روز آئی لینڈ: اپنا جزیرہ آباد کرنے والے ’خود پسندوں کے شہزادے‘ کی کہانی اب نیٹ فلکس پر دکھائی جائے گی


The original Rose Island, and the poster for the Netflix film about it
Lorenzo Rosa/Netflix
روز آئی لینڈ کی کہانی کو اب نیٹ فلکس پر دکھایا جائے گا
سنہ 1960 کی دہائی کے اواخر میں ایک اطالوی انجینیئر نے بحیرہ ایڈریاٹک میں اپنا جزیرہ قائم کیا تھا جس میں ریستوران، شراب خانہ، تحائف کی دکان اور یہاں تک کہ ایک پوسٹ آفس بھی بنایا گیا تھا۔ یہ ایک غیرمعمولی کہانی ہے جو دہائیوں تک لوگوں تک نہیں پہنچ سکی۔

تاہم اب یہ تبدیل ہونے کو ہے کیونکہ نیٹ فلکس پر ‘روز آئلینڈ’ کے نام سے فلم ریلیز کی جا رہی ہے جس میں اس اطالوی انجینیئر جیورجیو روزا اور ان کی جانب سے آباد کیے جانے والے جزیرے کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرنے پر اطالوی حکام کے ساتھ طویل محاذ آرائی کی کہانی بتائی گئی ہے۔

اگر آپ شمالی اٹلی کے شہر ریمینی میں رہتے ہیں تو یہ کہانی یقیناً آپ نے سن رکھی ہو گی جہاں روزا نے چھوٹی سی مثالی ریاست قائم کر رکھی تھی۔

فلم کے پروڈیوسر میٹیو روویرے بتاتے ہیں کہ رمینی میں یہ ایک ایسی کہانی ہے جو دادیاں اور نانیاں اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کو سناتی ہیں۔ یہ ایک اتنہائی مقبول کہانی ہے لیکن صرف رمینی میں ہی۔

‘ہمیں محسوس ہوا کہ یہ ایک زبردست کہانی ہے اور خاصی عجیب بات ہے کہ یہ ہمیں معلوم ہی نہیں۔’ سنہ 2017 میں روزا کی وفات سے قبل انھوں نے فلم کے ہدایت کاروں سے ملاقات کی اور اس کہانی کو سکرین پر لانے کے لیے بات کی۔

اس فلم میں اس جزیرے پر ہونے والی تعمیرات اور روزا کے، اٹلی کی حکومت کی جانب سے اس کے خاتمے کے مطالبوں کو رد کرنے کی روداد سنائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نیٹ فلکس اداکارہ کو پورن سٹار کہلائے جانے پر غصہ

’طاقتور کے سامنے سچ بولنے والے‘ حسن منہاج کا شو بند

انڈین میچ میکنگ شو: ’گِھسی پٹی سوچ‘ یا معاشرے کی درست عکاسی؟

’بائیکاٹ نیٹ فلکس‘: مندر میں بوسے کی فلمبندی پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ

Still from Rose Island

NETFLIX
دنیا بھر میں پھیلی کشیدگی، ویتنام جنگ اور شہری حقوق کے لیے کیے جانے مظاہروں کے پسِ منظر میں نوجوانوں نے روز آئی لینڈ کا رخ کیا

اس کہانی کا آغاز سنہ 1967 سے ہوتا ہے جب روزا نے ایک چھوٹی سی ریاست آباد کرنے کا منصوبہ بنایا جس کا مقصد تھا کہ اسے ‘آزادی کا ایک نشان’ سمجھا جائے۔ اس وقت کئی افراد نے یہ سوچا ہو گا کہ یہ شخص پاگل ہے جو اس نے ایسا منصوبہ بنایا ہے۔

تاہم ان کے سگے بیٹے لورینزو روزا بتاتے ہیں کہ اس جزیرے کے ڈھانچے کو بنانے میں خاصی تکنیکی مہارت بھی درکار تھی۔

میرے والد ایک انجینیئر تھے اور اٹلی میں ان کا نام لینے سے ہی آپ کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی حیثیت کیا تھی۔ وہ نہایت مفصل و منظم کام کرنے اور باریکیوں کا خیال رکھنے والے شخص تھے۔

