کمبوڈیا کے ایک لاکھ تیس ہزار تارکینِ وطن کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا ’ہم وہ ملک ہیں جسے دنیا بھر سے آنے والے تارکین وطن نے تعمیر کیا اور ہم ہمیشہ سے ہی ایک انسان دوست قوم رہے ہیں۔‘

ٹیڈ اور سوگنتھینی نے اپنا سارا مال و متاع فروخت کیا اور دونوں اپنے تین بیٹوں، دو بھتیجیوں اور ایک منھ بولے بیٹے کے ہمراہ تارکینِ وطن کی شروع کی پروازوں کے ذریعے کیلیفورنیا پہنچ گئے۔ اس خاندان کو وہاں فوجی اڈوں پر تیزی سے تعمیر کیے گئے کیمپوں میں رکھا گیا جنھیں ایک فوجی اڈے کیمپ پینڈلٹن میں بنایا گیا تھا۔

اس کیمپ سے باہر جانے اور کوئی روزگار تلاش کرنے کے لیے انھیں کسی امریکی رفیق یا سپانسر کی ضرورت ہوتی تھی جو ان کے لیے کوئی کام تلاش کرے اور انھیں رہائش کی ایک جگہ فراہم کرے۔

کئی ہفتوں تک وہ اس کیمپ سے مختلف خاندانوں کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ پھر بالآخر لاس اینجلیز سے 35 میل دور اورینج کاؤنٹی کے قصبے ٹسٹِن کے ایک پادری نے ٹیڈ کے خاندان کو سپانسر کیا اور وہ بھی اس کیمپ سے باہر چلے گئے۔ ٹیڈ نے چرچ میں صفائی کرنے کا کام شروع کر دیا، لیکن اُنھیں جلد سمجھ آ گیا کہ 500 ڈالر فی مہینہ آمدن اس کے ایک بڑے خاندان کی کفالت کے لیے کافی نہیں تھی۔

پادری کی اجازت سے انھوں نے چرچ کے علاوہ دو اور نوکریاں تلاش کیں ایک صبح 6 بجے سے رات 10 بجے تک سیلز مین کی ملازمت تھی اور دوسری 10 بجے رات سے صبح 6 بجے تک ایک پیٹرول پمپ پر معمولی سے ملازمت تھی۔

اس پیٹرول پمپ کے پاس ڈونٹس کی ایک دکان تھی جس کا نام ’ڈی کے ڈونٹ‘ تھا۔ یہ بہت مزیدار تھے اور جب انھوں نے پہلی مرتبہ انھیں چکھا تو اپنے پرانے وطن کا ایک مزا یاد آ گیا — ایگ فرائیڈ پیسٹری، وہ بھی گول شکل کی ہوتی تھی اور اُسے ’نوم کانگ‘ کہا جاتا تھا۔

ٹیڈ کا کہنا ہے کہ ’اس کی وجہ سے مجھے اپنے وطن کی بہت زیادہ یاد آنے لگی۔‘

ٹیڈ ساری رات لوگوں کو ڈونٹس اور کافی خریدتے ہوئے دیکھتے، اس دوران انھیں احساس ہوا کہ یہ تو ایک اچھا کاروبار ہے۔ ایک رات جب وہ پیٹرول پمپ پر کام کے دوران ڈونٹس کی دکان پر گئے اور کاؤنٹر پر موجود عورت سے پوچھا کہ کیا تین ہزار ڈالر کی بچت سے ایسی دکان خریدی جا سکتی ہے؟

اس عورت نے جواب دیا کہ ’وہ اس طرح اپنی بچت ضائع کریں گے۔ اس کے بجائے اُس نے ٹیڈ کو بتایا کہ ڈونٹس فروخت کرنے والی دکانوں کی ایک چین ’وینچیل‘ ہے جو خواہش مند افراد کو ان کی دکان چلانے کی تربیت دیتی ہے۔

ٹیڈ اس کمپنی میں پہلے جنوب مشرقی ایشیائی کے طور پر ان کے تربیتی ملازم بن گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں نے انھیں بیک کرنا سیکھا، ان کی شکل بنانا سیکھی، صفائی کرنا سیکھی، بیچنے کا طریقہ، غرض کہ سب کچھ سیکھا۔‘ ایک خاص بات جو انھوں نے سیکھی وہ یہ تھی کہ سارا دن تھوڑے تھوڑے تازہ ڈونٹس بناتے رہنا چاہیے کیونکہ تازہ ڈونٹس کی خوشبو ہی ان کا بہترین اشتہار ہوتی ہے۔

