وزیراعظم صاحب میڈیا تابعدار ہی ہے


ماضی میں عمران خان صاحب میڈیا کی آزادی کے بڑے حامی تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ میڈیا سے بہت نالاں ہیں۔ حالانکہ عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی تک پہنچانے کا غیبی ہاتھوں کے سوا کوئی اور ذمہ دار ہے تو وہ صرف میڈیا ہے اس کے باوجود وہ میڈیا سے خوش نہیں۔ اپنے ایک تازہ فرمائشی انٹرویو میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کی حکومت میڈیا کے نشانے پر رہتی ہے اور میڈیا ان کی کارکردگی درست بیان نہیں کرتا۔ کاش وزیراعظم صاحب یہ شکوہ کرتے وقت مہربانی فرما کر یہ بھی بتا دیتے کہ وہ کیا کارکردگی ہے جو بیان نہیں ہو رہی تو میڈیا کے لیے سہولت ہو جاتی۔

کرپشن کے خاتمے، میرٹ کے نفاذ اور انصاف کی فراہمی کے نام پر اقتدار میں آنی والی تحریک انصاف کا محض دو سال کے دوران کس الزام سے دامن داغدار نہیں جس پر وہ مخالفین کو مطعون کیا کرتی تھی۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب کرپشن کا نیا اسکینڈل اور رولز کی سنگین خلاف ورزی کی نئی داستاں سننے کو نہ ملے لیکن پھر بھی میڈیا پر اس طرح بات نہیں ہوتی جیسے ماضی کے حکمرانوں کے خلاف ہوا کرتی تھی۔ اب ڈھائی سال بعد میڈیا میں چند آوازیں اٹھنا شروع ہوئی ہیں تو پی ٹی وی کو بی بی سی بنانے کے دعویدار وزیراعظم صاحب دلبرداشتہ ہو گئے ہیں۔

وزیراعظم صاحب میڈیا کی خدمات کیوں فراموش کر رہے ہیں کہ تبدیلی کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے میڈیا نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے؟ کون سی تابعداری اور جی حضوری کی مثال تھی جو ملکی میڈیا نے قائم نہیں کی؟ ایک خاص وقت میں بعض عدالتی فیصلے اور نیب کے اقدامات ایسے ہوئے جنہیں واشنگٹن پوسٹ، نیو یارک ٹائمز، بی بی سی اور اکانومسٹ جیسے عالمی شہرت یافتہ ادارے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیتے رہے۔ لیکن ہمارے صحافتی میر کارواں اس وقت تبدیلی کے سفر میں حصہ دار بننے کے لیے عوام کو ابلتے گٹر، ادھڑی سڑکیں دکھا کر بتاتے رہے، یہ ہے تیس سال سے باریاں لینے والوں کو ووٹ دینے کا نتیجہ۔ صرف یہی نہیں الیکشن کے روز قوم کے ساتھ جو خوفناک واردات ہوئی، میڈیا نے تبدیلی کا سفر منزل مراد تک بخیر و عافیت پہنچانے لیے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔

تبدیلی کے نام پر سبز باغ دکھانے میں کیا میڈیا برابر کا شریک نہیں رہا؟ کیا 24 / 7 یہ جھوٹے وعدے میڈیا سے نشر نہیں ہوتے رہے کہ، ایک کروڑ نوکریاں دیں گے، پچاس لاکھ گھر تعمیر ہوں گے۔ کوئی بے گھر نہیں رہے گا۔ غریب کو دوا مفت فراہم کی جائے گی۔ تعلیم کا معیار یکساں ہو گا امیر و غریب ہر بچے کو برابر مواقع دستیاب ہوں گے۔ ریاست ماں جیسی ہوگی، انصاف سب کو دہلیز پر میسر ہوگا۔ جس کا کوئی پرسان حال نہیں، ریاست اس کا مقدمہ خود لڑے گی۔

پہلے والوں نے قوم کو بھکاری بنا دیا ہم کشکول اٹھائیں گے نہ قومی وقار گروی رکھیں گے۔ یہی ملک ہوگا یہی معیشت، قرض کے بغیر چلے گا بلکہ ترقی کی شاہراہ پر دوڑے گا۔ کرپشن معیشت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی وجہ ہے اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ حکومت رہے نہ رہے، لوٹی دو سو ارب ڈالر دولت ضرور واگزار ہو گی۔ پولیس سیاسی مداخلت سے پاک کر دی جائے گی۔ بیوروکریسی کو فری ہینڈ ہوگا، قائد اعظم کے فرمان کے مطابق وہ حکومت کے بجائے ریاست کی وفادار ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

وعدہ تھا یہ سب کام حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں مکمل ہو جائیں گے لہذا سو دن حکومت کو اطمینان سے کام کرنے دیا جائے۔ کیا یہ مدت حکومت کو نہیں ملی؟ تاریخ شاہد ہے ملک عزیز کی یہ واحد حکومت تھی جس کو اتنی فرینڈلی اپوزیشن ملی، تمام ادارے اس کی پشت پر تھے۔ اور تو اور میڈیا بھی تابع فرمان تھا، الا چند ایک کے کہیں سے مخالفانہ آواز سنائی نہیں دی۔

