یہ میرا دامنِ صد چاک اور بہار کا سوگ


سپین کے جنوب میں اندلس کا تاریخی خطہ واقع ہے۔ یہاں کا صدر مقام قرطبہ جزیرہ نما آئبیریا (Iberian Peninsula) سے نکلنے والے دریا Guadalquivir کے دونوں کناروں پر آباد ہے۔ 712ء سے 1492ء تک قریب آٹھ سو برس پر محیط مسلم دور حکومت میں یہ دریا وادی الکبیر کہلاتا تھا۔ سقوط غرناطہ سے کوئی پانچ سو برس بعد 1933ء میں لاہور کے صاحب جذب و فکر محمد اقبال سپین گئے تو اس تاریخی تلمیح کو ایک لافانی شعر عطا کیا۔ “آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی / دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب”۔ اردو ادب میں اقبال ایک شاعر نہیں، حرف، فکر اور معنی کا ایک بے کنار مظہر ہے۔ ابتدائی شاعری میں ’صبح کا ستارہ‘ کے عنوان سے ایک نظم ملتی ہے۔ ایک مصرع دیکھیے، ’صبح کا دامنِ صد چاک کفن ہے میرا‘۔ اور پھر کہا، ’عشق کا سوز زمانے کو دِکھاتا جاؤں‘۔ شاعر نے سوز دکھانا چاہا تھا، ہم نے سوزش غم ہائے نہانی کا انتخاب کیا۔ اس لئے کہ سوزن تدبیر سے کام نہیں لیا۔ تاریخ کے تان پلٹے کسی طے شدہ بندش کے پابند نہیں ہوتے لیکن دیکھنے والی آنکھ اشارے سمجھتی ہے۔ یہی دیکھیے کہ 1492ء میں سپین غرناطہ پر قبضہ کر رہا تھا تو عین اسی برس کولمبس کا بحری بیڑا امریکا کے ساحلوں پر اتر رہا تھا۔

زبان و بیان کی کہہ مکرنیوں میں ذوالفقار بخاری کی مہربانی کے طفیل ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے لشکر اجنبی زمینوں کو تاراج کریں تو اسے فتح لکھا اور بولا جائے اور اگر کہیں ہزیمت یا مراجعت کا مرحلہ درپیش ہو تو اسے سقوط کی اصطلاح دی جائے۔ صدیوں پر پھیلی طوائف الملوکی اپنے انجام کو پہنچے تو سارا الزام اندلس کے آخری حکمران ابو عبداللہ کے ناتواں کندھوں پر رکھ دیا جائے۔ 23 برس تک اسکندر مرزا، گورنر منعم خان، فیلد مارشل ایوب خان، چیف سیکرٹری عزیز احمد، میجر جنرل راؤ فرمان اور ایس پی مسعود محمود کی چیرہ دستیوں پر مقبوضہ اخبارات کے صفحات پر قادرالکلامی کی داد دی جائے اور جب رمنا ریس کورس میدان کا مرحلہ آئے تو میانوالی کے امیر عبداللہ نیازی کی گردن ناپی جائے۔ 1707ء میں اورنگ زیب کے بعد انتزاع سلطنت کی تمام تفصیل سے آنکھیں بند کر کے 1857ء کی شکست بیاسی سالہ سراج الدین بہادر شاہ ظفر کی فرد جرم میں لکھ دی جائے۔

اقبال نے جس زمانے کا خواب دیکھا تھا، وہ تو رفعت خیال، اوج کمال، دفتر عمل اور جادہ فراست کی منزلیں تھیں۔ 1938ء میں اقبال نے پردہ فرمایا تو پنجاب ہی میں مجید امجد جنم لے چکے تھے، اقبال کے خواب کا مآل بیان کرنا مجید امجد کے حصے میں آیا۔ ’یہ میرا دامن صد چاک، یہ ردائے بہار‘ اور مقطع میں حزن مسلسل کا ایزاد بھی رقم کیا، ’کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد‘۔ ارے بھائی گلاب کے جاوداں پھول قبروں پر نہیں کھلتے۔ یہ غنچے تو دلوں کی کیاری میں بہار دیتے ہیں۔