جب انھوں نے تین ماہ کا ٹرینینگ پروگرام مکمل کر لیا تو کمپنی وینچیل نے انھیں ’بیلبو آپیئر‘ نامی جگہ پر چلانے کے لیے ایک دکان دی۔ یہ مقبول سیاحتی مقام تھا اور نیو پورٹ جزیرہ نما جگہ پر تھا، جو کہ ٹسٹِن سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھی۔

سوگنتھینی اس دکان کے کاؤنٹر پر مسکراہٹ لیے بیٹھتی اگرچہ وہ بمشکل چند ایک انگریزی کے الفاظ بول پاتی۔ ٹیڈ رات کو اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کرس کے ساتھ مل کر بیکنگ کرتے، اور وہیں بیکنگ کے ساتھ کچن میں سونے کی وجہ سے مہین آٹا ان کے جسم پر اٹ جاتا۔

وہ ہر طریقے سے کوشش کرتے کہ زیادہ سے زیادہ بچت کریں یہاں تک کہ کافی کو گھلانے والی ڈنڈیاں بھی دھو کر دوبارہ سے استعمال کرتے، آخر کار وینچیل نے اس بات پر اُن کی سرزنش کی۔

جب زیادہ بِکری کی وجہ سے ڈونٹس کی پیکنگ کے لیے گلابی ڈبے کم پڑ جاتے تو وہ انھیں ارزاں قیمت پر خریدتے، اس طرح گلابی ڈبے ان کی دکان کا ایک ٹریڈ مارک بن گئے۔

پورا خاندان روزانہ 12 سے 17 گھنٹے کام کرتا اور سارا دن مصروف رہتا۔ ہفتے کے آخری دنوں کی چھٹیوں کے دن دو بڑے بچے، چیٹ اور ساوی، کافی پلاتے اور گلابی ڈبوں میں پیکنگ کرنے میں ہاتھ بٹاتے۔ ہفتہ بھر وہ سکول پڑھنے جاتے جہاں وہ بعض اوقات اتنے بھوکے ہوتے کہ وہ دوسرے بچوں کے لنچ باکسز سے ان کا کھانا چرا کر کھا لیتے تھے۔

ایک سال میں ٹیڈ نے انتی بچت کر لی کہ وہ ڈونٹس کی ایک اور دکان خریدنے کے لیے معاوضہ ادا کر سکتے تھے، جسے کرسٹیز نے ’مم اینڈ پاپ شاپ‘ کہا۔ ایک مرتبہ پھر سے نئی دکان پر یہ سوگنتھینی ہی تھی جو مسکراہتے چہرے کے ساتھ گاہکوں کا استقبال کرتی۔ اور جب وہ امریکی شہری بن گئی تو اُس نے ایک امریکی نام ‘کسرٹی’ اختیار کر لیا۔

دونوں دکانیں چلانے کے دو برس بعد انھوں نے تقریباً 40 ہزار ڈالرز جمع کر لیے اور ٹیڈ نے اپنا کام مزید پھیلانے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے ایک بڑی جگہ پر ڈونٹس کی دکان خریدی اور اپنی پرانی اصل دکانیں کمبوڈیا سے آنے والے تارکینِ وطن کے ایک اور خاندان کو کرائے پر دے دیں جو اس سے پہلے کسی اور جگہ بہت ہی کم اجرت پر کام کر رہے تھے۔ ٹیڈ نے انھیں تربیت دی اور پھر اس دکان کی چاپیاں ان کے حوالے کر دیں۔

ٹیڈ نے ڈونٹس کی اور زیادہ دکانیں خریدنا شروع کر دیں اور وہ انھیں اپنے ہم وطن دوسرے تارکینِ وطن کو کرائے پر دیتے تھے اور بعد میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’دوسروں کو روزگار دینے کے لیے اپنی رقم استعمال کرنے کا کسی بھی ڈرگ کے مزے سے کہیں زیادہ مزا ہے۔‘

