سلام آخر


”مولا تجھے بی بی کی ردا اور شہید کربلا کا واسطہ مجھ بڈھے گناہ گار کو اس وقت تک موت نہ دینا جب تک اس منبر پر علامہ سجاد نجفی کو نہ دیکھ لوں۔ اس کے بعد جو تیری مرضی۔ تو جانے تے حسین جانے۔“

زوار صادق شاہ نے ظہرین ادا کرنے کے بعد دو ٹوک دعا مانگی ’خدا اور حسین کو آمنے سامنے کیا‘ سجدہ گاہ کو واسکٹ کی جیب میں رکھا اور علم کو بوسہ دے کر امام باڑے کے اس حصے کی طرف آہستہ آہستہ چل دیے جہاں ان جیسے چار بزرگ صدیوں پرانے بوہڑ کے سائے میں بیٹھے اس خونی بواسیر پر تبرا بھیج رہے تھے جس نے فدا شاہ کی ہڈیوں کا رس نکال دیا تھا۔

”خدا بخشے حکیم ابراہیم کو۔ تھا تو سنی لیکن حکیم ایک نمبر تھا۔ اگر معلوم ہوتا کہ مجھ سے پہلے مرے گا تو پھکی کا پورا کنستر بنوا کے رکھ لیتا“ گود میں پوتا کھلاتے فدا شاہ کے لہجے میں پشیمانی تھی۔

”او شاہ جی جب سے حکیم مرا ہے تم چوبیس گھنٹے اس گندی بیماری کے قصے سناتے رہتے ہو۔ آپریشن کیوں نہیں کرا لیتے۔ سارا مسئلہ جڑ سے ختم ہو جائے گا“

منظور شاہ نے بے زار ہو کر فدا شاہ کو مشورہ دیا۔ وہ فدا شاہ کی باتیں سن سن کر تنگ آ چکے تھے

خدا کا خوف کر منظور شاہ۔ اس عمر میں آ کے ڈاکٹروں کے آگے بے پردہ ہو جاؤں؟ سید بڈھا ہوا ہے بے غیرت نہیں۔ اب تو غسل کے پھٹے پر ہی بے لباس ہوں گا ”

اپنی بات مکمل کرنے سے پہلے ہی فدا شاہ کی نظریں غیرارادی طور پر امام باڑے کے اس غسل خانے کی طرف اٹھ گئیں تھیں جہاں انہوں نے کئی مومنین کو اپنے ہاتھوں سے غسل دے کر آخرت کے سفر پر روانہ کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ بات کسی اور طرف جاتی زوار صادق شاہ سب پر یا علی مدد کا سلام ڈال کر اپنی مخصوص اینٹ پر آ بیٹھے۔ انتظامی کمیٹی کا کورم پورا ہو چکا تھا۔ اور آج بھی اسی مدعے پر بات ہونی تھی جس کے لئے زوار صادق شاہ دعا کر کے آرہے تھے

زوار صادق حسین شاہ محکمہ انہار سے ریٹائر ہونے کے بعد بوہڑ والے امام باڑے کی انتظامی کمیٹی کا حصہ بنے تھے۔ اس کمیٹی کے ہاتھ میں مسجد اور امام باڑے کے سارے مالی معاملات تھے۔ محرم کے انتظامات اور مجالس کی ترتیب بھی اسی کمیٹی کے ذمے تھے۔ کس ذاکر کو بلانا ہے کس سے پہلے پڑھوانا ہے کس کو آخر میں۔ ذاکر کو کتنا نذرانہ دینا ہے، اس کے سوزیوں کو کتنی بخشش عطا کرنی ہے۔ ان سارے معاملات کا فیصلہ بوہڑ کے نیچے بیٹھی یہی پانچ رکنی کمیٹی کرتی تھی۔ اگرچہ امام باڑے کی اس سلامتی کونسل کے سارے بزرگ ارکان کسی نہ کسی جسمانی عارضے میں مبتلا تھے لیکن پھر بھی ان کا ہر فیصلہ ساری برادری کے لئے حرف آخر تھا۔ پچھلے سال جب زوار صادق شاہ کے سینے میں درد اٹھا اور دل کی کمزوری تشخیص ہوئی تو پاکستان نیوی میں ٹیکنیشن کے عہدے پر فائز ان کے منجھلے لڑکے محسن نے انہیں کراچی آنے اور نیوی کے ہسپتال میں علاج کرانے کا مشورہ دیا۔