کوئی ایک کام وزیراعظم صاحب بتا دیں جو پھر بھی مکمل ہوا ہو؟ چلیں یہ عذر مان بھی لیں کہ ملکی معیشت کی حالت جانے والے اتنی بری طرح مسخ کر گئے کہ وعدے وفا نہ ہو سکے پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے جن کاموں پر پیسہ نہیں لگتا یا جو وعدے مفت میں پورے ہو سکتے تھے وہ کیوں نہیں ہو سکے؟ کیا میرٹ اور قانون کا درس دینے والوں کی کابینہ پچاس سے زائد ارکان پر مشتمل نہیں، جن کی بڑی تعداد غیر منتخب معاونین و مشیران پر مشتمل ہے اور ان میں سے بھی کئی دہری شہریت کے حامل ہیں۔

حالانکہ ڈیڑھ سال قبل سپریم کورٹ اہم سرکاری مناصب پر دہری شہریت کے حامل افراد کی تقرری کو سکیورٹی رسک قرار دے چکی ہے۔ اب اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے بھی غیر منتخب مشیر کے بارے ایک فیصلہ آیا ہے۔ اس کے بعد کیا وزیراعظم صاحب کی قانون پسندی پر سوال اٹھانا جرم ہے؟ کرپشن اور مفادات کے ٹکراؤ پر بھی بہت باتیں ہوتی تھیں۔ چند ماہ قبل چینی اسکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ جاری ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق وفاقی شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی ایکسپورٹ کرنے کی سفارش کی اور عبدالرزاق داؤد اس بورڈ کے چیئرمین تھے۔

بعد ازاں ان سفارشات کی روشنی میں ای سی سی نے گیارہ لاکھ ٹن برآمد کی منظوری دی اور صوبوں کو اختیار دیا کہ وہ شوگر ملوں کو تین ارب روپے تک کی سبسڈی دے سکتے ہیں۔ خود وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ نے ان فیصلوں کی توثیق کی۔ اس کے بعد سبسڈی وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور ان کی صوبائی کابینہ کی منظوری سے مل مالکان تک پہنچی۔ اس پر کتنا شور مچا مگر نتیجہ کیا نکلا؟ اسکینڈل کا سب سے بڑا ذمہ دار یعنی وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اپنی سیٹ پر بدستور براجمان ہے اور آئے روز وزیراعظم صاحب بنفس نفیس اسے ریسکیو کرنے لاہور بیٹھے ہوتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ایک اور اسکینڈل بھی سامنے آیا ہے جس کے مطابق حکومتی مشیروں نے اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کی خاطر جان بوجھ کر ایل این جی امپورٹ میں تاخیر کی، جس کے باعث قومی خزانے کو مجموعی طور پر ایک سو بائیس ارب روپے کا نقصان پہنچا، کیا وزیراعظم کے مشیروں کی اس کرپشن کو بے نقاب کرنا جرم ہے؟ شاید یہی حکومت کے کارنامے ہیں اور وزیراعظم کی بات درست ہے کہ چند صحافیوں کے سوا کوئی انہیں اجاگر نہیں کر رہا۔

اس حکومت کے کارناموں سے یاد آیا نیا پاکستان وجود میں آنے کے بعد چھ بار ادویات کی قیمت بڑھانے کا کارنامہ انجام دیا گیا ہے اور اس عرصہ میں ادویات کے نرخ دو سو فیصد بڑھ چکے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے گندم کی کٹائی کے فوراً بعد سے ہی گندم کا بحران پیدا ہونا بھی اس حکومت کا کارنامہ ہے۔ ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ بجلی کے نرخ کئی گنا بڑھانے کے باوجود گردشی قرض ڈھائی ہزار ارب یعنی کل محصولات کے نصف تک پہنچ چکا اور پیشگوئی ہے کہ آئندہ دو برس میں یہ چار ہزار ارب تک جا پہنچے گا۔

پشاور کے ہسپتال میں آکسیجن کی قلت سے مریضوں کو موت کے منہ میں پہنچانے سے بڑا بھی کوئی کارنامہ ہو سکتا ہے؟ اس کالم کی اتنی گنجائش نہیں کہ حکومت کے مزید ایسے اقدامات اور تاریخ ساز کارناموں کا ذکر کیا جا سکے جن کی بدولت عوام چوروں لٹیروں کے دور سے بھی زیادہ بدحال زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ لعن طعن چھوڑ دیں اور میڈیا کی طرف سے بے فکر ہو کر اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ میڈیا وزیراعظم صاحب کا بالکل تابعدار ہے اور اس کی تابعداری کا ان کے حالیہ انٹرویو سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).