اقلیت میں اقلیت: اقلیتی خواتین


دنیا بھر میں خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف سالانہ سولہ روز مہم کا انعقاد کیا جا تا ہے جس میں خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے اور اس کے حوالے سے موثر قانون سازی پر زور دیا جاتا ہے۔ جب تشدد کی اصطلاح کا استعمال کیا جا تا ہے تو عام طور پر جسمانی تشدد جیسے مارنا پیٹنا، قتل کر دینا یا زیادتی ہی تشدد کا حصہ سمجھے جاتے ہیں، بعض اوقات ذہنی اور جذباتی تشدد کے خلاف بھی آواز اٹھتی نظر آتی ہے۔ لیکن ہم اپنے سماجی، سیاسی اور معاشی نظام میں بھی تشدد کا عنصر استعمال کر سکتے ہیں۔ تشدد کی ثقافت میں ایسے خیالات، اقدار اور اعتقادات پائے جاتے ہیں جو تشدد کو قابل قبول سمجھتے ہیں۔ یہ خیالات اور اقدار تشدد کے نظام کو نافذ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں حتی کہ بعض اوقات اسے ’اچھا‘ یا واحد آپشن سمجھتے ہیں۔ Kai Jacobsen اپنے ایک آرٹیکل میں اسے یوں سموتے ہیں، ’جب ایک مرد عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو یہ براہ راست تشدد گردانا جاتا ہے لیکن جب ایک خطے میں کئی مرد کئی عورتوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں تو یہ وہ تشدد ہے جو مرد اور عورت کے رشتے میں پنہاں ہے کہ مرد اس خیال کو جائز سمجھتا ہے کہ عورت کو مارنا اور قابو میں رکھنا بالکل درست امر ہے۔ یوں تشدد کی ثقافت فروغ پاتی ہے‘ ۔

مذہبی اقلیتوں کی خواتین اس معاملے میں دوہری چکی میں پستی نظر آتی ہیں۔ اقلیت سے تعلق رکھنے اور خاتون ہوتے ہوئے اسے دوہرے امتیازات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ مذہبی اقلیتی خواتین کو دوسری خواتین کی طرح کے مسائل ہی درپیش ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں تعصبات، امتیازات، جبری شادی و جبری تبدیلی مذہب جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سنٹر فار سوشل جسٹس اور پیپلز کمیشن فار مینارٹی رائٹس کے مرتب کردہ ڈیٹا کے مطابق 2013 سے 2020 کے درمیان جبری تبدیلی مذہب اور شادی کے 162 کیسز سامنے آئے جن میں سے بیشتر لڑکیوں کی عمر 12 سال سے بھی کم تھی۔ بدقسمتی سے 2020 میں اس حوالے سے حالات بدتر ہی نظر آئے، بالخصوص اس سال کے آخری مہینوں میں تواتر سے جبری تبدیلی مذہب ادر شادی کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک نسبتاً نمایاں کیس 14 سالہ لڑکی آرزو راجہ کا ہے جو کراچی میں اپنے ہمسائے کے ہاتھوں جبری تبدیلی مذہب اور شادی کا شکار ہوئی۔

دسمبر کے مہینے میں ہی راولپنڈی میں سونیا نامی لڑکی کو شادی سے انکار پر گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ جبری تبدیلی مذہب اور شادی کے واقعات میں اکثر لڑکیوں کی عمر شادی کی قانونی عمر سے کم ہوتی ہے لیکن ابھی تک تبدیلی مذہب کے لئے کم از کم عمر کے حوالے سے قانون صوبائی یا قومی اسمبلی سے پاس نہیں ہو سکا۔ مذہبی جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے ابھی تک کوئی بھی اسمبلی اس حوالے سے موثر قانون سازی نہیں کر سکی جس وجہ سے اقلیتی خواتین کا تحفظ ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اس ساری بحث میں ایک غورطلب نکتہ یہ ہے کہ اس طرح کے کیسز میں ہر تبدیلی مذہب کے کیس میں بڑی عمر کے مرد سے ایک کم عمر لڑکی کی شادی ہوتی ہے، جو کہ تبدیلی مذہب کے عمل کو مشکوک کر دیتی ہے۔

دوسرا شادی کرنے کے لئے تبدیلی مذہب ہونا ضروری نہیں، پھر بھی اس طرح کے ہر کیس میں شادی کے لئے لڑی کا مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے جس سے کیس کو مذہبی جماعتوں اور مذہبی جذبات کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس سارے عمل کا ایک دوسرا پہلو اقلیتی کمیونٹیز کے مابین عدم تحفظ کا احساس ہو نا ہے کہ ان کی بیٹیاں محفوظ نہیں، کیونکہ ماضی قریب میں ہونے والے کچھ واقعات جیسے کہ رینا اور ورینہ جس میں اعلیٰ عدالت تک کیس جانے کے باوجود وہ اپنے خاندان میں واپس نہیں جا سکیں۔

تصویر کا ایک دوسرا رخ مذہبی اقلیتی خواتین کے حوالے سے قومی کمیشن برائے امن و انصاف کی ترتیب دی گئی ایک مطالعاتی اشاعت، خط غربت سے نیچے میں بھی نظر آتا ہے۔ اس سٹڈی کے مطابق سروے میں شامل 66 فیصد خواتین کے مطابق انہیں اپنی پسند کے شریک حیات چننے کی آزادی نہیں، اس سے یہ بھی واضح ہو تا ہے کہ پدرانہ معاشرے میں خواتین کی فیصلہ سازی میں شمولیت یا فیصلہ سازی کا اختیار بہت کم ہے چاہے ان خواتین کا تعلق کسی بھی کمیونٹی سے ہو۔

اس تناظر میں ریاست اور معاشرے دونوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مذہبی اقلیتی خواتین کو درپیش دوہرے مسائل کی طرف نظر کرے اور ان کے تحفظ اور حقوق کی برابر کے شہری کے طور پر نگہبان ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).