جیسے ایک جرمن انجینیئر کی تعریف کی جاتی ہے، وہ بالکل ویسے تھے۔ بس ان میں ایک جذباتی رگ ضرور موجود تھی اور وہ یہ کہ انھیں اپنا جزیرہ نما ڈھانچہ کھڑا کرنے کا شوق تھا جسے بعد میں ‘اطالوی’ بحری حدود سے باہر ایک ریاست کا درجہ دیا جائے، انھیں اگر خود پسندوں کا شہزادہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

روزا جزیرہ کیا تھا؟

Rose Island

Gambalunga Civic Library, Rimini
  • 1967 میں اطالوی انجینیئر جیورجیو روزا نے ایک 400 مربہ میٹر پر محیط ایک ڈھانچے کی تعمیر کے لیے رقم اور ڈیزائن دیا جو سطح سمندر سے 26 میٹر تک ہوا میں معلق تھا۔
  • یہ ڈھانچہ رمینی کے ساحل سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا اور یہ اطالوی بحری حدود سے باہر ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ حکام کی زیرِ انتظام نہیں تھا۔
  • روزا نے خود کو اس جزیرے کا صدر بنایا اور ساتھ ہی اسے ایک آزاد ریاست کی حیثیت بھی دے دی جسے ریاستِ روز آئلینڈ کہا جانے لگا۔
  • اطالوی حکام اس بات سے ناخوش تھے کہ روز آئلینڈ بغیر اجازت بنایا گیا ہے اور یہ سیاحت سے مستفید بھی ہو رہا ہے لیکن اسے ٹیکس استثنیٰ بھی حاصل ہے۔
  • اس کے علاوہ یہ دعوے بھی کیے جاتے تھے کہ یہ جزیرہ دراصل جوئے اور شراب نوشی کا گڑھ ہے اور کچھ سیاست دانوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس جزیرے سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے اور یہ سوویت جوہری آبدوزوں کو پناہ دیتے ہے۔ یہ تمام باتیں اس جزیرے کی ساکھ پر ضرب لگانے کے لیے کی گئی تھیں۔
  • جزیرے کی جانب سے آزادی کا اعلان کرنے کے 55 دن بعد ہی 24 جون 1968 کو اٹلی کی حکومت نے اپنی فوجوں کو بھیج کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے 11 فروری 1969 کو ڈائنامائٹ لگا کر اس جزیرے کو تباہ کر دیا۔
  • کچھ ہی دنوں میں ایک طوفان کے باعث اس کا ڈھانچہ زیرِ سمندر چلا گیا۔ آج بھی یہ بحیرہ ایڈریاٹک تلے دفن ہے۔

رویئر بتاتے ہیں کہ 'روز آئی لینڈ' دراصل 'آزادی کی داستان ہے جو یہ بھی بتاتی ہے کہ جیورجیو روزا حکومت کے خلاف کس طرح ڈٹا رہا۔ وہ خود کو قانون کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ قانون کے مطابق ساحل سے چھ میل کی مسافت کے بعد موجود پانی کسی کی بھی ملکیت نہیں، اس لیے یہاں آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں، ویسے ہی جیسے جب آپ چاند پر ہوتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔'

‘اس لیے انھوں نے یہ جزیرہ بنایا اور یہ نہایت شاندار تھا کیونکہ یہ انتہائی پیچیدہ مراحل کے بعد بنا تھا۔ انھوں نے اسے چار دوستوں کے ساتھ مل کر چھ ماہ میں بنایا۔ انھوں نے اسے تعمیر کرنے کے لیے ٹیکنالوجی ایجاد کی اور انھیں اس ٹیکنالوجی پر فخر تھا۔ بلکہ جب ہم نے ان سے (فلم بنانے کے بارے میں) بات کی تو وہ کہانی میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے لیکن وہ اس ٹیکنالوجی کے بارے میں پر جوش انداز میں بتا رہے تھے جو انھوں نے یہ ڈھانچہ تعمیر کرنے کے لیے ایجاد کی تھی۔’

جب اس کی تعمیر مکمل ہوئی تو روزا کے بنائے گئے پلیٹ فارم کو اطالوی اخبارات نے بھی کوریج دی اور دنیا بھر میں پھیلی کشیدگی، ویتنام جنگ اور شہری حقوق کے لیے کیے جانے مظاہروں کے پسِ منظر میں نوجوانوں نے روز آئی لینڈ کا رخ کیا اور آزادی اور خوشی منائی۔ اسے بند کرنے کی کوشش نے اسے مزید مقبول بنایا۔ اطالوی حکومت نے اسے بے وقعت بنانے کے لیے یہ دعوے کیے کہ اس جزیرے کو غیرقانونی کام جیسے جوئے اور منشیات کی فروخت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

