عارفہ شہزاد کا ناول: میں تمثال ہوں



مشرقی معاشرے کے ٹیبوز کو توڑنا اور عورت کے قلم سے ایسی کہانی لکھے جانا۔ شاید بہت سے لوگوں کو ہضم ہی نہ ہو پائے۔ مگر کیا کیا جائے اب تو لکھنے والی نے لکھ دیا۔ میرے سامنے اس وقت ”میں تمثال ہوں“ کے عنوان سے عارفہ شہزاد کا تحریر کردہ ناول ہے جو اپنی نوعیت، تکنیک اور موضوع کے اعتبار سے قدرے منفرد ناول ہے۔

عارفہ شہزاد اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اردو کی استاد ہیں۔ فکشن کی دنیا میں یہ ان کا پہلا قدم ہے۔

یہ ناول بنیادی کردار تمثال کی نفسیاتی تھراپی سے شروع ہوتا ہے، جہاں وہ ایک ماہر نفسیات سے رجوع کرتی ہے اور اس سے اپنی ذہنی الجھنوں کا حل چاہتی ہے۔ معالج اور تمثال کا رابطہ ای میلز کے ذریعے رہتا ہے۔ دوران علاج یہ طے پاتا ہے کہ وہ اس تمام سرگزشت کو ایسے ہی مسائل سے دوچار افراد کی راہنمائی کی غرض سے شائع کر دیں گے۔ مگر کرداروں کی شناخت سے بچنے کے لیے فرضی نام اختیار کیے جائیں گے۔ یہاں ناول نگار بطور ایک خاموش کردار کے کہانی میں دخیل ہوتی ہے، جب ماہر نفسیات اور مرکزی کردار کے درمیان طے پاتا ہے کہ ناول عارفہ شہزاد تحریر کرے گی جو مرکزی کردار کی قریبی سہیلی ہے۔

اس طرح کی طرز تحریر سے بالعموم عام قاری یہ رائے قائم کر لیتا ہے کہ یہ مصنف/مصنفہ کی خود نوشت ہے حالانکہ یہ افسانوی فن کا ایک معروف حربہ ہے جس سے کہانی کو حقیقت سے قریب اور موثر بنانے کا کام لیا جاتا ہے۔ ادب میں ایسے کئی فن پارے سامنے آئے جس میں صیغہ واحد متکلم کے استعمال کے ساتھ ساتھ مصنف اپنا ہم نام کردار بھی تخلیق کرتا ہے۔ اس کی بڑی اور سامنے کی مثال منٹو کا افسانہ ”بابو گوپی ناتھ“ ہے جس میں ایک کردار منٹو صاحب بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول میں عارفہ کا کردار بھی راقمہ کے نزدیک شاید عارفہ شہزاد نہیں ہے۔ البتہ فکشن اب Faction کے سفر پہ روانہ ہو چکا ہے تو ایسے میں کسی پختہ رائے کے لیے ناقدین ادب کی سنجیدہ رائے ضروری ہے۔

”میں تمثال ہوں“ کا مرکزی کردار شخصی تضادات کا شکار ہے، جس کی زندگی میں ایک نہ ختم ہونے والا خلا موجود ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے وہ ایک کے بعد دوسرے، تیسرے اور تسلسل سے سات ناکام عشق کرتی ہے۔ خلا ہے کہ ہر عشق میں ناکامی کے بعد مزید بڑھ جاتا ہے۔ اس ناول کی بنت اور ترتیب میں ہندسوں سے منسلک روایت کی طرف بے اختیار ذہن جاتا ہے مثلاً تمثال کی ڈائری کے 13 اوراق جن میں پہلے چھ عشق بیان کیے گئے ہیں اور پھر ساتویں عشق کے 7 ورق۔ سات کا ہندسہ بہت معنی خیز ہے۔ اس کا تعلق رموز کائنات سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ سات آسمان، زمین کی سات پرتیں اور کائنات کا سات دنوں میں وجود میں آنا۔ اسی طرح 13 کے ہندسے سے متعلق نحوست کی روایت بھی سب جانتے ہیں۔ ناول کی معنویت میں اس قرینے کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

