گریش کرناڈ کی فلم “سوامی” میں آخر ایسا کیا تھا؟


کافی دنوں سے میرا دل چاہ رہا تھا کہ ایک بار باسو چیٹرجی کی ہدایت میں بننے والی فلم سوامی پھرسے دیکھوں۔ پہلی بار سوامی ساتویں جماعت میں دور درشن سے ٹی وی پر دیکھی تھی۔ مجھے کچھ فلمیں، گیت اور کہانیاں کچھ خاص حوالوں سے یاد رہتی ہیں، سوامی ان فلموں میں سے ایک ہے۔ لاہور کی مون سون کی بارش کی ہلکی پھوار کے ساتھ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ڈرائینگ روم میں آ رہے تھے جہاں ٹی وی رکھا تھا اور سوامی چل رہی تھی۔ فلم شرتھ چندرا چیٹرجی (دیوداس فیم) کے ناول ”سوامی“ پر بنگال کے سماجی اور خاندانی آدرش کے پس منظرپر مبنی تھی۔ فلم کی تمام روح اس ایک مکالمہ میں سموئی تھی جب کہانی کی ہیروئن سودامنی ایک مقام پر کہتی ہے ”زندگی کے جو بندھن ہیں، جو الجھنیں ہیں وہ ہمیں اچھا بنانے کے لئے ہیں، برا نہیں۔“

” پتہ نہیں میرے ماتا پتا نے میرا نام سودامنی کیوں رکھا؟ سودامنی، اندھیرے کو چیرنے والی بجلی، لیکن آج کہاں ہے میری چمک، میرا اہنکار۔ میری شادی ہوئے چھ مہینے ہو گئے لیکن ان چھ مہینوں میں نے ساٹھ سالوں کا انوبھو کر لیا۔ یہی میرا کمرہ ہے کہ جہاں میں شادی کے بعد آئی، میری سہاگ رات کا کمرہ، لیکن میں اس کمرے کو چھوڑ کے چلی گئی، اپنے اہنکار اور ہٹ سے اپنے پتی کو، اپنے سوامی کو، اپنے گھر کو چھوڑ کر چلی گئی، کیونکہ میں شادی کی رات سے ہی اپنے کو اپنے سوامی اور ان کے گھر سے جوڑ نہیں پائی۔ میرا جیون ہی کچھ ایسا ہے جہاں بھی رہی کچھ نہ کچھ اشبھ گھٹتا ہی رہا۔“ اسکرین پر ہمیں یہ وائس اوور مکالمہ پلنگ پر بیٹھی اپنی سوچ میں ڈوبی ایک جوان عورت کو دکھاتا ہے۔

سوامی کی کہانی سودامنی (شبانہ اعظمی) کے گرد گھومتی ہے، ایک ایسی لڑکی جس کی پرورش اس کی جوان بیوہ ماں (سدھا شیو پری) اپنے بھائی (اپتل دت) کے گھر پر کرتی ہے۔ ماں مذہبی عقائد اورمشرقی رسوم ورواج کی سختی سے پابند ایک ایسی عورت ہے جو ایک خاص حد سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم اور آزادی کی قائل نہیں ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ زیادہ تعلیم سے لڑکی کا دماغ خراب ہو جائے گا اور سسرال جا کر وہ خود اپنے اور دوسروں کے لئے مصیبت کا باعث بن جائے گی۔

اس کے برعکس سودامنی کا ماما ایک تعلیم یافتہ اورروشن خیال انسان ہے جو دیوی دیوتاؤں کے وجود کو نہیں مانتا۔ اس کی شہ پاتے ہوئے سودامنی بی اے پاس کر لیتی ہے۔ گاؤں کے چودھریوں کا ایک خوبرو اور تعلیم یافتہ لڑکا نرین (وکرم) کلکتہ میں نوکری کرتا ہے۔ وہ جب بھی گاؤں آتا ہے سودامنی اور اس کے ماما کے لئے ان کی فرمائشی کتابیں ساتھ لیتا آتا ہے۔ اس بیچ سودامی اور نرین کے بیچ قربت پیدا ہونے لگتی ہے جو سودامنی کی ماں کو قطعی پسند نہیں آتی۔ وہ چاہتی ہے کہ لڑکی کی شادی جلد از جلد ان رشتوں میں سے کسی ایک سے ہو جائے جو اس کی بہن کسی دوسرے گاؤں سے بھجوا رہی ہے۔ وہ اپنے بھائی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایک دفعہ ان لڑکوں کو دیکھ کر کسی ایک اچھے لڑکے کے گھر والوں سے سودامنی کی بات پکی کر آئے۔