گھنٹوں کام کرتے رہنے کے باعث ٹیڈ اور کرسٹی کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ ان کہ آبائی وطن کمبوڈیا میں اس دوران کیا ہو رہا ہے۔ لیکن جو بھی وہ سنتے تھے وہ خراب تھا۔ وہ پیچھے رہ جانے والے عزیزوں کے لیے پریشان ہوتے اور ان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے۔

کمبوڈیا میں ان دنوں میں پول پاٹ کی قیادت میں خمر روژ ملیشیا لوگوں سے کھیتوں میں جبری مشقت لیتی تھی اور جن لوگوں کے پاس دولت ہوتی یا وہ تعلیم یافتہ ہوتے، انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا یا ہلاک کر دیا جاتا۔ چار برسوں میں 20 لاکھ کمبوڈینز کو یا تو قتل کیا گیا یا وہ بھوک، بیماریوں یا کام کی زیادتی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

سنہ 1978 میں ویت نام کی فوج نے کمبوڈیا پر حملہ کیا اور سنہ 1979 میں پول پاٹ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا جس کے نتیجے میں کمبوڈیا سے ہجرت کرنے والوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ٹیڈ کے والدین اور بہنیں بھی تھائی لینڈ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

اس کے کچھ عرصے بعد بینک کاک سے امریکی سفارت خانے نے ٹیڈ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا وہ اپنے والدن اور بہنوں کو امریکہ میں رہنے کے لیے سپانسر کرے گے۔ ظاہر ہے کہ وہ انھوں نے ہاں کہا اور اپنی بہنوں کے لیے بھی ڈونٹس کی دکانیں خرید لیں۔

ان کے اور بھی رشتہ داروں نے سپانسرشپ کے لیے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ ٹیڈ کہتے ہیں کہ ’ان میں سے کچھ تو میرے چچا، ماموں بھانجے یا بھتیجے تھے۔ لیکن سارے میرے رشتہ دار نہ تھے، کچھ کا تو صرف میرے گاؤں سے تعلق تھا یا وہ مجھے صرف نام سے جانتے تھے۔ میرے خیال میں ان کا سفارت خانے جا کر جھوٹ بولنا غلط نہ تھا کیونکہ ہر ایک کو اپنی زندگی بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔ لہٰذا مجھ سے جتنا بھی ممکن ہو سکا میں نے کیا۔‘

اگلے کئی برسوں کے دوران ٹیڈ اور کرسٹی نے سو کے قریب خاندانوں کو امریکہ ہجرت کرنے کے لیے سپانسر کیا جن میں اکثر کو انھوں نے شروع شروع میں تو اپنے ہاں ٹھہرایا، ان کے گھر وغیرہ حاصل کرنے میں مدد دی، قرضے دیے اور ڈونٹس کی دکانیں کھلوا کر دیں۔ ٹیڈ دوسروں کو بھی یہی کرنے کی ترغیب دیتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بات تو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔‘

کمبوڈینز بہت زیادہ محنت کرتے ہیں اور کیونکہ ان کا پورا خاندان مل جل کر کام کرتا ہے اس لیے انھیں کسی اور کو کام کرنے کی اجرت بھی نہیں دینی پڑتی تھی۔ اس سے ان تارکینِ وطن کو یہاں رہنے میں مدد ملی اور پھر یہ ایک منافع بخش کاروبار بھی تھا۔ آخر میں ایک وقت وہ بھی آیا کہ کیلیفورنیا میں ڈونٹس کی دکانوں اور اس کام پر کمبوڈینز کی برتری ہو گئی اور انھوں نے وینچیل کو دوسرے نمبر پر کر دیا۔ اس بات کا ٹیڈ کو افسوس ہے۔ ٹیڈ کہتے ہیں ’وہ (وینچیل) ایک اچھی کمپنی ہے اور میں ان کا مشکور بھی ہوں۔ کمبوڈینز ان کے بہت مشکور ہیں۔‘

