ڈھائی سال بعد بھی دکھانے کو کارکردگی نہیں ڈرامے ہیں


لاتعداد وعدوں اور دعووں کے ساتھ مسلط کی گئی حکومت کے پاس جب کارگردگی اور کارگزاری کے نام پر دکھانے کو کچھ نہ ہو تو اس کا لاڈلا سربراہ فرمائشی اجتماعات میں کبھی حریف سیاسی پارٹی کے دوسرے درجے کے قائد کے ایک غیر اہم انٹرویو پر طنز و تعریض کے تیر برساتا ہے۔ کبھی اپنی بے ربط تقریروں میں ترکی ڈرامے دیکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کبھی سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی پر محمول کر کے سیاسی حریفوں کے خلاف انتہائی گھٹیا اور اخلاق باختہ زبان استعمال کرتا ہے۔ کبھی این آر او نہ دینے کا فرسودہ اور بے ہودہ نعرہ لگا کر اپنی بے اختیاری کا واویلا کرتا ہے اور کبھی ملک کی فوج کو سیاست میں گھسیٹ کر اسے متنازعہ بناتا ہے۔

آپ اس حکومت کی نا اہلی اور نالائقی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ آج ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے۔ غربت کے نام پر غریب ختم کیے جا رہے ہیں۔ مہنگائی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ بیٹھ چکی ہے۔ گردشی قرضے خطرے کی حد عبور کر چکے ہیں۔ کرپشن کے ہوش ربا سکینڈل سر اٹھا رہے ہیں۔ گیس کی کمیابی کا بحران منہ کھولے کھڑا ہے۔ کورونا کی دوسری یلغار ہمارے لوگ تیزی سے اچک رہی ہے۔ خارجہ محاذ پر ہم بالکل تنہا ہو چکے ہیں اور کشمیر ہم سے چھن چکا ہے اور ہمارے وزیر اعظم صاحب، وزرا، کابینہ اور کرائے کے ترجمان اسحٰق ڈار کے انٹرویو کے مندرجات اور مختلف پہلووٴں پر وقت، وسائل اور پیسہ برباد کر رہے ہیں۔

اسحٰق ڈار نون لیگ کے دوسرے درجے کے قائد ہیں۔ وہ سابق حکومت میں وزیر خزانہ رہے ہیں۔ انہیں 2013 میں انتہائی پٹی ہوئی اور کچلی ہوئی معیشت ملی تھی مگر اسحٰق ڈار نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت، دلجمعی اور اعلٰی قیادت کے تعاون کے طفیل ڈوبی ہوئی معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھا دیا۔ پھر نواز شریف، نون لیگ اور دوسرے قائدین کی طرح اسحٰق ڈار بھی اداروں کے عتاب کا شکار ہوئے اور فاشسٹ حکومت کے انتقام سے بچنے کے لیے لندن چلے گئے۔ جو لوگ اسحٰق ڈار کو چور، ڈاکو، منشی اور نا اہل کہتے نہیں تھکتے وہ ذرا اسحٰق ڈار کی ان معجز نما کامیابیوں کی مختصر سی روداد سن لیں جو انہوں نے چار سال کے مختصر عرصے میں حاصل کیں۔

اسحٰق ڈار 2013 میں 6 ارب ڈالر کے اوپننگ بیلنس سے حکومت شروع کرتا ہے اور 2018 میں 18 ارب ڈالر کے فارن ریزرو کے ساتھ اپنی مدت پوری کرتا ہے تقریباً 20,000 پوائنٹس سے سٹاک مارکیٹ کو چلانا شروع کرتا ہے اور 53,000 تک پہنچاتا ہے 2013 سے 2018 کے درمیان کل 42 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لیتا ہے اور اسی مدت میں 70 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرتا ہے سی پیک کے ذریعے تقریباً 60 ارب ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں لاتا ہے 2013 سے 2018 تک 500 کلومیٹر کی موٹرویز کو 2500 کلو میٹرز تک بڑھاتا ہے 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ورثے میں حاصل کرتا ہے اور 2018 میں پاکستان کو سرپلس بجلی دے کر جاتا ہے قدرتی گیس کی 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ورثے میں حاصل کرتا ہے سرپلس قدرتی گیس چھوڑ کر جاتا ہے دہشت گردی، بدامنی اور بھتہ خوری والا پاکستان وراثت میں حاصل کرتا ہے اور پرامن پاکستان بنا دیتا ہے ٹیکس کلیکشن 2800 ارب سے 4500 ارب روپے تک لے جاتا ہے دفاعی بجٹ 850 ارب روپے سے 1100 ارب روپے تک بڑھاتا ہے ڈالر کو 108 سے 98 روپے پر لاتا ہے پیٹرول کی قیمت مسلسل کم کرتا ہے پنجاب کے ہر گاؤں تک کارپیٹڈ سڑکیں تعمیر کرتا ہے ان میں قدرتی گیس پہنچاتا ہے، بیسک ہیلتھ یونٹس اور ڈی ایچ کیو و سول ہسپتالوں کو فعال کرتا ہے ہسپتالوں میں مفت ٹیسٹ اور مفت ادویات فراہم کرتا ہے پنجاب کے بڑے شہروں میں عام آدمی کی سہولت کے لئے باعزت سفر کے لئے میٹرو تعمیر کرواتا ہے ذہین طالب علموں کے لئے سپیشل فنڈز سے وظیفے اور لیپ ٹاپ سکیم کم پڑھے لکھے بیروزگار نوجوانوں کے لئے گرین کیب سکیم کھادوں، بجلی اور خوراک پر سبسڈی حج و عمرہ پر سبسڈی شرح نمو 4 فیصد سالانہ سے اٹھا کر 5.8 فیصد سالانہ تک لے جانا۔