ماما سودامنی سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ اپنی بہن کے مجبورکرنے پر بر تو دیکھ آئے گا مگر ہو گا وہی جو سودامنی چاہے گی۔ سودامنی بہت خوش ہے اور اپنے ماما کے آنے کا انتظر کر رہی ہے، وہاں واپسی پر راستے میں ماما جی کو دل کا دورہ پڑتا ہے۔ وہ خیریت سے گھر واپس آ جاتے ہیں تو اپنی بہن کے استسفار پراسے بتاتے ہیں کہ اسے ایک لڑکا جس کا نام گھنشام ہے (گریش کرناڈ) بہت پسند آیا۔ وہ بھائی سے پوچھتی ہے کہ گھنشام دیکھنے میں اور عادت کا کیسا ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ ”گھنشام کے چہرے میں کچھ ایسا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اس سے کچھ دیر اور باتیں کی جائیں، تیری طرح سے بھگوان پر بہت وشواس ہے اسے، ہماری منی بہت سکھ سے رہے گی۔

“ سودامنی دروازے کی اوٹ میں کھڑی بہن بھائی کے بیچ ہونے والی یہ گفتگو سن رہی ہے کہ ماما اسے بلانے کو کہتا ہے۔ ماں سودامنی کو اندر بھیجتی ہے تو بستر پر لیٹے بیمار ماما کے آخری الفاظ کچھ یوں ہوتے ہیں کہ وہ اس کے من کی بات جانتا ہے۔ نرین اس سے پیار تو کرتا ہے لیکن نبھا گھنشام ہی کرے گا۔ ان الفاظ کے ادا ہونے پر میری امی جو میرے ساتھ بیٹھی یہ فلم دیکھ رہی تھیں ان کہ منہ سے بے اختیار ”واہ“ نکلا اور یوں سوامی کا یہ مکالمہ میرے ذہن پہ نقش ہو کر رہ گیا تھا۔

ماما جی کے ان الفاظ میں کتنی گہرائی اور حکمت پوشیدہ تھی اس کو جاننے کے لئے ایک عمر درکار تھی، لیکن امی کے ”واہ“ میں کچھ ایسا تھا جس نے مجھے اتنا بتا دیا تھا کہ یہ ضرور کوئی خاص بات ہے۔ نرین کی محبت میں ڈوبی سودامنی کے چہرے پر گہری اداسی چھا جاتی ہے۔ وہ نرین کو کلکتہ خط لکھ کر پوری صورتحال سے آگاہ کرتی ہے کہ اگر وہ اسے لے جانے نہ آیا تو اس کا بیاہ کہیں اور کر دیا جائے گا اور یوں وہ ہمیشہ کے لئے کسی اور کی ہو جائے گی۔

نرین نہیں آتا اور چند ہی دنوں میں سودامنی کا بیاہ گھنشام سے کر دیا جاتا ہے۔ وہ بیاہ کر اپنے سسرال آتی ہے تو وہاں بنگالی رسم و رواج کے مطابق اس کا سواگت کرنے اس کی سوتیلی ساس ( ششی کلا) ، چھوٹی دیورانی ( ریتو کمل) اور نند ( پریتی گنگولی) حویلی کے دروازے پر موجود ہوتی ہیں۔ ایک تو سسرال والوں کے رویے میں سرد مہری اور دوسری طرف سودامنی کا دل اس بندھن سے جڑا نہیں ہوا، اپنی سہاگ رات کو اپنے پتی کا انتظار کیے بنا سودامنی کونے میں لگی چٹائی فرش پر بچھا کر سو جاتی ہے۔

