شمالی علاقہ جات سے نئے گلگت بلتستان کا سفر


گلگت بلتستان جو پہلے شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کی بے بسی کا عالم کچھ یوں ہے کہ اس جنت نظیر وادی کو جلتی آگ میں جھونکنے کا کام اپنوں نے کیا اور خود ہی ایندھن کا کردار ادا کرتے رہے۔ جب ما ضی کے تاریک اوراق کو پڑھنے کی کوشش کی تو نا قابل فراموش حقیقت کا سامنا ہوا کہ جس خطے کو ابا و اجداد نے خون جگر دے کر ڈوگروں سے حاصل کیا تھا اسے چند دنوں بعد حکومت پاکستان کو طشت پر رکھ کر پیش کیا اس امید کے ساتھ کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور یہاں کے باسی بھی مسلمان ہیں۔ خطے میں اسلام کی حکمرانی ہو گی اور یہاں کے لوگ خوش و خرم پاکستان کی اسلامی حکومت کے ساتھ آزاد زندگی گزار سکیں گے۔ ان تمام سہولیات سے استفادہ کر سکیں گے جن سے دیگر پاکستانی شہری مستفید ہوتے ہیں۔ پاکستان نے موقع غنیمت جانا اور اس خطے کو ملک میں ضم کر کے ایک مقام دینے کے بجائے اسے مسئلہ کشمیر کے ساتھ لٹکا دیا۔ اس امید کے ساتھ کہ اگر ریفرنڈم ہو جائے تو فیصلہ پاکستان کے حق میں آئے۔ مگر افسوس ریفرنڈم کی پٹاری آج تک نہیں کھلی۔ یوں گلگت بلتستان ایک گھڑے سے نکل کر دوسرے گھڑے میں جا گرا۔

آغاز میں نومولود پاکستان کا حال بھی نومولود گلگت بلتستان کے حال سے مختلف نہ تھا۔ پاکستان کی قیادت میں آزادی کو تازہ دم رکھنے کی چاہ تھی اور مزید قربانیاں دینے کا جذبہ بھی تھا۔ مستعد قیادت تھی ادھر سے پاکستان دشمن ہمسایہ ملک ہندوستان کا خطرہ بھی ہر وقت سر پے منڈلا رہا تھا۔ مگر ان حالات سے گلگت بلتستان کی قیادت آشنا نہیں نہ وہ مزید قربایاں دینے کو تیار تھی قربانیاں تو درکنار اس مسلٔہ پر آواز اٹھانا بھی مناسب نہیں جانا اور قلیل سرکاری وسائل پر اکتفا کیا۔

وقت گزرتا گیا اور سقوط ڈھاکہ تک کسی پاکستانی سیاست دان نے گلگت بلتستان کادورہ تک نہیں کیا۔ جس طرح انگریز حکومت برصغیر میں اپنے لارڈ کے ذریعے حکومت کرتی رہی ویسے ہی حکومت پاکستان اپنے ایجنٹ کے ذریعے یہاں حکومت کرتی رہی۔ ملک پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے قیام کے بعد ان کی نظر اس دور دراز اور بنیادی حقوق سے محروم خطے پے پڑی تو انھوں نے نہ صرف اس خطے کا دورہ کیا بلکہ یہاں چند آیئنی اصطلاحات بھی کیں۔ قابل ذکر چیز یہ کہ انھوں نے اس خطے کے لیے سبسڈی کا قیام عمل میں لایا تاکہ یہاں کے لوگوں کی قربانی اور دکھوں کا ازالہ ہو سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جب جنرل ضیاء الحق کی آمریت قائم ہوئی تو فرقہ واریت نے اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جس کی وجہ سے 1988 جیسا دردناک واقعہ پیش آیا۔ ضیا الحق کے بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے دور میں گلگت بلتستان میں پہلی بار پارٹی بیسڈ الیکشن کاآغاز ہوا اور دیگر چند ترقیاتی منصوبوں کا سلسلہ بھی جاری ہوا۔

جنرل پرویز مشرف اس خطے کے لیے مفید ثابت ہوئے۔ گلگت بلتستان کی تاریخ کی پہلی یونیورسٹی قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی کا قیام ان کے دور میں ہوا۔ سنہ 2008 میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اس دور کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اس خطے کو ایک شناخت دیتے ہوئے شمالی علاقہ جات سے اس کا نام تبدیل کر گلگت بلتستان رکھ لیا اور گلگت بلتستان لیجسلیٹو اسمبلی کا قیام عمل میں لایا خطے کو صوبائی سیٹ اپ دیا، سید مہدی شاہ یہاں کے پہلے وزیر اعلی منتخب ہوئے۔ صوبائی اسبملی کے دوسرے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن منتخب ہوئے ان دو وزرائے اعلیٰ کے دور میں گلگت بلتستان میں نئی سڑکیں ہسپتال انفراسٹر کچر وغیرہ کا کام تیزی سے ہونے لگا۔

آج سات دہایئاں گزرنے کے باوجود آزاد گلگت بلتستان کا خواب ادھورا ہے جیسے ہمارے ابا و اجداد ادھورا چھوڑ کر گئے تھے۔ نا آزاد رہ سکے نا ہی پاکستان کا باضابط حصہ بن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نئی حکومت کے آنے پر وفاق سے ایک نیا آرڈر ضرور جاری ہوتا ہے مگر بنیادی حقوق دینے سے سب قاصر ہیں۔ گلگت بلتستان کے کے جوان اپنے حقوق سے آگاہ ہیں اور تعلیمی میدان میں صف اول میں ہیں۔

یہ جوان گلگت بلتستان کے لیے ایک توانا اور بلند آواز بن کر اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اب سوال یہ نہیں ہے کہ وفاق نے گلگت بلتستان کو کیا دیا۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ وفاق اب کیا دے گا۔ اب وفاق میں عمران خان کی حکومت ہے۔ موصوف کا نعرہ ہے کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے۔ یہاں مدینہ کی ریاست قائم کریں گے۔ وزیر اعظم پاکستان سے ایک معصومانہ سوال ہے کہ کیا گلگت بلتستان کو اکیسویں صدی میں بھی بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے گا؟

کیا ستر سال بعد ہمیں محض عبوری صوبہ کی لولی پوپ دے کر چپ کرایا جائے گا۔ ؟ یا ہمارا سات دہائیوں تک بے آئین رہنے کا ازالہ کیا جائے گا؟ اس طرح کے کئی سوالات گلگت بلتستان کے ہر شہری کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں اور وہ ان سوالات کے جوابات گلگت بلتستان میں بننے والی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت سے پوچھ رہے ہیں حالانکہ یہ مسئلہ ریاست پاکستان اور گلگت بلتستان کا ہے۔ نیے پاکستان کے بعد اب نیے گلگت بلتستان کے لیے تحریک انصاف کی قیادت سرگرم ہے۔

روزگار صحت تعلیم وغیرہ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن گلگت بلتستان کے لیے آئنی حیثیت کا تعین موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔ ریاست پاکستان سے گلگت بلتستان کے باسی ایک نئی نوید کی امید رکھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے سوال سوال ہی رہ جائیں۔ امید ہے کہ حکومت پاکستان و حکومت گلگت بلتستان دور اندیشی سے کام لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).