اظہار محبت


ہم دونوں کی نظر ملی تو میرا دل زور سے دھڑکا۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا۔ جب بھی اس سے نظریں چار ہوتیں، مجھے یوں لگتا کہ دل حلق کے راستے باہر آ جائے گا۔

وہ کلاس کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔ یا شاید محبت میں ایک ہی شخص خوبصورت نظر آتا ہے۔ لیکچر کے دوران اس کی طرف نگاہ جاتی تو میں اس کی سحر زدہ آنکھوں میں کھو سا جاتا۔ وہ مسکراتی تو گویا پوری کائنات بھی اس کی مسکراہٹ میں شریک ہو جاتی۔ اگرچہ خاموش گو تھی، پر لب ہلتے تو معلوم ہوتا کہ الفاظ کی جگہ موتی سمٹ آئے ہیں۔ خود اس کی شخصیت بھی تو ایک موتی کی طرح ہی تھی۔ ایسا موتی جو سیپی کی تہہ میں چھپا ہوتا ہے، سب کی نظروں سے اوجھل۔ قریب سے دیکھو تو محسوس ہو فیض کی غزل مصرع بہ مصرع اتر رہی ہے۔ اور دور سے دیکھیے تو گویا امجد اسلام امجد کی نظم کی تشکیل ہو رہی ہو۔

دن گزرتے جا رہے تھے اور آتش محبت تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ سلگتے ہوئے جذبات کی حدت شاید میرے ایک دوست نے بھی محسوس کر لی تھی۔ چنانچہ ایک رات کھانا کھاتے ہوئے اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا : ”کہتے ہیں کہ دو طرفہ محبت میں چہرے کا اور یک طرفہ محبت میں آنکھوں کا رنگ بدل جاتا ہے“

”میں کچھ سمجھا نہیں“ میں نے اپنی حیرانی چھپاتے ہوئے کہا۔

”پر ہم تو سب سمجھتے ہیں دوست۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے“ اس نے اشارتاً بات کی تو ہم دونوں کا ایک قہقہہ بلند ہوا۔

اس رات ہم نے دیر تک بات کی۔ میں نے اس کے سامنے اعتراف کیا کہ محبت کا یہ معاملہ دل تک محدود نہیں، دماغ بھی اپنا فیصلہ اس کے حق میں دے چکا ہے۔ اور یہ کہ اس فیصلے کو آئے ڈیڑھ سال ہو چکا۔ یہ سنتے ہی میرے دوست نے اعلان کیا کہ اب محبت واجب الاظہار ہو گئی ہے۔

”پر میں اس سے کیا کہوں؟“ میں نے تذبذب کے عالم میں پوچھا۔
”اس کے دادا کا نام پوچھو“
”یہ کیا بات ہوئی، اور وہ تو ویسے بھی مجھے معلوم ہے؟“ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔

”ارے بھائی اس کو سیدھا جا کے بولو کہ یہ دل تمہاری زلفوں کا اسیر ہو چکا ہے اور دماغ تمہارے لہجے کے زیر و بم کا“ میرے دوست نے تو گویا مسئلے کا حل ہی ڈھونڈ لیا۔

ہم اٹھنے لگے تو اس نے میرا کندھا تھپتھپاے ہوئے کہا: ”پائین! محبوب اور ڈاکٹر کو حالت بتانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے ورنہ پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے“

اگلے چند روز بہت بھاری گزرے۔ واقعہ یہ ہے کہ محبت کے اظہار کو چند لمحے چاہیے ہوتے ہیں، پر اظہار کا فیصلہ کرنے میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔ میں روز یہ سوچ کر یونیورسٹی جاتا کہ،

آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں

لیکن روز ہی کچھ سوچ کر رک جاتا۔ یہ نہیں کہ مجھے انکار کا ڈر تھا۔ یک طرفہ محبت میں تو ویسے بھی نتیجہ بے معنی ہو جاتا ہے۔ بس اس کے جذبات کا احترام مانع تھا۔ روز نظریں ملتی اور میں سوچتا،
ہوتا ہے انہیں سے راز محبت و عشق فاش
آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں

لیکن یا تو وہ آنکھوں کی زبان نہیں سمجھتی تھی یا شاعر نے حواس خمسہ کی خصوصیات کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ بہرحال مجھے سمجھ لگ گئی کہ نگاہیں کوئی bluetooth تو ہیں نہیں کہ یہاں نظر سے نظر ملی اور data transfer ہو گیا۔ اس لیے خدا کی عطا کردہ نعمت زبان کا استعمال ناگزیر ہے۔ اور پھر وہ دن بھی آ پہنچا۔

میں لائبریری میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا جب وہ مجھے لائبریری میں آتی دکھائی دی۔ دل کی دھڑکن خود ہی تیز ہو گئی۔ اس نے سیاہ رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

تب ہی ہماری نظریں ملیں۔ اس لمحے میں فیصلہ نہیں کر پایا کہ سیاہ رنگ زیادہ گہرا ہے یا اس کی آنکھوں کا۔ وہ لائبریری کی دوسری طرف میری مخالف سمت میں بیٹھ گئی۔ اس نے رجسٹر کھولا اور صفحات کو پلٹنا شروع کر دیا۔ میں نے چند لمحے انتظار کیا اور پھر اپنی ہمت مجتمع کر کے اٹھا۔ میری اور اس کی ڈیسک کا فاصلہ چند قدموں کا تھا، پر مجھے لگا کہ میں میلوں کی مسافت طے کر کے اس کے پاس پہنچا ہوں۔ اس کی نگاہیں ابھی بھی رجسٹر پر ہی مرکوز تھیں۔ تین سیکنڈ مزید گزر گئے۔ تب ہی اسے میری موجودگی کا احساس ہوا اور اس نے حیران کن نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میرے دل میں آیا کہ میں کہوں،

میں بھی ناکام وفا تھا تو بھی محروم مراد
ہم یہ سمجھے تھے کہ درد مشترک راس آ گیا
تیری کھوئی مسکراہٹ قہقہوں میں ڈھل گئی
میرا گم گشتہ سکوں پھر سے مرے پاس آ گیا
پر میں اتنا ہی کہہ سکا کہ: ”میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں“

اس کی حیران کن نظروں میں مزید حیرانی پھیل گئی۔ اس نے ایک لمحے کا توقف کیا، رجسٹر بند کیا اور گویا ہوئی: ”جی بھائی کہیے؟“

دنیا اپنے مدار میں کس طرح گھومتی ہے، یہ مجھے اس لمحے سمجھ آیا۔ فیض کی غزل ختم ہو چکی تھی۔ نظم بھی سمیٹ دی گئی۔ اور ان کی جگہ کسی نے مرثیہ لگا دیا تھا۔ چھناک کی آواز کے ساتھ میرے دل میں کچھ ٹوٹ چکا تھا۔

”جی بہن، آج کے لیکچر کے نوٹس چاہیے تھے“ میں نے اپنے مردہ وجود کو کہتے ہوئے سنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).