سنہ 1985 میں، تارکینِ وطن کی حیثیت سے امریکہ میں منتقل ہونے کے دس برس بعد، ٹیڈ اور کرسٹی کروڑ پتی بن چکے تھے، وہ ڈونٹس کی 60 دکانوں کے مالک بن چکے تھے۔ ٹیڈ ‘ڈونٹ کنگ’ یا ‘انکل ڈونٹ’ کے نام سے مشہور ہو گئے تھے کیونکہ کئی ایک کمبوڈین تارکینِ وطن کو انھوں نے سپانسر کیا تھا۔ اِس جوڑے کے پاس شوخ قسم کی گاڑیاں تھیں، کروڑوں ڈالروں کی ایک بڑی کوٹھی خریدی جس میں ایک سوئمنگ پول تھا اور اس میں لفٹ بھی لگی ہوئی تھی، اور وہ ہر برس چھٹیاں منانے جاتے تھے۔

ٹیڈ کہتے ہیں ’میں نے اپنے امریکی خواب کی تعبیر حاصل کر لی۔ ہم بہت ہی خوشگوار زندگی بسر کر رہے تھے، پھر میری جوا کھیلنے کی عادت نے ہماری زندگی تباہ کر دی۔ جوا ایک افسوسناک لت ہے، یہ میری زندگی کا سب سے زیادہ افسوسناک واقعہ ہے۔`

ٹیڈ کے زوال کی وجہ لاس ویگاس تھا (لاس ویگاس جوئے کا دنیا کا سب سے بڑا شہر سمجھا جاتا ہے اور اس کی معیشت ہی جوئے خانوں پر چلتی ہے)۔

شروع شروع میں تو وہ اور کرسٹی اِن جوئے خانوں میں یونہی اپنی چھٹیوں کے دوران شغل کے لیے گئے۔ ہر بات ٹھیک تھی: انھوں نے وہاں میجک شو دیکھا، وہاں ایلوس پرسلے کو پرفارم کرتے دیکھا۔ لیکن اگلے موقعے پر ٹیڈ بلیک جیکٹ ٹیبل پر گئے جہاں جوا کھیلا جاتا تھا۔ اور جلد ہی وہ جوئے کی لت کا شکار ہو چکے تھے۔

ٹیڈ کا کہنا ہے کہ ’اس سے پہلے میں نے کبھی جوا نہیں کھیلا تھا، لیکن دنیا بھر کے عادی جواریوں کی طرح آپ شروع شروع میں دس بیس ڈالرز کا جوا کھیلتے ہیں۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کو اتنا شوق ہو جاتا ہے کہ پھر آپ اس سے باہر نکل نہیں پاتے ہیں۔’

کیونکہ وہ بہت فضول خرچ تھے اس لیے کیسینو والوں نے انھیں 2000 ڈالرز فی شب کے کرائے کا کمرہ دینا شروع کر دیا اور انھیں اہم لوگوں کے لیے ہونے والے تمام شوز کے ٹکٹس بھی دیتے۔

وہ کئی کئی دن اپنے گھر سے لاس ویگاس جا کر غائب ہو جاتے اور وہاں وہ ایک داؤ میں ہزاروں ڈالرز ہارنے لگے، اس دوران انھوں نے اپنے خاندان اور اپنے ڈونٹس کے کاروبار کو بھی نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے پاس کاروبار چلانے کے لیے وقت ہی نہیں تھا، اس لیے کاروبار زوال کا شکار ہو گیا۔ میرے پاس اسے پھیلانے کا وقت ہی نہیں تھا۔ یہ تباہی تھی۔‘

کرسٹی انھیں تلاش کرنے کے لیے جوئے خانوں میں جاتی، اس کے ساتھ ان کے بچے بھی ہوتے۔ ٹیڈ کو یاد ہے کہ جب وہ آتی تو وہ میزوں کے یا سلاٹ مشینوں کے پیچھے چھپ جاتے تھے۔

لاس ویگاس

جب بھی ٹیڈ جوا جیتتے تو پورا خاندان ان کے ساتھ جشن مناتا۔ اور جب وہ ہارتے تو وہ غصے میں دروازہ پٹختے بار نکلتا، فرنیچر توڑ دیتا اور بچے اس سے ڈرتے۔ پھر وہ دوبارہ لاس ویگاس جاتے تا کہ اس نے جو بھی ہارا تھا اُسے وہ جیت سکے۔ انھوں نے اپنے زندگی کے بارے میں بننے والی ایک نئی ڈاکومنٹری فلم میں کہا ’آپ جتنا پیچھا کرتے ہیں اتنا ہی پھنستے چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک شیطان ہے۔ یہ ایک بھیانک بلا ہے۔ یہ میرے اندر ایک بھیانک بلا ہے۔‘