اگلی صبح یہ بات پوری حویلی کے ہر شخص کی زبان پر ہوتی ہے کہ بڑی بہو نے پہلی رات زمین پر سو کے گزاری ہے۔ سودامنی کی دیورانی شوبھا موقع پا کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے جاتی ہے، سودامنی اس کمرے کی سج دھج اور آرائش دیکھتی ہے جو اس سادہ کمرے سے جہاں وہ بیاہ کر لائی گئی ہے باکل جدا ہے۔ وہ جس کا پتی پوری زمینداری کا بوجھ اٹھائے پورے خاندان کی کفالت کر رہا ہے اس کے اپنے کمرے میں تو بجلی سے چلنے والا پنکھا تک نہیں ہے۔

شوبھا اسے اپنے عالیشان پلنگ پر بٹھا کر اسے پتی کے قابو میں کرنے کے طریقے بتانے ہی لگتی ہے کہ سودامنی ناگواری کے عالم میں شوبھا کی توجہ اس کے بازو پر بندھے ہوئے تعویزوں کی طرف کروا کہ پوچھتی ہے کہ کیا اس نے اپنے پتی نکھل کو ان تعویذ گنڈوں کے ذریعے قابو میں کیا ہوا ہے؟ یہ بات کہہ کر وہ ناراضگی کے عالم میں شوبھا کے کمرے سے نکل جاتی ہے۔ گھنشام جب رات کو کام سے لوٹتا ہے تو اسے اس کی سوتیلی ماں دن بھر کی روداد سنا کر اس کے کمرے کی طرف روانہ کرتی ہے۔ اپنے کمرے میں آ کر وہ سودامنی کے سوجے منہ کو دیکھکر کر مسکرا کر کہتا ہے کہ گھر والوں کی باتوں کا برا نہیں ماننا چاہیے۔

گھنشام کا چھوٹا سوتیلا بھائی نکھل ایک لااوبالی طبیعت اور لاڈ پیار سے بگڑا ہوا مرد ہے۔ وہ ایک دفتر میں ملازمت تو کرتا ہے مگر اس خاندان کا سب سے بڑا لڑکا ہونے کے باعث پورے گھرانے کی کفالت کی ذمہ داری گھنشام اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے، زمینوں پر فصلوں کی کاشت، منڈی میں ان کی خرید و فروخت سے لے کر بازار سے سودا سلف کی خریداری اور ان کی حویلی کے گودام تک کی رسد کی ساری ذمہ داری اسی کے سر پر ہے۔ وہ صبح سویرے کام پر روانہ ہو کر رات گئے گھر لوٹتا ہے تو گھر کی دہلیز پ اس کو خوش آمدید کہنے کوئی نہیں ہوتا۔

وہ غسل کے لئے پانی ہو یا منہ ہاتھ سکھانے کو تولیہ مانگنا ہو، کھانا ہو یا صبح کی چائے ہو وہ حویلی کے ملازموں سے لے کر چھوٹی بہن جس کسی کو نام لے کر بلاتا ہے وہ کسی نہ کسی مصروفیت کا بہانا کر کے اس کی ضرورت کو ٹال دیتا ہے۔ دوسری طرف نکھل کے دہلیز الانگتے ہی ملازم طبقہ سے لے کر بیوی، ماں اور بہن اس کے آگے پیچھے ہو کر اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں جت جاتے ہیں۔ نئی نئی بیاہی ہوئی سودامنی اپنے سامنے ہونے والی دونوں بھائیوں کے بیچ روا رکھے جانے والی اس تفریق اور امتیاز کا بغور مشاہدہ کر رہی ہے۔