زوار صادق شاہ نے اس مشورے کی سختی سے مخالفت کی۔ اس مخالفت کی وجہ ان کے دل میں بیٹھا ایک وہم تھا کہ وہ جب بھی اپنے علاقے سیالاں والا سے باہر نکلتے ہیں تو ان کی غیرموجودگی میں ملک الموت ان کے کسی نہ کسی پیارے کا سر لے جاتا ہے۔ جوانی میں جب وہ اپنی نوکری کے انٹرویو کے لئے لاہور گئے تھے تو پیچھے بڑے شاہ جی بیٹھے بٹھائے دنیا چھوڑ گئے۔ دوسری بار دس سال پہلے جب زواری کرنے ایران گئے تو امام رضا کے حرم میں ہی ان کو اپنی اماں کے گزر جانے کی خبر ملی تھی۔ اسی خدشے کو سامنے رکھتے ہوئے شاہ صاحب نے کراچی جانے سے انکار کر دیا۔ محسن نے خط لکھ کر انہیں سمجھایا کہ اب تو علاقے میں ان کا کوئی پیارا باقی ہی نہیں رہا سارے بچے روزگار کے پیچھے سیالاں والا چھوڑ گئے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ فوجی ہسپتال میں ان کا سارا علاج مفت ہو گا۔ مفت علاج کی آفر شاہ جی کے ہر وہم کو دبا گئی اور وہ نیو خان میں بیٹھ کے سیالاں والا سے بارہ سو کلو میٹر دور سہراب گوٹھ کے اڈے جا اترے۔ کراچی میں قیام کے دوران فوجی ہسپتال میں ان کا دل تو سنبھل گیا لیکن اس پر علامہ سجاد نجفی کا داغ لگ گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ انہوں نے وہاں علامہ صاحب کی ایک مجلس میں شرکت کر لی تھی۔ بس وہ دن اور آج کا دن کہ ان کی باقی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد رہ گیا تھا کہ کسی نہ کسی طرح علامہ نجفی کو بوہڑ والے امام باڑے میں پڑھوا کر اپنی آخرت کا بندوبست کریں۔

”مولا گواہ ہے فدا شاہ، علامہ مصائب پڑھتا نہیں، دکھاتا ہے۔ میں نے اپنی ستر سال کی زندگی میں کسی کو علامہ نجفی کی طرح کربل کا نقشہ کھینچتے نہیں دیکھا۔ جب اس نے“ عباس مر گئے، علی اصغر جدا ہوا۔ ہم سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا ہوا؟ ”پڑھ کے منبر چھوڑا تو مجھے لگا جیسے میری روح جسم چھوڑ گئی ہے۔ مولا کی قسم ابھی بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو دل اور آنکھیں دونوں بھر جاتے ہیں“

زوار صادق شاہ نے پگڑی کے پلو سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے انتظامی کمیٹی کے سامنے دل کی وہی بات رکھی جسے وہ پچھلے دو دن سے رکھ رہے ہیں۔ ان کی کوشش تھی کہ اس محرم ان کی آرزو پوری ہو جائے۔ لیکن کمیٹی کے ارکان کو قائل نہیں کر پا رہے تھے

”شاہ جی تمہاری بات تو ٹھیک ہے لیکن کہاں کراچی کہاں سیالاں والا۔ علامہ اتنی دور اس چھوٹے سے قصبے میں کیوں آئے گا؟“

جعفر شیرازی نے دم والے پانی میں دمے کی ہومیوپیتھک دوائی کے دس قطرے ڈالنے کے لئے شیشی کا ڈھکن مروڑتے ہوئے پوچھا

اس سے پہلے کہ صادق شاہ کی طرف سے جواب آتا۔ صوبے دار امام بخش نے بھی سوال داغنے کے لئے زبان کھولی

”فرض کرو آ بھی جائے تو اس کو اتنا نذرانہ کون دے گا؟ ان بڑے ذاکروں کو غریب مومنین کہاں افورڈ کر سکتے ہیں۔

Money is king and Siyalan wala is without king

65 ء کی جنگ کے گھائل صوبے دار امام بخش نے اپنی چوبی ٹانگ کی ڈبریوں کو سرسوں کا تیل پلاتے ہوئے اپنے موقف میں انگریزی کا تڑکا لگایا۔ صوبے دار صاحب اس کمیٹی کے واحد غیر سید ممبر تھے۔ کہنے کو تو انہیں اس کمیٹی میں اس لئے شامل کیا گیا تھا کہ علاقے کے غیر سید شیعوں کی نمائندگی بھی ہو سکے لیکن اس چناؤ کی اصل وجہ ان کی بارہ بور بندوق تھی۔ صوبے دار صاحب کے مطابق ایوب خان نے درہ آدم خیل سے بندوقوں کی ایک جوڑی خاص اپنے لئے تیار کروائی تھی۔ ایک صدر کینیڈی کی بیوی کو پسند آ گئی جسے وہ اپنے ساتھ امریکہ لے گئی اور دوسری انہیں ان کی بہادری کے عوض عطا کی گئی۔ اپنے اس دعوے کا کوئی دستاویزی ثبوت یا بندوق وصول کرتے ہوئے کوئی تصویر ان کے پاس نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی جہلا کی تسلی کے لئے انہوں نے اپنی بیٹھک کی دیوار پر گھڑ سواری کرتے صدر ایوب اور جیکولین کینیڈی کی ایک فریم شدہ تصویر کے ساتھ وہی بندوق لٹکا رکھی تھی۔ سمجھداروں کے لئے تصویر کافی تھی اور جہلا کے لئے بندوق۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi