Social media take up me you!


چند دن قبل میرے بڑے برادر فرخ کامرانی صاحب نے یک بڑی دلچسپ بات فرمائی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہمارے سماج کو تین بخاروں کا شکار ہوتا دیکھا۔ ان میں سے ہر بخار ایک سرسامی کیفیت لئے ہوئے تھا اور ان میں سے اول دو بخار کم و بیش ایک ایک دہائی جاری رہے۔ اس نوع کا پہلا (اور سب سے شدید) بخار تھا ’کمپیوٹر‘ ۔ اسی کی دہائی کے بالکل اواخر میں یہ لفظ ہمارے ملک کے خاص خاص لوگوں سے ہوتا ہوا نوے کی دہائی میں عوام تک پھیلنے لگا۔

ہر کسی کو صبح شام ’کمپیوٹر کمپیوٹر‘ کرتا دیکھا گیا۔ جن کے پاس کمپیوٹر ہوتا ان کو ایک عجیب اور اعلیٰ مقام ہر جگہ مل جاتا۔ لوگوں کو لگتا کہ بس اب کمپیوٹر کا دور ہے۔ جو اس شعبے سے منسلک ہوگا مستقبل بس اس کا ہے۔ غریب لوگ اپنے بچوں کو اپنی جمع پونجی خرچ کر کے کمپیوٹر کے کورس کرواتے۔ ہر جگہ کمپیوٹر انسٹییوٹ کھل گئے۔ نوے کی دہائی کے وسط تک ہر گلی میں ایک آدھ گھر میں کمپیوٹر آ گیا تھا۔ محلے کے بچے کمپیوٹر والے گھر کے کسی بچے سے دوستی کرتے کہ اس کے گھر جا کر پانچ دس منٹ کمپیوٹر پر گیم کھیلنے کا موقع مل جائے۔

کمپیوٹر کو صرف دیکھ کر ہی لوگوں کو نشہ آنے لگتا۔ جن کے پاس کمپیوٹر ہوتا ایسے بچے دوسرے بچوں کو گھانس نہ ڈالتے اور بڑی رعونت سے پیش آتے۔ رشتہ دار بھی کمپیوٹر والے رشتہ دار کو عزت و تکریم دیتے۔ ٹی وی پروگراموں میں بعض مرتبہ کمپیوٹر سیٹ پر رکھے دکھائے جاتے۔ مجھے ڈاکٹر غلام مرتضٰی کا ایک اسلامی پروگرام یاد ہے جو کہ غالباً ایس ٹی این پر آتا تھا۔ پروگرام کے شروع میں ڈاکٹر صاحب کو کمپیوٹر کے ’کی بورڈ‘ پر چند ’کیز‘ دباتے دکھایا جاتا پھر وہ بات شروع کرتے۔ بات دین پر ہوتی مگر شروع میں مولانا صاحب کو کمپیوٹر کی ’کیز‘ دباتا دکھا کر بتایا جاتا کہ وہ بہت ماڈرن ہیں اور علوم حاضر سے اس قدر واقف ہیں کہ کمپیوٹر چلا لیتے ہیں۔

مجھے یاد ہے جب میں علی علی اسکول میں پڑھتا تھا تب ایک پمفلٹ اسکول والوں کی طرف سے گھر بھجوایا گیا جس میں لکھا تھا کہ عہد حاضر میں کمپوٹر سیکھے بغیر ترقی کا تصور نہیں اس لیے اسکول میں جدید کمپیوٹر لیب کا افتتاح کیا گیا ہے اور اب کیونکہ کمپیوٹر کی کلاس بھی ہوا کرے گی اس لیے فیس میں اتنا (اب وہ رقم یاد نہیں) اضافہ کیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کمپیوٹر کی کلاس میرے لئے سب سے دلچسپ پیریڈ ہوا کرتا تھا جس میں ہم بچوں کو Dave dangerous کھیلنے کا موقع مل جاتا تھا۔

سنہ 2000ء کے بعد کمپیوٹر کا سراب چکنا چور ہو گیا۔ کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کیے ہوئے نوجوان جب روزگار کی تلاش میں سڑکوں پر بھٹکے تو ان کو اندازہ ہو ا کہ پاکستان میں نہ تو سافٹ ویئر ہاؤسز ہیں نہ ہی کمپیوٹر کا شعبہ صنعت کے طور پر موجود ہے۔ بس دفاتر میں جو تھوڑی بہت کمپیوٹرازیشن ہو رہی ہے، اس کے لئے اداروں کو کمپیوٹر سے منسلک اسٹاف مطلوب ہے۔ دو سو افراد کے ادارے میں کمپیوٹر سے متعلق نوکری کے مواقع صرف دو ہوتے۔ اس صورتحال سے مایوس لوگوں کا کمپیوٹر کا بخار اور سرسامی کیفیت فوراً ہی دور ہو گئی۔ لوگوں کو کوئی اور سراب چاہیے تھا، کسی اور بخار کی تلاش تھی۔

بالکل اسی زمانے ہمارے سماج کو ایک نیا بخارہو گیا۔ یہ ’میڈیا‘ کابخار تھا۔ سنہ 2001ء ہی ملک میں نجی ٹی وی چینل کھلنے لگے۔ انڈس، جیو، اے آر وائی۔ الغرض بڑے بڑے چینلز کا ملک میں اجرا ہوا اور ایک سرکاری چینل اور ایک نجی چینل والی فضا اچانک بدل گئی۔ اس دور میں ہر طرف ’میڈیا میڈیا‘ کا چرچا ہونے لگا۔ لوگوں کی زبان پر میڈیا کی طاقت کے قصے ہوتے۔ صحافت سے منسلک لوگوں کو بھی معاشرے میں پہچانا جانے لگا اور لوگ اس شعبے سے بھی مرعوب ہو گئے۔

اب ایک پوری نسل تیار ہونے لگی جس نے کہ میڈیا میں جاکر اپنا مستقبل بنانے کا سوچا۔ کمپیوٹر انسٹیٹیوٹس کی طرح اب اکثر جگہوں پر میڈیا سائنس کے ادارے کھلنے لگے۔ لوگ صبح شام میڈیا میڈیا کی گردان کرتے۔ کسی کا کوئی رشتہ دار میڈیا میں ہوتا تو بہت فخر سے اس کے بارے میں بتایا جاتا۔ اس کے ساتھ شادیوں میں اور تقریبات میں تصاویر بنوائی جاتیں۔ بہت سے افراد اگر کسی دوسرے سے متاثر ہوجائیں تو اسے مشورہ دیتے کہ ”یار تم میڈیا میں جاؤ“ بہت سے ادھیڑ عمر افراد بھی فخر (اور حسرت) سے کہا کرتے کہ وہ تو بہت آسانی سے عامر لیاقت یا شاہد مسعود بن سکتے ہیں ان کے پاس بھی بہت معلومات ہے (بلکہ ان کو تو کئی افراد نے آفر بھی کی ہے ) اور ممکن ہے کہ وہ میڈیا جوائن کر ہی لیں۔

ایک صاحب کو تو اس بخار نے ایسا گھیرا کہ امریکا چھوڑ کر پاکستان بھاگے آئے اور یہاں انڈس نیوز میں اینکر بن گئے۔ بعد میں ’میٹرو‘ اور ’کے ٹوئنٹی ون‘ جیسے چینلوں پر نظر آنے لگے مگر بڑھاپے میں بھی میڈیا کا چمکتا ستارا بننے کی ضد نہیں چھوڑی۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ میڈیا کا سراب کبھی کمپیوٹر کے سراب جتنا وسیع بھی نہیں ہوا اور ٹوٹا بھی جلدی۔ جو نوجوان میڈیا کی تعلیم حاصل کر کے اخبارت اور ٹی وی چینلوں میں گئے وہ بہت پچھتائے۔ ان میں سے اکثریت کو کم تنخواہوں اور بھاری رگڑے کے علاوہ کچھ بھی نہ ملا، شہرت بھی نہیں۔ صورتحال کچھ اتنی عجیب ہے کہ ڈیڑھ دو سال قبل ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کو ایک نیوزاینکر کے بارے میں تب پتہ چلا جب ایک شخص نے اسے قتل کر دیا۔ اب ایسا ہو گیا ہے کہ میڈیا چینل نہ نوجوان دیکھتے ہیں نہ بچے۔ زیادہ سے زیادہ یہ چینل بوڑھے لوگ دیکھتے ہیں یا پھر جیلوں میں اگر ٹی وی کی سہولت ہو تو ٹی وی روایتی انداز میں دیکھا جاتا ہے۔

