عبدالقادر حسن: ایک عہد کا خاتمہ



شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا

عبدالقادر حسن کا شمار پاکستانی صحافت کے اس قبیلہ سے تھا جو نظریاتی صحافت کی تقسیم میں دائیں بازو میں شمار ہوتے تھے۔ چھ دہائیوں پر محیط ان کا صحافتی کیرئیرتھا۔ رپورٹر کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کرنے والے عبدالقادر حسن نے صحافتی شعبہ میں نمایاں ترقی کی اور ان کو عملی طور پر ہماری صحافتی شعبہ میں نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ دائیں اور بائیں بازو کی صحافت میں ان کے سماجی تعلقات سب سے رہے اور اپنے مخصوص نظریات کے باوجود وہ تمام فکر کے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کے حامی تھے۔

کارکن صحافی سے ایڈیٹر تک کا سفر ان ہی کی شخصیت کا کمال تھا۔ وہ روزنامہ امروز کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ہماری صحافت میں کالم نگاری کی بنیاد بھی انہوں نے ہی رکھی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی موضوعات پر ”غیر سیاسی باتیں“ کے نام سے کئی دہائیوں تک کالم نگاری کر کے انہوں نے نہ صرف شہرت حاصل کی بلکہ اس شعبہ میں اپنا سکہ خوب جمایا۔

عبدالقادر حسن کی صحافتی دور ہماری نظریاتی صحافت سے جڑا دور تھا۔ دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی کشمکش اور سیاسی جدوجہد میں صحافتی محاذ پر بھی یہ نظریاتی تقسیم عروج پر تھی۔ یہ دور بنیادی طور پر علم و فکر، مباحثہ، مکالمہ اور اپنی سوچ اور فکر کے غلبہ کی جنگ تھی۔ اس محاذ پر عبدالقادر حسن نے دائیں بازو کے محاذ پر اپنے قلم سے خوب فکری جنگ لڑی۔ بنیادی طور پر مجلسی آدمی تھے اور صحافت و سیاست میں ان کے سماجی تعلقات بھی کمال کے تھے۔ میں نے جب اخبارات کو پڑھنا شروع کیا تو جن لوگوں کے کالم مجھ سمیت بہت سے لوگ بڑے شوق سے پڑھتے تھے ان میں عبدالقادر حسن بھی شمار ہوتے تھے۔ بات کو مدلل اور دلیل سمیت تجزئیاتی انداز میں پیش کرتے تھے۔ تجزیہ اور خبر کے درمیان جو تعلق وہ بناتے تھے وہ کمال بھی ان ہی کا تھا۔

میری ان کی سے ملاقاتوں کی وجہ میر ے مرحوم والد عبدالکریم عابد مرحوم تھے۔ دونوں میں کمال کی دوستی تھی۔ ایک دوسرے کے مشکل وقت کے ساتھی تھے۔ میرے والد اور ان کی ملاقاتوں میں بھی بیٹھا کرتا تھا اور دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں خاموشی سے بہت کچھ سننے کو ملتا تھا۔ میرے والد پینتیس برس کینسر جیسے موذی مرض کا شکار رہے۔ اس بیماری میں مجیب الرحمن شامی سمیت عبدالقادر حسن نے میرے والد کا خوب ساتھ دیا جس کا اظہار میرے والد ہمیشہ کیا کرتے تھے۔ عبدالقادر حسن نے میرے والد کے ساتھ مل کر ہفت روزہ افریشیا کا اجرا بھی کیا۔ عبدالقادر حسن کی اہلیہ رفت قادر حسن مرحومہ بھی بھی میرے والد کی بہنوں کی طرح تھی اور والد صاحب کی بیماری میں جو لوگ مسلسل ان کی عیادت کے لیے آتے تھے ان میں عبدالقادر حسن اور رفعت قادر حسن شامل تھے۔

عبدالقادر حسن ان دنوں بہت بیمار تھے۔ ہسپتال سے گھر آئے تو آتے ہی ”اچھا دوستو! خداحافظ“ کے نام سے کالم لکھا جس میں کچھ اپنے دوستوں کی وفات پر صدمہ کا اظہار کیا، لیکن کالم کے اختتام پر ایک جملہ لکھا ”ایک عہد ختم ہو گیا ہے معلوم نہیں ہم کیوں باقی ہیں“ لگتا تھا کہ ان کو اپنے جانے کا پتہ چل گیا تھا اور دو دن بعد وہ واقعی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی عمر 89 برس تھی۔ ان کی بیٹی اور ہماری بہن عاصمہ حامد اعوان جو شعبہ سیاست کی استاد ہیں ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو عبدالقادر حسن کی طبیعت کے بارے میں پوچھتا تو ان کا جوا ب ہوتا تھا وہ ٹھیک ہیں آپ بس دعا کرتے رہا کریں۔

ان کے بیٹے اطہر سے بھی کبھی کبھی ملاقات ہوتی تو والد صاحب کا احوال معلوم ہوتا تھا۔ وہ بہت وضع دار اور آزاد منش شخصیت کے مالک تھے۔ دھیمے انداز میں بات کیا کرتے تھے اور کبھی اپنی تحریروں میں ایسے الفاظ کے استعمال سے گریز کرتے جو کسی کی دل آزاری کا سبب بنتے ہوں۔ سخت سے سخت بات کرنے کا سلیقہ بھی ان کو آتا تھا اور شائشتگی کا دامن تھام کر رکھتے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین میں بھی ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ظرف اور برداشت اور اعتدال پسندی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جو ان کو اپنے دوسرے ہم عصر ساتھیوں سے منفرد رکھتا تھا۔

بنیادی طور پر ان کا تعلق پنجاب کے ضلع خوشاب اور وادی سون سکیسر سے تھا۔ ان کی ذاتی زندگی بھی بہت سادہ سی تھی۔ وہ نوائے وقت، جنگ، لیل و نہار، افریشیا اور روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ رہے۔ پچھلے چودہ برس سے روزنامہ ایکسپریس پر باقاعدگی سے اپنا کالم بڑے زور دار انداز میں لکھتے رہے۔ سیاست اور سماجیات ان کے موضوعات ہوتے تھے۔ ان کو پاکستانی سیاست اور سماج کے مختلف معاملات پر کافی عبور حاصل تھا۔ صاحب مطالعہ عبدالقادر حسن کی ساری زندگی علمی اور فکری محاذ پر گزری اور مولانا ابو اعلی مودودی کی فکر سے متاثر ہوئے اور آخر تک اس فکر سے جڑے رہے۔ پاکستانیت ان کی محبت تھی اور ہمیشہ سیاست، جمہوریت، اسلام اور اصلاحی معاشرہ ان کی تحریروں میں خو ب شامل ہوتا۔ جنرل مشرف کے دور میں عبدالقادر حسن نے اپنی تحریروں سے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کا مقدمہ بھی خوب لڑا اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر بھی خوب لکھتے تھے۔

عبدالقادر حسن کسی نرگیسیت کے قائل نہیں تھے۔ کبھی خود کو بڑا بنا کر پیش نہیں کیا اور نہ ہی کسی بڑے زعم میں مبتلا تھے۔ درویش صفت عبدالقادر حسن بنیادی طور پر ایک دیہی زندگی کا پس منظر رکھتے تھے اور سادہ انداز میں زندگی کو انہوں نے گزارا۔ سیاست، ادب اور معاشرت پر ان کی گہری نظر تھی اور بالخصوص سماجی مسائل پر بھی انہوں نے خوب لکھا۔ اگرچہ خیالات میں جذباتیت رکھتے تھے لیکن ہمیشہ اپنا موقف دلیل کے ساتھ پیش کیا اور کبھی اپنے قلم کو کسی کی دل آزاری کا حصہ نہیں بنایا۔

ان کے بقول تحریروں میں کسی کی تضحیک کرنا صحافتی آداب کی عکاسی نہیں کرتا۔ ہلکے پھلکے انداز میں اپنی گفتگو سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے اور درمیان میں ہی پھر اپنی بات کرنے کا ہنر بھی رکھتے تھے۔ وہ چودہ برسوں تک روزنامہ ایکسپرس میں باقاعدگی سے لکھتے رہے اور کوشش کرتے رہے کہ اپنے قلم سے لوگوں کی راہنمائی کرتے رہیں اور ماشا االلہ یہ کام انہوں نے زندگی کے آخری لحمات تک جاری رکھا۔ عملی طور پر وہ دنیا سے لکھتے ہوئے ہی رخصت ہوئے ہیں جو ان کی اپنے پیشہ، قلم اور صحافت سے محبت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔

عبدالقادر حسن نے جہاں روزمرہ کے سیاسی موضوعات پر لکھا وہیں وہ ایسی تحریریں بھی لکھتے رہے جو ہماری سیاسی، صحافتی تاریخ کا بھی حصہ تھا۔ بہت سے نئے بننے والے صحافی یا لکھنے کا شوق رکھنے والے اگر ان کی پرانی تحریروں سے استفادہ حاصل کرسکیں تو ان کو حقیقی معنوں میں بہت کچھ عملی صحافت کے تجربات کو سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ وہ عملی طور پر ایک محنتی انسان تھے اور کسی سفارش کی بجائے اپنی محنت اور جنون کی بنیاد پر ایک بڑا درجہ حاصل کیا جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔

پاکستان میں بہت سے ایسے صحافی بالخصوص جنہوں نے 70 اور 80 کی دہائی میں نظریاتی مباحثوں کے تناظر میں لکھا وہ بہت قیمتی تحریریں ہیں اور کاش کوئی ان کو یکجا کرسکے تو بہت سے لوگوں کے لیے یہ تحریریں عملی طور پر ایک بڑی راہنمائی کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ برحال عبدالقادر حسن وہاں چلے گئے جہاں مجھ سمیت سب نے ہی جانا ہے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے اور ان کے درجات بلند کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).