’کرسٹی مجھے ہمیشہ معاف کر دیتی لیکن میرے بارے میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ میں قابلِ بھروسہ نہیں ہوں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میں بہت ہی برا آدمی بن گیا اور میں نے لوگوں سے ادھار پکڑنا شروع کر دیا۔‘ جن لوگوں سے انھوں نے ادھار لیا تھا ان میں کچھ وہ لوگ تھے جنھیں اس نے ڈونٹس کی دکانیں کرائے پر دی تھیں۔ جب وہ ان سے لیا گیا قرضہ بھی ہار جاتے تو وہ اُس سے دکانیں اپنے نام کروا لیتے، اور یہ کرسٹی کو علم نہ ہوتا جو کاروبار کی شریک مالک تھی، اس لیے ٹیڈ اُس کے جعلی دستخط خود سے کرلیتے تھے۔

ٹیڈ نے اپنی اس بری عادت پر قابو پانے کی کوشش کی۔ انھوں نے اس عادت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک گروپ میں شمولیت بھی اختیار کی لیکن وہ جوئے کی عادت سے بچ نہ سکے۔ وہ کہتے ہیں ’میں چیختا، ہر شخص پر چلاتا، چیخنے کے بعد میں پھر جوا کھیلنے پہنچ جاتا۔‘

وہ دو مرتبہ ایک بودھ مت کی عبادت گاہ میں بھی شریک ہوئے انھوں نے سر منڈوا لیا اور تھائی لینڈ میں تین ماہ پیدل سفر کیا، واپسی پر وہ ایک لاغر اور بدلے ہوئے شخص تھے یا کم از کم انھوں نے یہی محسوس کیا تھا۔ لیکن چند ہفتوں بعد ہی وہ پھر سے لاس ویگاس پہنچ گئے تھے۔

وہ اپنی سوانع حیات ’دی ڈونٹ کنگ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ اس کا دولت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا ایک جذبے کی لت سے تعلق ہے، اور دولت محض وہ سوئی ہے جس سے ایک آپ نشہ لیتے ہیں۔‘

آخر میں ان کے اور کرسٹی کے پاس ڈونٹس کی ایک ہی دکان رہ گئی جس کے بارے میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اُسے فروخت کر دیں۔ اُن کا بیٹا انھیں اس سے ملنے والی رقم کو لینے کے لیے اپنے گاڑی میں لے کر گیا لیکن سب کچھ ختم ہو گیا۔

واپسی پر جب وہ کار کی ڈِگی میں پچاسی ہزار ڈالرز لا رہے تھے تو انھیں رستے میں پولیس نے روکا۔ وہ کچھ ادائیگیاں کرنے میں ناکام رہے تھے اس لیے ان کی کار ریکارڈ میں چوری کی ظاہر ہوئی۔ ان تینوں کو پولیس تھانے لے گئی، لیکن وہ اتنے زیادہ خوف زدہ تھے کہ وہ پولیس کو یہ بتانے سے ڈر رہے تھے کہ کار کی ڈِگی میں رقم پڑی ہوئی ہے۔ جب وہ رہا ہوئے تو کار سے رقم غائب ہو چکی تھی۔

ٹیڈ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت ہی زیادہ تکلیف دہ کہانی ہے۔‘

سنہ 1993 میں ٹیڈ اور کرسٹی واپس کمبوڈیا چلے گئے۔ ان کا خوبصورت گھر اور ان کی دکانیں سب ختم ہو چکا تھا، لیکن ان کے پاس اتنی رقم بچی تھی جس سے وہ قدرے آرام دہ زندگی بسر کر سکتے تھے۔ ٹیڈ کو اب نیا شوق پیدا ہوا اور وہ سیاست کا تھا۔ جنگ کے بعد کمبوڈیا میں پہلے عام انتخابات ہونے جا رہے تھے اور وہ کمبوڈیا کی تعمیرِ نو کے لیے اس میں حصہ لینا چاہتا تھا۔