کل دس دسمبر تھا، 72 برس قبل اسی دن اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا اعلامیہ منظور کیا تو پاکستان کی باوقار مملکت ان 63 ممالک میں شامل تھی جو اس وقت تک آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہو چکے تھے۔ مساوات، آزادی، حقوق اور احترام انسانیت کی اس اہم ترین دستاویز کا ہر برس جشن منایا جاتا ہے، اقوام عالم غور کرتی ہیں کہ کس تدبیر سے ایسی دنیا کی منزل قریب لائی جائے جہاں ہر انسان کو تحفظ، مساوات، آسودگی اور آزادی نصیب ہو سکے۔

رواں برس ہم نے یہ دن ٹویٹر پر مغلظات کا طومار باندھنے میں صرف کیا۔ کسی نے رائےونڈ پر دریدہ دہنی کی داد دی۔ کوئی پاکپتن پر بدزبانی کے جوہر دکھاتا رہا۔ کسی نے نامعلوم کس خیال سے مہمیز پا کر راولپنڈی پر خاک ڈالی۔ اس سے غرض نہیں کہ اس طوفان بدتمیزی کا آغاز کس نے کیا، ایسا کرنے والوں کی سیاسی وابستگی کیا تھی، اور ایسا کس کے اشارے پر کیا گیا۔ دکھ یہ ہے کہ گالی کو دلیل اور مغلظات کو سیاسی مکالمہ کا متبادل سمجھا گیا۔ بےہودگی کے ہر اڈے پر ایک دو نہیں، ہزاروں افراد نے فحش گفتاری میں مکروہ حصہ ڈالا۔

درویش ایسا سادہ دل نہیں کہ اس ملک میں عورت کو آڑ بنا کر فحش گفتاری کی روایت سے واقف نہ ہو۔ ہم نے رعنا لیاقت علی کے غرارے پر خطابت کے جوہر دکھائے، مادر ملت کی شان میں گستاخی کی، بیگم نصرت بھٹو کی جعلی تصاویر پھیلائیں، بے نظیر پر گھٹیا آوازے کسے، عوامی جلسوں میں ذومعنی رکاکت کو رواج دیا۔ بیگم کلثوم کی بیماری پر سیاست کی۔ مریم نواز کی کردار کشی کی، اب بشریٰ بی بی کی توہین پر کمر باندھی ہے۔ نام نہاد غیرت بریگیڈ کی یہ نسل در نسل جہالت ہماری جمہوریت دشمن روایت کا حصہ ہے۔ صرف یاد دلانا ہے کہ جب اس ملک میں کسی چوہدری، وڈیرے اور سردار میں ایوب آمریت کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں تھی تو مادر ملت نے یہ جھنڈا اٹھایا تھا۔ حیدر آباد ٹریبونل بنا تو بیگم نسیم ولی نے جمہوری حقوق کے لئے سیاہ چادر اوڑھی تھی۔ قذافی سٹیڈیم کے دروازے پر نصرت بھٹو نے لاٹھیاں کھائی تھیں۔ سکھر جیل کی صعوبت بے نظیر بھٹو نے بھگتی تھی۔ لاہور کی سڑکوں پر کرین سے لٹکی گاڑی میں کلثوم نواز بیٹھی تھیں۔ یہ عاصمہ جہانگیر اور ملالہ یوسف زئی کا ملک ہے۔ آج بھی مریم نواز اور آصفہ بھٹو میدان میں ہیں۔

تفصیل کا موقع نہیں ورنہ لاہور کے شاہی قلعہ میں شاہدہ جبیں، ساجدہ میر اور فرخندہ بخاری کی ایذا رسانی سے لے کر شہلا رضا اور فوزیہ وہاب پر وحشیانہ تشدد تک پاکستان کی بہادر عورتوں کی فہرست طویل ہے۔ صرف یہ جان لیجئے کہ صنفی مساوات سے متعلقہ عالمی ادارے نے کل ہی اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے۔ کل 153 ممالک کی فہرست میں پاکستان کو 151 واں درجہ ملا ہے۔ صرف عراق اور یمن ہم سے پیچھے ہیں۔ ظالمو! روانڈا پہلے دس ممالک میں پہنچ گیا۔ سمجھ لیجئے کہ جو ملک اپنی نصف آبادی کو مساوات اور احترام دینے کا یارا نہیں رکھتا، اسے ٹویٹ کے غلیظ ٹرینڈ چلانے سے فرصت ملے تو اقبال کے دریائے کبیر کی روانی کو دھیان میں لائے۔ ابھی تو چلو بھر گدلے پانی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).