آج نواز شریف اور اسحٰق ڈار کو ایسے ہی ”جرائم“ کی سزا مل رہی ہے۔ اب آئیے اسحٰق ڈار کے اس انٹرویو کی طرف جو انہوں نے بی بی سی کے اینکر سٹیفن سیکر کو دیا ہے۔ یوں تو پیمرا نے مفرور اشتہاری مجرموں کی تقاریر، بیانات اور انٹرویو دکھانے پر پابندی لگا رکھی ہے مگر جونہی اسحٰق ڈار کے انٹرویو کے کچھ کمزور حصوں کی خبر ملتی ہے تو سارا میڈیا نادیدہ قوتوں کے اشاروں پر وہ حصے بار بار بریکنگ نیوز کے طور پر دکھانا شروع کر دیتا ہے۔

ہر چینل پر مخصوص اور منفرد تجزیہ نگاروں کو بلا کر اسحٰق ڈار اور نون لیگ کی مٹی پلید کی جاتی ہے۔ سات بجے سے بارہ بجے تک اسحٰق ڈار سے پوچھے گئے سوالوں کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ ان کے چہرے کے تاثرات، آنکھوں کے زاویے، بدن بولی اور رنگوں پر گھٹیا تبصرے کیے جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ متعلقہ سوالات کے دیے گئے جواب تک دکھائے نہیں جاتے۔ پنجاب حکومت کے ایک ”شیریں بیان“ ترجمان تو اسحٰق ڈار کی تصویروں کے مختلف پوز لے کر مختلف چینلز پر بیٹھ کر ان کے خلاف واہیات گفتگو کرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کا وزیراعظم اپنی تقریر میں اس انٹرویو کا ذکر کرنا نہیں بھولتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پورے تین روز تک انٹرویو کے چند کمزور حصوں کو اچھال کر گویا پانی پت کی چوتھی جنگ جیتنے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ اس حکومت نے باقی سب مسائل حل کر دیے ہیں اور یہ انٹرویو اس کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ انٹرویو پر اپنی ساری توانائیاں صرف کرنے والی حکومت کی ناک کے عین نیچے مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آ کر ایک باپ اپنے پانچ بچوں کو نہر برد کر دیتا ہے؟

جو حکومت اپوزیشن کے دوسرے درجے کے مفرور اشتہاری لیڈر کے ایک انٹرویو کے کچھ کمزور حصوں کو اچھال کر اپنی فتح کا جشن منانے کی محتاج ہو اس کی کم مائگی، درماندگی اور بے چارگی کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ بات اگر انٹرویو ہی کی ہے تو عمران خان کو ڈھائی سال قبل زینب بداوی کے تابڑ توڑ سوالوں کے سامنے سب نے بھیگی بلی بنے دیکھا تھا۔ ابھی چند دن قبل پاکستان کے فرینڈلی میڈیا کے ایک پلانٹڈ انٹرویو میں بھی خان صاحب بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دیے۔

چند سال قبل انڈین چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی اس وقت ان کے پسینے چھوٹ گئے تھے جب وہ اس کے روبرو یہ جھوٹ بول رہے تھے کہ دوران طالب علمی انہیں سب سے زیادہ دلچسپی سیاسیات سے تھی۔ اس پر اینکر نے ترنت کہہ دیا کہ مگر سیاسیات کے مضمون میں تو آپ کے مارکس سب سے کم ہیں۔ اس پر وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے پہلو بدلنے لگے۔ کسی کا انٹرویو اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی مگر ایک انٹرویو کسی پارٹی، اتحاد، شخصیت یا حکومت کی مجموعی کامیابی یا ناکامی پر کیسے منتج کیا جاسکتا ہے؟

کتنے افسوس کی بات ہے کہ ڈھائی سال کے بعد بھی حکومت کے پاس دکھانے کو کارکردگی نہیں، ڈرامے ہیں یا اسحٰق ڈار کے انٹرویو جیسے ناٹک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).