ان کے خیال میں وہ ایک سیات دان کی حیثیت سے جوا بھی کھیل نہیں سکے گے۔ ’اگر مجھے لوگوں سے ووٹ لینے ہیں تو میں جوا نہیں کھیل سکتا۔ جب لوگوں کو میری بری شہرت کا پتہ چلتا تو وہ مجھے ووٹ نہ دیتے لہٰذا میں نے اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔‘

امریکہ میں اپنے عروج کے وقت وہ دائیں بازو کی جماعت رپبلکن کے حامی تھے اور اُس کے لیے فنڈ بھی دیتے تھے۔ وہ امریکہ کے سابق صدر رچرڈ نکسن سے بھی ملاقات کر چکے تھے، اور صدر ریگن اور صدر جارج ڈبلیو بش سے بھی ملاقات ہو چکی تھی۔ اس لیے انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کا نام ‘فری ڈویلپمنٹ ریپبلکن پارٹی’ رکھا۔

ٹیڈ نگوئے

لیکن یہ نام گمراہ کن تھا۔ اس نام سے کئی لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا کہ وہ کمبوڈیا کے شاہی خاندان کا مخالف ہے، اس لیے انھیں کوئی بھی نشست نہیں ملی۔ تاہم انھیں انتخابات کے بعد بننے والی حکومت نے تجارت اور زراعت کے امور کا مشیر بننے کی دعوت دی۔

کئی برسوں کی جنگ کی وجہ سے کمبوڈیا ایک پسماندہ ملک بن گیا تھا۔ تائیوان کی اقتصادی ترقی سے متاثر ہونے کی وجہ سے ٹیڈ نے فیصلہ کیا کہ وہ امریکہ میں اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے کمبوڈیا کو تجارت کے لحاظ سے ‘انتہائی پسندیدہ قوم’ (یعنی وہ ملک جس کے تجارتی مال پر سب سے کم محصول درآمد عائد کیا جاتا ہے)، قرار دلوائے گے۔ اس سے کمبوڈیا میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھ سکتی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی ذاتی رقم میں سے ایک لاکھ ڈالرز خرچ کیے، اپنا وقت دیا، اپنا سب کچھ لگا دیا۔‘ انھوں نے ری پبلکن پارٹی میں اپنے ملک کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے رابطہ کاری کی، انھوں نے سینیٹر جان میکین سے بھی رابطہ کیا اور بالآخر سنہ 1996 میں کمبوڈیا کو ‘انتہائی پسندید قوم’ کا درجہ مستقل طور پر مل گیا۔

جس دوران ٹیڈ کمبوڈیا کی اندرونی سیاست میں مصروف تھے کرسٹی اپنے پوتوں کی پیدائش کے موقع پر امریکہ چلی گئی۔ جس دوران وہ امریکہ میں تھی، ٹیڈ کا ایک معاشقہ شروع ہو گیا اور کرسٹی نے اس بات سے دلبرداشتہ ہو کر اپنا عہد توڑ دیا، کرسٹی نے ٹیڈ سے طلاق مانگ لی۔

سنہ 2002 تک ٹیڈ پھر دیوالیہ ہو چکے تھے۔ انھوں نے اپنی ساری رقم سیاست اور چاول کی ایک نئی دو نسلی قسم کو متعارف کرانے پر خرچ کر دی تھی، جس کے بارے میں انھیں یقین تھا کہ اس سے فصل بہتر ہو گی۔ اور اپنے طاقت ور سیاسی مخالف سے علحیدہ ہونے کے بعد انھیں خدشہ ہوا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے اور وہ واپس امریکہ چلے گئے۔

جب وہ امریکی شہر لاس اینجلز پہنچیں تو ان کی جیب میں صرف 100 ڈالرز تھے، جو کہ اب اُن کی کل بچت تھی۔ ٹیڈ کے خاندان والے ان سے ملنا نہیں چاہتے تھے، کسی نے انھیں کوئی کام بھی نہیں دیا، یہاں تک کہ ڈونٹس بیک کرنے کا بھی موقع نہیں دیا۔

