انسانی حقوق کا عالمی دن اور اقوام عالم کا دوہرا معیار


انسانی حقوق کا عالمی دن ہر سال 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے، 1948 سے اقوام متحدہ باقاعدگی سے خصوصی دن کا انعقاد کرتی ہے، جس کا مقصد نسل، رنگ، مذہب، جنس، زبان، سیاسی یا دوسری رائے، قومی، معاشرتی، جائیداد میں برابری، پیدائش پر حقوق، یا تمام حیثیت سے قطع نظر ہر ایک انسان کے حقوق کی پاسداری تمام ممالک پر یکساں عاید کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے امسال کوویڈ 19 کے حوالے سے نمایاں کرتے ہوئے، انسانی حقوق کو مرکزیت دینے کا اظہار اور عالمی وبا میں انسانی حقوق کے پامالی، استحصال اور امتیازی سلوک سے نمٹنے پر زور دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کا ایک واضح پیغام دنیا بھر میں پھیلایا جاتا ہے، کہ انسانی حقوق کے لئے کھڑے ہو جاؤ ’۔ لہذا ایک انصاف پسند معاشرے کے قیام کے لئے عالمی مسائل میں جہاں کوویڈ کی وجہ سے امتیازی سلوک کو نمایاں کرنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے تو انسانی حقوق کی پامالی میں مقبوضہ کشمیر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت اس وقت دنیا میں کرونا وبا کی وجہ سے دوسرے نمبر پر ہے، جہاں مریضوں کی تعداد ساڑھے نو کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے، بھارت میں ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد افراد اس بیماری سے موت کا شکار ہوچکے ہیں، اس وقت فعال کیسوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے، جس میں 26 ہزار مریض تشویش ناک حالت میں ہیں۔ 13 سو کروڑ والی آبادی کے اس ملک میں کرونا کا پھیلاؤ، ہندو توا کے سبب پھیلا۔ دنیا جس وقت کرونا کے خلاف حکمت عملی مصروف تھی، انتہا پسند ہندو، مذہبی اقلیتوں (دلت ہندو) اور بالخصوص مسلمانوں کو کرونا کی وجہ قرار دے کر تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔

انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے پر تشدد واقعات میں مسلمانوں اور مساجد کے اجتماعات سمیت تبلیغی جماعت کو خصوصی طور پر پرتشدد نشانہ بنایا گیا، نیز ان کے خلاف منظم سماجی مہم بھی چلائی گئی۔ مسلم آبادیوں پر انتہا پسندوں کے حملوں کی وجہ سے فرقہ وارانہ نفرت میں اضافہ ہوا، جو کئی پر تشدد واقعات کا سبب بنا۔ انسانی حقوق کی یکساں فراہمی ہر ملک پر فرض ہے، لیکن آر ایس ایس کے منشور کے مطابق جانبدارانہ وتیرہ اختیار کر کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔

عالمی ذرائع ابلاغ میں کرونا کی آڑ میں بھارتی شہری مسلمانوں کے خلاف منظم انداز میں پر تشدد کارروائیوں پر اسلامی تعاون تنظیم نے بھی اپنی رسمی تشویش کا بیان جاری کیا تھا، او آئی سی نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ او آئی سی کے جنرل سیکرٹریٹ نے سیاسی حلقے، مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جہاں مسلمانوں کو کرونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے، مسلم مخالف رجحان کی رپورٹس پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ اسلامی تعاون تنظیم نے بھارت میں مسلمانوں پر حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے عالمی سطح پر مزید کوششوں اور تعاون کی ضرورت ہے۔

مودی سرکار نے عالمی وبا سے بچاؤ کے بجائے اسے ’کرونا جہاد‘ قرار دیتے ہوئے، پھیلاؤ کے ذمے دار مسلمانوں پر عاید کردی تھی، یہاں تک کہ بھارتی میڈیا نے انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جانبدارانہ رپورٹنگ کر کے مسلمانوں و دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف باقاعدہ محاذ بنایا اور تواتر سے ایسے پروگرام نشر کیے جاتے رہے، جس سے مسلمانوں کے خلاف پر تشدد ماحول میں اضافہ ہوا۔ میڈیا کے بڑے پیمانے پر منفی پروپیگنڈے کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ابھارا اور اس کے اثرات کو عوام سطح پر پھیلایا۔

مسلمانوں کے شناختی کارڈ چیک کیے جاتے اور انہیں ہندو علاقوں سے نکال دیا جاتا، ریاست ہما چل پردیش اور پنجاب کے بعض علاقوں میں مسلم ڈیری فارم کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا، یہاں تک کہ جہاں دودھ خریدنا بند کیا گیا تو مسلم خاندانوں کو نقل مکانی پر بھی مجبور کیا گیا۔ میرٹھ میں ایک معروف ہسپتال نے باقاعدہ کثیر الاشاعت اخبار میں اشتہار شایع کرایا کہ وہی مسلمان ہسپتال آئے، جس کے پاس کرونا کا منفی ٹیسٹ کا ثبوت ہو۔