سودامنی اگرچہ اپنے میکے سے کوئی لمبا چوڑا جہیز اور ساز و سامان نہیں لائی ہے مگر اس کی تعلیم، مطالعہ اور ماما جی کے پیار نے اسے اپنے حق کے لئے بولنا سکھایا ہے، وہ بہت جلدی اس حویلی کے باسیوں کے مزاج اور طور طریقوں کو سمجھ چکی ہے۔ ابھی شادی کو دو چار روز ہی ہوئے ہیں کہ ساس کسی بہانے سے اس کے کمرے میں آ کر اسے مشورہ دیتی ہے کہ وہ اپنے گہنے زیور اس کے پاس جمع کروا دے کہ یہ نوکروں چاکروں والا گھر ہے۔ سودامنی اس مشورے کے پیچھے چھپی اپنی ساس کی نیت کو بھانپ جاتی ہے اور بڑے طریقے سے جواب دیتی ہے کہ ”ماں کل تلک تو آپ مجھ سے ساری گھرہستی سنبھلوانا چاہتی تھیں، اپنے گھر سے تو کچھ سیکھ کر نہیں آئی کم سے کم دو چار گہنے تو سنبھال سکتی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل جاتی ہے۔ اس ٹکا سا جواب سننے کے بعد ساس کے پہلو میں کھڑی دیورانی کہتی ہے کہ ”ماں بوڑھا طوطا رام رام نہیں سیکھے گا۔“ ساس کو اپنے گھر آئی اس نئی دلہن کے مزاج کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

ان دنوں جب بھی سودامنی اور گھنشام کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو دونوں پتی پتنی کے بیچ میں ایک خاموشی کا پردہ حائل ہو جاتا ہے مگر گھنشام کوئی شکایت نہیں کرتا وہ اسے کہتا ہے کہ اگر سارے دن کمرے میں بیٹھے بیٹھے جی گھبرا جائے تو وہ کچھ دیر کے لئے شوبھا اور نکھل کے کمرے میں چلی جایا کرے، نکھل بہت اچھا گاتا ہے اور اس کا دل بھی بہل جائے گا۔ وہ تو اس بات کا مطالبہ بھی نہیں کرتا کہ صبح کام پر جانے سے پہلے اٹھ کر سودامنی اس کے لئے ناشتہ ہی بنا دیا کرے یا رات گئے جب وہ کام سے واپس آئے تو باورچی خانہ میں اس کے سامنے تھالی میں کھانا لگا دے۔

ایک رات اپنی پتنی کو زمین پر چٹائی پر لیٹا دیکھ کر سودامنی سے کہتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو وہ اس کے لئے ایک الگ پلنگ بنوا دے۔ سودامنی دوسری طرف کروٹ بدلے خاموشی سے لیٹے اپنے ناخنوں سے چٹائی کریدتی رہتی ہے۔ گھنشام پوچھتا ہے کہ کیا وہ اپنے سینے پر کوئی بوجھ لئے ہوئے ہے، اگر بوجھ ہے تو وہ بتا دینے سے ہلکا ہو گا۔

ایک دن کام سے واپسی پر گھنشام اپنی بغل میں ایک لفافے میں لپٹی ساڑھی کا تحفہ سودامنی کے لئے لاتا ہے۔ سودامنی کے چہرے پر ایک ہلکی سی خوشی کی چمک نمودار ہوتی ہے جب وہ گلابی رنگ کی ساڑھی کا تحفہ پاتی ہے مگر ساتھ ہی کہتی ہے کہ گھنشام کو اس تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں تھی اس کے پاس پہلے ہی سے بہت ساڑھیاں ہیں۔ گھنشام کہتا ہے کہ جسے اپنا سب کچھ دے دیا ہو اسے کچھ اور دے کر ہی تو خوشی ہوتی ہے۔ رات کے وفت جب گھنشام رسوئی گھر میں کھانا کھا رہا ہوتا ہے تو ماں ٹوہ لیتے پوچھتی ہے ”بہو کو ساڑھی پسند آئی؟