روزا کے بیٹے کا کہنا تھا کہ ‘انھوں نے یہ صرف اس لیے کہا تاکہ اس جزیرے کی ساکھ کو خراب کیا جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے نیچے روسی آبدوزیں چھپی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور الزام یہ تھا کہ یہ جزیرہ خطرناک ہے کیونکہ یہ غیرمستحکم ہے ۔۔۔ لیکن پھر بھی اسے تباہ کرنے کے لیے ڈائنامائٹ کے تین راؤنڈ صرف ہوئے۔

The making of Rose Island

Simone Florena

جتنی محنت روز آئی لینڈ کو ڈیزائن اور تعمیر کرنے میں لگی وہ اس وقت عیاں ہوئی جب ڈائریکٹر سڈنی سیبلیا اور ان کی ٹیم نے اسے فلم کے سکرین پر دوبارہ بنانے کی کوشش کی۔

خوش قسمتی سے یہ فلم مالٹا میں انفنٹی پول میں فلمائی گئی اور یہ ایسے پانی پر فلمائی گئی جو اتنا گہرا نہیں تھا جتنا اصل جزیرے کے گرد تھا۔ تاہم اس سب کے باوجود فلم بنانے والوں کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈائریکٹر سیبلیا ہنستے ہوئے بتاتے ہیں ‘ہر روز ایک ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔‘

ہر روز ہمیں کوئی چیز دھماکے سے اڑانی پڑتی یا پانی کے ساتھ کچھ مشکل کام کرنا پڑتا۔ عموماً فلمیں زیمن پر بنائی جاتی ہیں۔ ہم انسانوں کے ساتھ کیمرے کو زمین پر رکھ کر فلم بناتے ہیں۔ لیکن جب ہم یہی فلمیں پانی پر بناتے ہیں تو کیمرہ اکثر ہوا میں ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘اکثر نئے ڈائریکٹرز مجھ سے مشورے مانگتے ہیں تو میں انھیں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ‘زمین پر فلمانے کی کوشش کرو۔’

The making of Rose Island

SIMONE FLORENA
ڈائریکٹر سیبلیا کہتے ہیں ’اکثر نئے ڈائریکٹرز مجھ سے مشورے مانگتے ہیں تو میں انھیں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ‘زمین پر فلمانے کی کوشش کرو‘

نیٹ فلکس کی جانب سے اس کہانی کو فلم کی شکل دینے کا مقصد انگریزی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں میں فلمیں بنانا ہے تاکہ اسے دنیا بھر سے ناظرین دیکھ سکیں۔ اس میں بول اطالوی زبان میں ہیں تاہم دنیا بھر کے ناظرین کے لیے مختلف زبانوں میں سبٹائٹل اور ڈْبنگ موجود ہے۔

مقبول اطالوی اداکار ایلیو جرمانو اس فلم میں روزا کا کردار نبھا رہے ہیں جبکہ ان کی معشوقہ کا کردار مٹلڈا ڈی اینجیلیس نبھا رہی ہیں اور انھوں نے حال ہی میں ایچ بی او کی جانب سے بنائی گئی فلم ‘دی ان ڈوئنگ’ میں ایلینا کا کردار ادا کیا ہے۔

جرمانو نے فلم کی ہدایت کے مراحل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں بہت سی حقیقی باتوں کو مدِ نظر رکھنا تھا۔

‘پانی، ہوا، یہ سب حقیقت تھی تو اس لیے یہ ہمارے لیے ایک ایکشن فلم بن گئی تھی۔ خاص کر میرے لیے، اس لیے یہ ایک مشکل تجربہ تھا۔’

تاہم انھوں نے مزید بتایا کہ ‘یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ یہ فلم پایۂ تکمیل تک پہنچی۔ ‘نیٹ فلکس سے پہلے اس کہانی پر فلم بنانا شاید بہت مہنگا پڑ جاتا، یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایک اطالوی فلم اس طرح فلمائی گئی ہے، اتنی رقم خرچ کرنے کے بعد آپ اپنے تصورات کو آزادانہ طور پر دکھا سکتے ہیں۔’