جے پور میں حاملہ خواتین کو بروقت امداد فراہم نہ کرنے پر اسٹریچر پر بچے کی پیدائش کے بعد فوراً انتقال ایک انتہائی افسوس ناک صورتحال کی بدترین عکاس کرتا نظر آیا۔ اتر پردیش اور دوسری ریاستوں میں بھی کرونا کی آڑ میں مسلمان مزدوروں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا، لاک ڈاؤن میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی سختی برتنے کے سرکاری سطح پر ان گنت واقعات نے مودی سرکار کا دوہرا چہرہ بے نقاب کیا، یہاں تک کہ سرکاری ہسپتالوں میں مسلمانوں و ہندوؤں کے لئے الگ الگ وارڈ بنائے جانے پر امریکا کے مذہبی آزادی کمیشن کی جانب سے بھی مذمت جاری کی گئی۔

سینٹر فار ایکوٹی سٹڈیز (سی ای ایس) کی ایک تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق مسلمان مزدوروں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ان کو دوبارہ کام پر لوٹنے میں ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے خلاف ملک میں اس طرح کا ماحول تیار کر دیا گیا ہے کہ اب انھیں ڈر رہتا ہے کہ کام پر لوٹنے میں دشواری ہو گی۔ انڈیا کی نو ریاستوں کے مزدوروں کے ساتھ کی گئی، اس سٹڈی رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ 43 فیصد مزدوروں کا کہنا ہے کہ وہ یہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد انھیں ان کی نوکری واپس مل جائے گی۔ مسلمانوں کے علاوہ دلت اور دیگر پسماندہ طبقات کے مزدوروں نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا۔

انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی مسلم مخالف کارروائیاں، اقوام متحدہ کے منشور و اعلامیہ پر سوالیہ نشان ہیں کہ 72 برس گزر جانے کے باوجود کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو کیوں ممکن نہیں بنایا جا سکا۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا اندازہ اس رپورٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1989 سے 30 نومبر 2020 تک ایک لاکھ کشمیریوں کو جارح قابض بھارتی فوج شہید کرچکی ہے، 7156 کشمیریوں کو ماورائے عدالت بھارتی فورسز نے شہید جبکہ ایک لاکھ 61 ہزار 163 کشمیریوں کو بلا جواز گرفتار کیا، 22 ہزار 924 خواتین کو زخمی، ایک لاکھ سات ہزار سے زائد بچوں کے سر سے والد کا سایہ چھینا تو 11 ہزار 231 کشمیری خواتین کا سرکاری سرپرستی میں گینگ ریپ کیا گیا۔

صرف ماہ نومبر 2020 میں 15 کشمیریوں کو بھارتی فورسز نے قتل کیا، جس میں ماورائے عدالت پانچ کشمیری بھی شہید کیے گئے، بے گناہ 31 کشمیریوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار، جب کہ دو خواتین کو زخمی، چھ بچوں کو یتیم اور سات خواتین کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ کرونا وبا سے 1 لاکھ 22 ہزار 128 کشمیری متاثر ہوچکے ہیں، وادی کشمیر میں 67 ہزار 251، جموں ڈویژن میں 46 ہزار 37، لداخ میں 8 ہزار 840 افراد کرونا سے متاثر، جب کہ کرونا کی وجہ سے 1866 افراد موت کا نشانہ بنے۔

مودی سرکار کی جانب سے ریاستی جبر میں انتہائی اضافہ 05 اگست 2019 کے اقدامات کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔ متعصبانہ ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے جہاں مقبوضہ کشمیر میں افرادی قوت کا توازن بگاڑنے کے لئے غیر قانونی طور پر لاکھوں ڈومی سائل اور کشمیر کی تاریخی حیثیت ختم کرنے کے لئے غیر کشمیریوں و ہندو انتہا پسند پنڈتوں کو جائیداد و کاروبار کی خریداری کا اختیار دیا گیا تو کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم نے تمام انسانی حقوق کو پامال کر دیا۔

اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات میں سرکاری اہلکار و بھارتی جارح فورسز کے ملوث ہونے کے باوجود عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں کیے، مسلم اکثریتی ممالک بھی بھارت میں مسلم کش واقعات، بالخصوص کرونا وبا کی آڑ میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر چند فروعی مفادات کی وجہ سے اہم کردار ادا کرنے میں تامل برتتے رہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمگیر منشور کی شق 18 کے تحت ہر ایک کو ’سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہے‘ ۔

لیکن مودی سرکار کا سیکولر چہرہ اس وقت مذہبی منافرت و اقلیتوں کے ساتھ انتہائی شرمناک سلوک کی وجہ سے نازی ازم سے زیادہ بھیانک بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ متفقہ طور پر ایک ایسا بیانیہ جاری کرتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرانے میں سلامتی کونسل کا کردار جانبدارانہ ہی رہا ہے۔ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جا چکا ہے۔ ماضی میں ایسی سفاکیت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کشمیر میں مظالم کے حوالے سے تمام معلومات انٹرنیٹ پر موجود ہے لہٰذا مسئلہ کشمیر پر دنیا کی بے خبری منافقانہ پالیسی ہے۔

دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ یہ خطہ خوفناک ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے جس کا نقصان سب کو ہوگا۔ دین اسلام انسانی حقوق کی بلا امتیاز فراہمی کا واحد علمبردار ہے۔ آپﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کا چارٹر ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، فوقیت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ آج مہذب ہونے کی دعویدار دنیا طبقات میں تقسیم ہو کر لوگوں کے حقوق کا تعین کر رہی ہے۔ اگر بلا امتیاز رنگ، نسل، مذہب انسانی حقوق کا خیال کیا جاتا تو مسئلہ فلسطین و کشمیر سمیت دنیا بھر دیرینہ مسائل بہت پہلے حل ہو چکا ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).