وہ اب اپنے گھر والوں اور برادری والوں کی نظر میں اپنی عزت گنوا بیٹھے تھے۔ یہ ان کے لیے زندگی کا بہت ہی ذلت آمیز وقت اور سب سے پست لمحہ تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے کئی بار خود کشی کرنے کی کوشش کی کیونکہ میں اپنے آپ سے نفرت کرتا تھا۔ اور پھر میں جوئے بازی سے نفرت کرتا تھا اور میں نے جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ سلوک کیا جو کہ جوئے کی وجہ سے تھا، میں اپنے آپ سے نفرت کرنے لگا تھا۔‘

ٹیڈ نگوئے

وہ پناہ کی تلاش میں ایک چرچ سے دوسرے چرچ تک مارے مارے پھرتے رہے، بالآخر انھیں ایک بوڑھی عورت نے اپنے گھر کے برآمدے میں جگہ دی۔

’اگر مجھے نہانے کی ضرورت ہوتی تو اُس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا، اُس سے اندر آنے کی اجازت لیتا۔ اور وہ مجھے نہانے کے لیے اندر آنے دیتی۔ اور جب رات کا کھانا تیار ہوتا تو وہ کھٹکھٹاتی اور میں کھانا کھاتا۔‘

اتوار کے اتوار وہ چرچ جاتی جہاں اس کا بیٹا پادری تھا اور وہ بائیبل پڑھنے کی جماعت میں شامل ہوتی۔ اس طرح ٹیڈ بھی مذہبی ہوتے گئے۔

چار برس تک وہ اسی طرح قلاش کی زندگی بسر کرتے رہے اور پھر ٹیڈ ایک اور مرتبہ کمبوڈیا چلے گئے۔ وہ اب بھی بے گھر تھے، وہ وہاں خلیجِ تھائی لینڈ کے ایک ساحلی شہر کمپ منتقل ہو گئے۔ ان کے پاس کمانے کا کوئی ذریعے نہ تھا۔ وہاں انھیں اپنے اچھے دنوں کا ایک چینی دوست ملا جس نے ان سے جائیدادوں کی خرید و فروخت کے کاروبار میں مدد مانگی۔ ٹیڈ اچھی سودے بازی کرتے تھے اور انھوں نے اس کام سے اچھا کمیشن حاصل کیا۔

انھوں نے اور بھی کئی زمینوں کے سودے کرائے اور اس طرح وہ جلد ہی پھر سے کروڑ پتی بن گئے۔ انھوں نے دوبارہ شادی کی اور ان کے چار بچے ہوئے۔ ان کا سب سے چھوٹا بچے ابھی سکول میں زیرِ تعلیم ہے۔

ٹیڈ نگوئے

ٹیڈ نے اپنے آپ کو سماجی زندگی میں زیادہ فعال نہیں کیا۔ پھر ان کی ملاقات لاس انجلیز کی ایک فلمساز ایلِس گو سے ہوئی۔ وہ خود بھی ایک تارکِ وطن کی بیٹی تھی اس لیے ان میں تجسس پیدا ہوا کہ وہ جانیں کہ کیلیفورنیا میں ڈونٹس کی دکانیں کمبوڈینز کی کیوں ہیں اور ان میں اتنے زیادہ کمبوڈینز کیوں کام کرتے ہیں۔

امریکہ کے زیادہ تر حصوں میں ہر تیس ہزار افراد کے لیے اوسطاً ایک ڈونٹس کی دکان ہوتی ہے،جبکہ لاس اینجیلز میں ہر 7000 افراد کے لیے ڈونٹس کی ایک دکان ہوتی ہے۔ ایلِس کہتی ہے کہ اس وقت صرف لاس اینجیلز میں 5000 ہزار ڈونٹس کی آزاد دکانوں میں سے 80 فیصد کے مالک کمبوڈینز ہیں۔

وہ کہتی ہے کہ ’یہ کہانی تارکینِ وطن کی زندگیوں کے بارے میں ایک مثبت بات اجاگر کرتی ہے، یعنی اُنھیں اگر موقع دیا جائے تو وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ اصل میں کہانی ہے ایک ایسے شخص کی جو اس ملک میں خالی ہاتھ آیا تھا، اور پھر کچھ جدوجہد اور اپنے خوابوں کی وجہ سے، اور کسی حد تک اپنی خوش قسمتی کی وجہ سے، اُس نے اپنی زندگی کو قابلِ رشک بنا لیا اور جسے پھر اس نے ضائع کر دیا۔‘