دونوں فلمی ستاروں کو اس سے قبل اس کہانی کے بارے میں علم نہیں تھا۔ ڈی اینجلس کہتے ہیں ‘میرا تعلق بیلونی سے ہے اور میرے والدین، یا کسی بھی دوست یا خاندان میں بھی کسی کو اس کہانی کے بارے میں علم نہیں تھا، جو کہ خاصی حیرت انگیز بات ہے۔ جب میں نے سکرپٹ پڑھا تو میں نے سوچا کہ کسی نے کبھی اس کہانی کے بارے فلم کیوں نہیں بنائی کیونکہ یہ نہایت شاندار ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘اس کہانی کے بارے میں کم لوگوں کو معلوم ہونے کا ایک نقصان یہ تھا کہ اداکاروں کے پاس اپنے کرداروں کو ڈھالنے کے لیے کوئی مواد نہیں تھا۔ ‘ایسا نہیں تھا کہ ہمارے پاس بہت ساری تصاویر تھیں یا کوئی کتاب تھی۔ اس لیے کرداروں کی بنیاد رکھنا ہمارے تخیل پر ہی تھا۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ ہم 60 کی دہائی کا ماحول دکھاتے، ویسے کپڑے پہنتے، رویہ دکھاتے اور آزادی کے خیالات کا ذکر کرتے۔’

Matilda De Angelis and Elio Germano

SIMONE FLORENA
میٹلڈا ڈی انجلیس اور ایلیو جرمینو گبریلا اور جیورجیو روزا کے کردار میں

اس فلم میں روزا کی اطالوی حکام کے ساتھ محاذ آرائی کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور متعدد مناظر ایسے فلمائے گئے ہیں جن میں روزا حکام کے میٹنگ رومز میں موجود ہیں اور صفائی دے رہے ہیں۔ تاہم یہ انجینیئر جو اس وقت چالیس کے پیٹے میں تھا اپنے نظریات سے پیچھے نہیں ہٹا اور اس بات پر ڈٹے رہے کہ انھوں نے یہ جزیرہ تعمیر کر کے کچھ غیر قانونی نہیں کیا اس لیے اسے تباہ کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔

رویئر جنھوں نے دستاویز کی مدد سے اس فلم کے لیے تحقیق کی ہے وضاحت کرتے ہیں کہ ‘انھوں نے روزا کو رقم کے عوض جزیرہ چھوڑنے کا لالچ دیا لیکن وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ یہ ایک آزادی کا نشان ہے۔ یہ ایک مثالی ریاست ہے لیکن ساتھ ہی یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو انھوں نے اس لیے کیا تاکہ وہ حکومت کے سامنے مضبوط نظر آئیں۔’

روزا کی اصل نیت یہ تھی کہ وہ آہستہ آہستہ روز آئی لینڈ کی منزلیں بڑھائیں گے۔ رویئر اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘وہ چاہتے تھے کہ یہ جزیرہ ایک نہیں پانچ منزلہ ہونا چاہیے۔ اس کا ڈھانچہ نہایت مضبوط تھا اور منصوبہ یہ تھا کہ ہر سال اس پر ایک منزل کا اضافہ کیا جائے گا۔

جزیرے کی تمام تر سہولیات کو بہترین حالت میں رکھنا بہرحال ایک مشکل کام تھا تاہم روزا اور ان کی ٹیم تین ٹوائلٹ بنانے میں کامیاب ہو گئے تاہم جب موسم خراب ہوا تو انھیں مشکلات اٹھانی پڑیں۔

روویئر بتاتے ہیں کہ ‘انھوں نے اس جزیرے کو اپریل میں کھولا، تو یہ ان کا پہلا مسوسمِ گرما تھا اس جزیرے پر۔ تاہم اس کے بعد انھیں اندازہ ہوا کہ یہ سردیوں کے موزوں نہیں ہے۔’ فلم میں روزا کو ٹھنڈ، ہواؤں، بارش اور اونچی لہروں سے بچنے کی کوشش کرتے دکھایا گیا ہے۔

Rose Island postage stamps

Lorenzo Rosa
جارجیو روزا نے اپنے روز آئی لینڈ ڈاک ٹکٹ بھی بنائے

تاہم تمام تر مسائل کے باوجود لورینزو روسا کی ایک سات سالہ بچے کے طور پر یہاں آمد ایک خوشگوار یادداشت ہے۔

وہ یاد کرتے ہیں: ‘مجھے یہ جزیرہ بہت پسند آیا تھا اور میں یہاں بہت مرتبہ آ چکا ہوں۔ یہ ایک نہایت بہترین تجربہ تھا۔’

‘مجھے اپنے والد کے ساتھ رہنا پسند تھا، اور ان کا ساتھ بھی خوش نصیبی کی علامت تھی کیونکہ وہ بطور انجینیئر بہت محنت کر رہے تھے اور وہ اپنی رقم سے یہ جزیرہ بنا رہے تھے حالانکہ وہ اتنے امیر نہیں تھے۔ اس لیے وہ زیادہ محنت کرکے پیسے کماتے اور پھر اس جزیرے کی تعمیر پر لگا دیتے۔’

‘وہ بلونی سے صبح چار یا پانچ بجے نکلتے کشتی پر بیٹھتے اور جزیرے پر کام کرتے۔ اس لیے ان کے ساتھ ہونا میرے لیے ایک تفریح تھی۔ کشتی پر سوار ہونا مجھے بہت پسند تھا، اور پانی کو دیکھنا، کیونکہ بحیرہ ایڈریاٹک کا پانی ساحل کے قریب چکنی مٹی جیسا کیچڑ زدہ ہے۔ لیکن کھلے سمندر میں ایسے لگتا تھا کہ آپ کریبین میں ہیں۔‘

The original Rose Island structure

Lorenzo Rosa
سنہ 1967 میں آئی لینڈ کی تعمیر کے دوران لی گئی تصویر

اس اتنہائی غیرمعمولی تجربے کے بعد آپ کو شاید ایسا لگے کہ جیورجیو روزتاحیات آئی لینڈ کی کہانیوں میں خاصی دلچسپی رکھتے ہوں گے، اور اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے پرجوش ہوتے ہوں گے۔

ان کے بیٹے بتاتے ہیں کہ ‘اصل میں وہ اس کے تباہ ہونے کے بعد خاصے افسردہ اور شرمندہ تھے، انھیں اس کے باعث دکھ پہنچا۔ انھوں نے کبھی اس بارے میں بات نہیں کی۔ ہم سب بھی اس بارے میں بات نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ انھیں غمگین کر دیتا تھا۔ تاہم وہ ان سوالات کے جواب ضرور دیتے تھے جو ان سے پوچھے جاتے تھے۔’

‘میری سب سے غمگین یاد ان کے حوالے سے وہ ہے جب انھیں اطالوی حکومت کی جانب سے ایک خط ملا تھا جس میں انھیں رقم کے عوض جزیرہ تباہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ وہ اس وقت ایک کروڑ دس لاکھ لیرا کے برابر تھی۔ (یہ کرنسی اب موجود نہیں لیکن یہ تقریباً پانچ ہزار دو سو پاؤنڈ بنتا ہے۔)

وہ بتاتے ہیں کہ ‘مجھے یقین ہے کہ میرے والد کو یہ فلم بہت پسند آتی، لیکن اس سے انھیں وہ سارے درد بھی یاد آ جاتے۔ تاہم وہ یہ دیکھ کر خوش ہوتے کہ سیبلیا نے کس طرح اس موضوع کو چھوا ہے، اور اس فلم میں کیسے ایک مزاح کا پہلو بھی رکھا گیا ہے۔’

Giorgio and Gabriella Rosa

Lorenzo Rosa
جیورجیو اور گیبریلا روزا

جب روز آئی لینڈ کو دھماکہ خیز مواد کے ذریعے اڑا دیا گیا تھا تو کچھ ہی دنوں میں ایک طوفان کے باعث اس کا ڈھانچہ زیرِ سمندر چلا گیا۔ آج بھی یہ بحیرہ ایڈریاٹک تلے دفن ہے۔ تاہم لورینزو روزا کے پاس اس کے اصلی ڈھانچے کا ایک ٹکڑا موجود ہے۔

‘میرے پاس ایک اینٹ ہے جو سکوبا ڈائیورز کو وہاں سے ملی، اور انھوں نے اس پر کچھ انتہائی خوبصورت الفاظ لکھے۔’ انھوں نے یہ الفاظ باآواز بلند پڑھ کر سنائے:

’ریمینی کے غوطہ خوروں کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ایک خواب دیکھنے والے کو اس کے خواب کا ایک حصہ واپس دے رہے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp