سیاسی کشمکش اور اخلاقی گراوٹ



اس وقت ایک طرف سیاست کے میدان میں تاریخ کی شدید ترین محاذ آرائی پھیل رہی ہے اور دوسری طرف کرونا وائرس نے لوگوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ اس موذی وبا کی وجہ سے اپوزیشن اتحاد کے قائدین پر اجتجاجی تحریک کو ملتوی کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ لیکن پی ڈی ایم راہنما تحریک کو آگے بڑھانے پر مصر ہیں۔ مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز آج کل لاہور کے مختلف علاقوں کے طوفانی دورے کررہی ہیں۔

مریم نواز کی اس طوفانی مہم اور اپوزیشن کے متوقع لانگ مارچ کی وجہ سے حکومتی ایوان میں پریشانی کی لہر دوڑ چکی ہے۔ وزیراعظم اور وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے والے شیخ رشید نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دے دی ہے۔ اس سے پہلے عمران خان اپوزیشن راہنماؤں سے بات چیت کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ ایک خاتون اینکر نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکمران جماعت نے اپنے رویے میں کسی حد تک لچک پیدا کی ہے۔ لیکن بلاول بھٹو اور مریم نواز نے حکومت کے ساتھ بات چیت کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ جہاں تک مریم نواز کی جارحانہ سیاسی مہم کا تعلق ہے اس سے خائف ہو کر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کے ذریعے ان کی کردار کشی کرنے کی مذموم کوشش کی جاری رہی ہے۔

اگر دونوں فریقوں کی آپس کی چپقلش کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ اس وقت پاکستان کی سیاسی تاریخ کی بدترین سطح کو چھو رہی ہے۔ اس بات پر قطعی طور پر دو رائے نہیں ہو سکتی کہ تنقید اور اصلاح جمہوریت کا حسن سمجھی جاتی ہے۔ لیکن تنقید تعمیری اور بامقصد ہونی چاہیے نہ کہ مخالفین کی ذاتیات یا ان کی خواتین کے خلاف بہتان تراشی پر مبنی ہو جیسے کہ آج کل وطن عزیز میں ہو رہا ہے۔

80 کی دہائی میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور بیگم نصرت بھٹو کے خلاف بھی انتہائی نفرت انگیز مہم چلائی گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو شہید کو غدار اور ملک دشمن ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ محترمہ کے کردار پر کیچڑ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ ضیاءالحق کی برسی کے موقع پر فیصل مسجد کے احاطے میں ان کے خلاف مقررین کی طرف سے بہت ہی غلیظ زبان استمال کی گئی جو کسی طور پر اخلاق کے کسی پیمانے پر پورا نہیں اترتی تھی۔

بعد ازاں پرویز مشرف کے دور میں لندن میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان ایک تاریخی چارٹر کی بنیاد رکھی گئی جس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان بہترین ورکنگ ریلیشن شپ قاہم ہوئی جس کی وجہ سے پاکستان کی سیاست پر بڑے مثبت اثرات نمایاں ہوئے۔ بعد میں آصف علی زرداری کے دور میں بھی دونوں جماعتوں کے درمیان مصالحت پر مبنی تعلقات قاہم رہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ان ادوار میں دونوں پارٹیوں کے درمیان مصالحانہ رویے کو بنیاد بنا کر مخالفین کی جانب سے فرینڈلی اپوزیشن کی پھبتی کسی جاتی تھی۔

2011 کے بعد ایک تیسری سیاسی جماعت تحریک انصاف کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ عمران خان کی سربراہی میں قاہم اس جماعت نے دیکھتے ہی دیکھتے سیاست کے میدان میں تیسرے بڑے فریق کی حیثیت حاصل کرلی۔ Status Quo کو بدلنے کا علم اٹھائے یہ جماعت جس طرح سیاست کے افق پر ابھری ہے اس پر بہت سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن وہ ایک الگ کہانی ہے۔ یہاں تحریک انصاف کی سیاست اور اقتدار میں آنے کے بعد سے جڑے حالات پر بحث کرنا مقصود ہے۔

اس جماعت نے اپنی سوشل میڈیا جسے وہ اپنی قوت سمجھتی ہے کے ذریعے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے راہنماؤں کی کردارکشی کی جاتی رہی ہے اور اب تک اس کا سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں محترمہ مریم نواز جو ان دنوں سیاسی طور پر بہت زیادہ متحرک ہیں کے خلاف انتہائی شرمناک ٹرینڈ چلایا گیا جو اخلاقی طور پر درست نہیں تھا۔ اسی تناظر میں دوسرے فریق کی جانب سے بھی وزیراعظم کی اہلیہ کے خلاف ایک غلیظ ٹرینڈ لانچ کر دیا گیا۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے دونوں خواتین کی کردار کشی کی مذمت کی ہے۔ سیاسی مخالفت کو اس نہج تک لے کر جانا بہت ہی ناپسندیدہ فعل ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے ملک کے ممتاز صحافیوں کے خلاف غیر اخلاقی ٹرولنگ کی جاتی رہی ہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ ایک طرف تو مدینے کی ریاست بنانے کے دعوے دار ہیں اور دوسری طرف ان کی ناک کے نیچے مخالفین پر نفرت انگیز کچڑ اچھالا جاتا ہے اور رکیک القابات اور ناشائستگی پر مبنی ٹرینڈ ٹویٹر پر چلائے جا رہے ہیں۔ کیا تبدیلی کے دعوے دار وزیراعظم کو اس غیر اخلاقی حرکت پر اپنی میڈیا ٹیم کو روکنا نہیں چاہیے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ وزیراعظم صاحب پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کے دعوے دار بھی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ہر وقت تسبیح پکڑی ہوتی ہے۔ بقول ان کے وہ درودشریف کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی سوشل میڈیا ٹیم اور ترجمان حضرات مخالفین کی کردار کشی کرتے وقت ہر حد پار کر جاتے ہیں۔ لیکن عمران خان اس چیز کا نوٹس لینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔

2014 کے دھرنے کے دوران نوجوانوں کے جذبات کو پارٹی قیادت کی طرف سے غلط انداز میں ابھارا گیا تھا۔ برسراقتدار آنے کے بعد مخصوص ذہن کے مالک ترجمان تعینات کیے گئے جو مخالف سیاستدانوں کے بارے میں بدنیتی پر مبنی مہم چلانے میں مہارت رکھتے تھے۔ ایسے عناصر اپنی نوکری پکی کرنے کے لیے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی لئے وہ آئے دن اپوزیشن قاہدین کے خلاف پھکڑ پن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔

وزیراعظم صاحب کو بڑی نیک نیتی سے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ سیاسی میدان سے اس بدتمیزی اور بدتہذیبی کو کیسے ختم کر سکتے ہیں۔ کیونکہ حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں ہے۔ اور ان پر اس حوالے سے بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ سٹیٹس کو پر مبنی نظام کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ اگر خان صاحب معاشرے سے اس گند کو ختم کرنے کا بیڑا بھی اٹھا لیں تو یہ سونے پر سہاگہ کے مترادف ہوگا۔ نوجوان جن کو وہ اپنی قوت سمجھتے ہیں ان کی فکری تربیت کرنا بھی موصوف کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے۔ وہ چاہیں تو شاہستگی اور مفاہمت پر مبنی سیاست کو فروغ دے سکتے ہیں۔ سیاست دشمنی نبھانے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ خدمت اور کارکردگی دکھانے کا ہنر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).