میڈیا کا یہ بخار اور کشش جس چیز نے توڑی وہی ہمارے سماج کا تیسرا سراب ہے۔ اس سماج کا تیسرا (اور جاری) سراب ہے سوشل میڈیا۔ سوشل میڈیا بہت تیزی سے اس معاشرے کے بچوں، نوجوانون، جوانوں، ادھیڑوں اور بوڑھوں کو بڑی بے شرمی سے ’سیکرٹ سپر اسٹار‘ بننے پر اکسا رہا ہے۔ لوگ اس سراب میں یوٹیوبر بنے جا رہے ہیں کہ یوٹیوب سے لاکھوں کروڑوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ اب سڑکوں پر ’پرینک‘ کرنے والے، ’ٹک ٹاک‘ بنانے والے اور اسی نوع کی بہکی بہکی حرکات کرنے والے اکثر نظر آتے ہیں۔

فیس بک پر ’سلبریٹی‘ بننے کے شوق میں لوگ عجیب و غریب حرکات کیے ہی چلے جاتے ہیں۔ تھوڑے پڑھے لکھوں میں انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کا ایک خیال سرایت کر گیا ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں، ’کونٹنٹ رائیٹر‘ بن کر امریکا اور کینیڈا کے نااہل طلبہ کے اسائنمنٹ لکھ رہے ہیں۔ دس گدھوں کی محنت کے بعد چند ہزار کمانے والے یہ نوجوان، اس سراب کو کوئی جادوئی چراغ سمجھ بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا کا خوف ایسا ہے کہ لوگوں کو کسی کو دھمکی بھی دینی ہوتی ہے تو جیب سے موبائل نکال کر بہت جلال میں ویڈیو بنانے لگتے ہیں اور ان کو لگتا ہے اس توپ سے وہ کسی کا بھی شکار کھیل سکتے ہیں۔

چند ماہ قبل ایک ویڈیو نے سماجی میڈیا پر بڑی دھوم مچائی جس میں ایک صاحب نادرا کی شکایت سوشل میڈیا سے کر رہے ہیں اور اپنی غلط سلط انگریزی میں بار بار دھمکی اور التجا میں کہہ رہے ہیں ”social media take up me you!“ ان کو لگ رہا تھا کہ بس ابھی ان کی یہ ویڈیو سماجی میڈیا پر ظاہر ہوئی اور ابھی نادرا کا بھٹہ بیٹھا۔ مگر ہوا ایسا کچھ بھی نہیں وہ صاحب بس اپنی حرکت سے ایک تفریح بن گئے۔ ہزار قسم کی سماجی میڈیا کے ’طاہر شاہوں‘ کے اذہان میں سماجی میڈیا کے مصارف اور اس سے اپنی زندگی میں رنگ پیدا کرنے یا پیسہ کمانے کے طریقے الگ الگ ہیں۔

سماجی میڈیا سے حقیقی پیسہ یا شہرت کمانے والے تو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں مگر اس سراب میں اپنی زندگی گزارنے والے کروڑوں ہیں۔ ابھی لوگ سماجی میڈیا کا نفسیاتی Dave dangerous کھیل کر یہ پیریڈ گزار رہے ہیں اور! social media take up کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ میرے جیسے غیر اہم لوگ ’ہم سب‘ پر مضمون لکھ کر خود کو مفکر سمجھ رہے ہیں اور کسی نامعلوم اور انجان سماجی تبدیلی اور فکری انقلاب کا معمار خود کو گردان رہے ہیں۔

امید کی جاتی ہے کہ اس بخار سے بھی سابقہ دو بخاروں کی طرح ہمارا سماج جلد باہر نکل آئے گا مگر اس کے بعد کون سا سراب شروع ہوگا یہ اندازہ لگانا ابھی مشکل ہے۔ بہرحال یہ کہا جاسکتا ہے کہ تب لوگ ابھی کے سماجی میڈیا سے متعلق تصورات اور اس سے توقعات کے بارے میں سوچ کر ہنسیں گے۔ لوگوں کو اپنے ہی خیالات اور خواب انجانے اور مزاحیہ معلوم ہوں گے ۔ مگر ابھی یہ سوچنا بھی مشکل ہے، بہت مشکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).