“ گھنشام کہتا ہے ہاں ماں اس کی پسند کا ہی رنگ تھا۔ ماں کہتی ہے کہ اگلے مہینے تو درگا پوجا ہے اور وہ سب کے لئے ہی تو نئے کپڑے منگواتی ہے پھر گھنشام نے یہ نئی چلن کون سی نکالی؟ کھانا کھاتے ہوئے گھنشام پوچھتا ہے ”کیسی نئی چلن؟“ ماں کہتی ہے کہ ”بہو کو علیحدہ سے نئے کپڑے لانے کی۔ پہلے تو اس گھر میں ایسا کبھی نہیں ہوا؟“ بڑے با ادب اور پرمعنی انداز میں گھنشام کہتا ہے پہلے اس گھر میں سودامنی تھی ہی کہاں۔ پہلو میں کھڑی سودامنی کے دل پر گھنشام کے اس جواب کا گہرا اثر ہوتا ہے۔

گھنشام جس کے اپنے کمرے میں ابھی تک بجلی سے چلنے والا پنکھا نہیں تھا اور وہ سودامنی کو ہاتھ سے جھلتا پنکھا چلاتا دیکھتا ہے تو ایک دن ملازم کے ہاتھ سودامنی کے لئے بجلی سے چلنے والا ٹیبل فین بھجواتا ہے۔ گھنشام کی سوتیلی بہن چارو جو ماں اور نکھل کے لاڈ پیار کی وجہ سے سر پر چڑھی ہوئی ہے اس کی ماں کو اس کی شادی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ اپنے بے تحاشا وزن کے کارن جو بھی اسے دیکھنے آتا ہے وہ پلٹ جاتا ہے۔ ایک دن سودامنی کی ساس اس سے پوچھتی ہے کہ کیا اس کے گاؤں میں چارو کے لئے کوئی مناسب رشتہ نہیں ہے، وہ کہتی ہے کہ اس کی نظر میں تو کوئی ایسا نہیں ہے جسے وہ چارو کے لئے بتا سکے۔

پھر ایک دن اپنے دفتر سے واپس آ کر نکھل گھر والوں کو بتاتا ہے کہ کلکتے سے کالج کے دنوں کا اس کا ایک عزیز ترین دوست اس سے ملنے اور کچھ دنوں کے لئے ان کی طرف قیام کرنے آ رہا ہے، لہذا اس کی مہمان نوازی میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی جائے۔ یہ مہمان کون ہے اور اس کے آنے سے کیا بھونچال آنے والا ہے اسے دیکھنے کے لئے آپ یوٹیوب پر موجود اس فلم کو ملاحظہ فرمائیے گا۔

گو کہ اس فلم کی ہیروئن شبانہ اعظمی تھیں اور اپنے ایک انٹرویو میں شبانہ نے ”سوامی“ کو اپنی ہی کی ہوئی پسندیدہ فلموں میں سے ایک قراردیا تھا مگر ہم سب گھر والوں کو یہ فلم تین حوالوں سے پسندیدہ رہی۔ اول یہ فلم مکمل طور پر گریش کرناڈ کی فلم تھی، لفظ سوامی کہیں بھی پڑھا یا سنا جائے تو ذہن میں گریش کرناڈ کی شکل ابھرتی ہے، دوئم اسی فلم کے ذریعے ہم پہلی بار اپتل دت سے متعارف ہوئے، جن کو اگرہم کسی دوسری فلم میں دیکھتے اور ان کا نام ذہن سے نکل جاتا تو ہم فوراً کہتے کہ یہ سوامی والے ماما جی ہیں۔ سوم اس فلم کا یسوداس کی آواز میں گائی ہوئی بہت ہی خوبصورت ٹھمری، آئے نہ بالم کا کروں سجنی۔

اگرکبھی موقع ملے اور آپ لوگ ایک اعلی پائے کی بلند مشرقی گھریلواقدار کی کوئی فلم دیکھنا چاہیں جو کہ اب موجودہ ہندوستانی سینما سے تقریباً ناپید ہو چکی ہیں تو ایک بار انٹر نیٹ پہ جا کر سوامی ضرور دیکھئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).