ایلِس کے لیے ٹیڈ کو کیلیفورنیا آ کر فلمنگ کے لیے راضی کرنے میں کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے اپنے تمام رابطے ختم کر ڈالے تھے اور یہ وہ وقت تھا جب ان کے بیٹے ان سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔ ایلِس کہتی ہے کہ ‘وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ لوگ اس کو اپنے سے دور کر دیں گے اور وہ تنہائی سے گھبراتے تھے۔ لیکن میں نے اُنھیں مجبور کیا کہ وہ چلیں۔’

آخر میں ان کی زندگی پر ڈاکیومنٹری کے لیے فلمنگ ان کی اپنی ذہنی صحت کے لیے بہتر ثابت ہوئی۔

اگرچہ کمبوڈین کمیونیٹی ان سے ابھی تک ناراض ہے، جن کی محنت کی کمائی انھوں نے جوئے میں ہار دی تھی، تاہم انھیں اب بھی بہت سارے لوگ عزت سے یاد کرتے ہیں۔ انھیں ڈونٹس بنانے والوں کی نوجوان نسل سے مل کر خوشی ہوئی جو اب نئے سے نئے ڈیزائن کے اور بہتر سے بہتر ذائقے کے ڈونٹس تیار کر رہے ہیں۔ انھوں نے ان بہت سارے لوگوں سے معذرت بھی طلب کی جن کی انھوں نے دل آزاری کی تھی۔

سب سے زیادہ اہم یہ تھا کہ ان کے اس سفر نے انھیں کرسٹی اور اپنے بچوں سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کا موقع فراہم کیا۔ کرسٹی نے اب ایک اور شادی کر لی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے مجھے معاف کر دیا۔ میں نے انھیں ہزار مرتبہ کہا کہ میں اپنی غلطی پر بہت نادم ہوں۔ میں انھیں جب بھی ملتا میں ان سے کہتا میرے بیٹے، میری بیٹی میں بہت نادم ہوں۔ کرسٹی، میں بہت نادم ہوں۔ اگر تم گزرا وقت واپس لا سکو تو لے آؤ۔ لیکن گزرا وقت کوئی واپس نہیں لا سکتا ہے، مگر میں نے یہ بات بہت بھاری قیمت ادا کر کے سیکھی ہے۔‘

اب وہ اُن سے روزانہ رابطے میں رہتے ہیں۔ ’اب ہر شخص مجھ سے مل کر خوش ہوتا ہے، کیونکہ اب میں ایک برے شخص سے ایک اچھے شخص میں بدل گیا ہوں۔‘

ٹیڈ کی جن خصوصیات نے انھیں خطرات مول لے کر ایک کامیاب بزنس مین بنایا تھا، ان ہی خصوصیات نے انھیں جوئے کی لت کی عادت میں تباہ بھی کیا۔

وہ اپنی سوانع حیات میں لکھتے ہیں کہ ’یہ خطرہ مول لینے کی ایک خالص قسم ہے، ایک خالص قسم کا اضطراب، کسی بھی کاروباری فیصلے اور کسی بھی محبت کے اظہارِ جرات کے پیچھے چھپا جوش و ولولہ۔‘

وہ اپنی جوئے کی لت سے نجات کی وجہ اپنے مسیحی عقائد کو قرار دیتے ہیں اگرچہ وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ اب بھی فٹ بال کے میچوں پر شرطیں لگانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

’اسی لیے میں ساری دنیا کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ جوا مت کھیلو۔ جب آپ جوا کھیلنا شروع کرتے ہیں تو سمجھیں کہ اب آپ کی زندگی برباد ہو گئی ہے۔ آپ اپنے پورے خاندان کو تباہ کر دیں گے، آپ کا سب سے ناطہ ٹوٹ جائے گا، اب بس ختم ہو جائیں گے۔ جوا ایک شیطان ہے۔‘

وہ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ بہرحال بالآخر میں ہرا دیتا ہوں۔ ’میں کبھی بھی اپنی ہار نہیں مانتا ہوں، میں کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹتا ہوں۔ میں ہتھیار نہیں ڈالتا ہوں۔ یہاں تک کہ جوئے میں بھی نہیں۔ مجھے چالیس برس سے زیادہ لگے ہیں۔ اور میں آخر میں جیت گیا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp