جانا میرا ماسکو کلینک میں اور ڈاکٹر کو آنکھیں دکھانا


گزشتہ چند برسوں میں ماسکو میں نہ صرف یہ کہ ستر سے زیادہ سرکاری پولی کلینکس کی مرمت کر کے انہیں ماڈرن بنایا گیا ہے۔ جدید نئے گیجٹس فراہم کیے گئے ہیں بالکل صحت کی دیکھ بھال کا نظام بھی سہل تر کیا گیا ہے۔

کچھ سالوں سے میری آنکھوں میں اور خاص طور پر بائیں آنکھ میں سفید موتیا ( Cataract ) بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں دکھایا تھا تو خاتون ڈاکٹر نے دسمبر میں آپریشن کرانے اور بہترین مصنوعی عدسہ کی مفت فراہمی یقینی بنانے کی تجویز دی تھی۔ میں 28 اکتوبر کو پاکستان سدھار گیا تھا۔

تین روز پہلے میں نے ڈاکٹر کی اپائنٹمنٹ آن لائن حاصل کرنے کو متعلقہ سائٹ کھولی اور اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہر امراض چشم عماریوو رینات علی وچ کا ایک منٹ میں انتخاب کر لیا۔ اپائنٹمنٹ 18 : 12 کی تھی۔

آج سورج 58 : 15 پہ غروب ہوا۔ پیدل راستے کا کچھ حصہ پونے چھ بجے تک بلب روشن نہ کیے جانے کی وجہ سے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا مگر متعلقہ پولی کلینک پہنچنے کی روش کے بلب روشن تھے۔

داخل ہوتے ہی ایک خاتون نے میری ہتھیلی کی پشت سے میرے بدن کا درجہ حرارت چیک کیا اور ساتھ ہی شفاف ڈسپوزیبل دستانے کی جوڑی دیتے ہوئے کہا، ”جائیے بالائی لباس جمع کرائیے اور کفش پوش پہنیے۔ میں نے اپنی جیکٹ اور دستانے جمع کروائے۔ نیلے رنگ کے ایلاسٹک والے ڈدسپوزیبل کفش پوش، جو نہ صرف یہاں ایک پلاسٹک کے خوبصورت لٹکے ہوئے ڈبے میں بھرے پڑے تھے بلکہ بیسیوں ڈاکٹروں کے دفاتر کے باہر بھی دیواروں میں لگے ایسے ہی ڈبوں میں رکھے ہوئے ہیں تاکہ کفش پوش پھٹ جانے کی یا پہننا بھول کر آنے کی صورت میں پہن لیں۔ یوں اس تین منزلہ کلینک کے فرش کی ٹائلیں دمکتی رہیں، آلودہ نہ ہو۔

مجھ سے پہلے ایک معمر خاتون تھیں۔

ہر تین جڑی ہوئی کرسیوں میں سے درمیان کی کرسی پر رنگین پلاسٹک سے کاٹا لگایا گیا تھا تاکہ اس پہ نہ بیٹھا جائے۔ پہلے سے دفتر میں موجود مریض کے نکلنے کے ساتھ ڈاکٹر نے دروازہ کھولا اور معمر خاتون سے پہلے ایک سلیو لیس پہنے لڑکی کو اندر بلا لیا کیونکہ اس کی پتلیوں کو پھیلانے کی دوا ڈالی گئی تھی۔ ڈاکٹر کا ماسک ناک سے نیچے تھا۔

تھوڑی دیر میں میرے سے دوسری نشست پر ایک اول جلول سا آدمی آ کے بیٹھ گیا جس نے ماسک ٹھوڑی پہ اٹکایا ہوا تھا، ایک بوتل سے پانی پی رہا تھا اور نکال نکال کے بسکٹ کھا رہا تھا۔ شاید ذیابیطس کا مریض ہو۔ مگر میں کورونا کے ڈر سے اٹھا اور چوتھی کرسی پہ جا بیٹھا۔ سامنے والے کمرے سے الٹراساونڈ کروا کے نکلنے والا مرد رپورٹ کے انتظار میں میرے سامنے کھڑا ہو گیا کوئی پانچ فٹ کے فاصلے پر اس کا ماسک بھی ناک تلے تھا۔ ایک اور مرد راہداری سے پوچھتا گزرا۔

اس کا ماسک بھی ناک سے نیچے تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور کہا، ”بھئی ماسک تو ناک کے اوپر کریں“ چلتے ہوئے نے دو قدم کے لیے اوپر کیا اور پھر نیچے۔ سامنے کھڑے نے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا اور ماسک کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ میں ٹیڑھا ہو کر بیٹھ گیا تاکہ اس کی سانس کی زد سے بچوں۔ شکر ہے دو منٹ بعد اسے رپورٹ مل گئی اور چلا گیا۔

مناسب طریقے سے ماسک پہنے خاتون باری آنے پر اندر چلی گئی۔ چند منٹ بعد نرس نے در کھول کے پوچھا 12 : 18 پہ کون ہے۔ میں بولا کہ میں۔ اندر آئیے ناک سے نیچے ماسک پہنے نرس بولی۔

میں نے داخل ہوتے ہی عماریوو یا عمریوو سے السلام علیکم کہا مگر ناک سے نیچے ماسک پہنے ڈاکٹر کمپیوٹر پہ مصروف رہا۔ نرس نے چارٹ پڑھا کر اور مشین سے میری بصارت چیک کر لی۔ اب ڈاکٹر کمپیوٹر پر دیکھتے بولا، مرزا آپ ایک سال پہلے آئے تھے۔ جی، اور میں نے آپ سے السلام علیکم بھی بولا۔ ڈاکٹر نے مسکرا کر شکریہ کہا۔ میں نے کہا آپ نے وعلیکم السلام نہیں کہا۔ اس نے جواب نہ دیا۔ تاتار سلام کرنا جانتے ہیں، شاید ملحد ہو یا روسی رنگ میں ڈھال گیا ہو۔ کیا جانے ماں روسی ہو اور وہ نام کا مسلمان رہ گیا ہو۔

خیر خوش اخلاق تھا۔ آنکھوں کا معائنہ کر کے پوچھا، کیا آپ کی دونوں آنکھوں کی بصارت شروع سے مختلف تھی۔ اثبات میں جواب پا کر کہا، آپ کی ایک آنکھ قریب اچھا دیکھتی ہے اور ایک دور جیسے نپولین کی آنکھیں تھیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ آپریشن بھی کرایا جا سکتا ہے اور انتظار بھی کیا جا سکتا ہے۔ میں آپریشن سے ویسے ہی ڈرتا ہوں، دوسری تجویز پہ صاد کیا تو اس نے کہا کہ کووڈ کے دور میں میرا بھی مشورہ ہے کہ انتظار کر لیں۔

میں شکریہ کہہ کے دفتر سے نکلا، نیچے جا کے کش پوش اتارے، کوپن دے کے جیکٹ لے کے پہنی اور ڈسپوزیبل دستانے ہاتھ میں پکڑے، ان سے دروازہ کھولا اور سردی سے ٹھٹھرتا گھر پہنچا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).