”میں تمثال ہوں“ کی کہانی ایسے معاشرے کی کہانی ہے جس میں عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ اس کی زندگی کے تمام جذباتی، رومانوی و ذہنی فیصلوں کی لگام کسی دوسرے فرد کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے جذبات کے اظہار کی عموماً اجازت نہیں دی جاتی۔ اظہار کیے جانے پہ اس کی کردار کشی کی جاتی ہے۔

ممکن ہے تمثال کا تعلق مشرق کی بجائے مغربی معاشرے سے ہوتا تو وہ اس قدر نفسیاتی الجھنوں کا شکار نہ ہوتی۔ چوں کہ اس کا تعلق ایک سو کالڈ مذہبی سماج سے ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر فرد گناہ اور ثواب کی مضبوط رسیوں میں مقید ہے۔ جہاں مردکے لیے گناہ و سزا کے وہ معنی اور قوانین نہیں جو عورت کے لیے ہیں۔ مرد ببانگ دہل اپنی تعدد پسندی کا فخریہ اعلان کرتا ہے۔ جب کہ عورت کے لیے عشق کا اظہار اور عشق کی تلاش ممنوع ہے۔

نفسیاتی کشمکش میں مبتلا تمثال سوال در سوال کے بعد عصر حاضر میں رشتوں کے ڈسپوزایبل رویے پہ انگشت بدنداں ہے۔

تمثال ایک متوسط طبقے میں پروان چڑھنے والا ایسا کردار ہے جو مذہب، روایات، اقدار، جذبات اور اڑان بھرتے خوابوں کی تکمیل میں تصوراتی دنیاؤں میں تسکین سمٹیتا نظر آتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ سماجی خوف اور اس کی شخصیت کی ثنویت ایک ساتھ متوازی چل رہی ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے ہر دور میں جذبات کی بدلتی تعبیروں اور تکمیل ذات کے لیے جہد مسلسل میں مبتلا نظر آتا ہے۔ مشرقی ازدواجی زندگیوں میں درپیش مسائل، شریک حیات کا بدلتا رویہ، رومان اور حقیقت کا خوابوں کی دنیا سے یکسر مختلف ہونا ہی نفسیاتی الجھنوں کو جنم دیتا ہے جس کا ناول میں کھل کر اظہار کیا گیا ہے۔

ناول کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک خیال بار بار آتا رہا کہ یہ دنیا ایک نہ ختم ہونے والا سراب ہے۔ ایسا سراب کہ جو ہر فرد کو دائرہ در دائرہ کسی پاتال کی جانب دھکیل رہا ہے اور یہی اس کا انجام بھی ہے۔

انسانی رشتے، ”من وتو“ کا کھیل نہیں ہیں۔ ان میں ایک تیسرا بھی ہوتا ہے جو تکمیلیت کی علامت ہے۔ وہ تیسرا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح انسانی وجود بھی جسم، ذہن اور روح کی مثلث کا حامل ہے۔ اس بات کی صداقت کا ثبوت ”میں تمثال ہوں“ کے کرداروں میں بھی واضح ہے کہ انسانی رشتوں کی اکائی دو نہیں تین انسان ہیں۔ جب دو افراد کے رشتے میں ایک فرد دکھی ہو جائے تو کسی تیسرے فرد کا سہارا تلاش کرتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک ان تین انسانوں کا رشتہ triangulate ہونا کہلاتا ہے۔

ہم ایک زندگی میں کئی کردار نبھاتے ہیں اور کئی طرح کے بہروپ میں جی رہے ہوتے ہیں۔ ثنوی معیارات اور چہرے ہی ہیں جو ہمیں اس سوال کے جواب تک پہنچنے نہیں دیتے کہ آخر کار ایک فرد ان تمام کوششوں میں اپنی جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔ تکمیل ذات کے متلاشی افراد کا یہ لا متناہی سفر ہے جس کو منزل ملتی ہے نہ آسودگی نصیب ہوتی ہے۔

ناول کا کرافٹ فلیش بیک تکنیک سے بنا گیا ہے۔ ساتویں عشق میں ناکامی کے بعد کہانی کا مرکزی کردار تمثال ماضی میں جھانک کر قاری پہ چھپے اسرار کی گرہیں کھول رہا ہے، کہانی کا یو ٹرن پانچویں عشق کی موت کو گردانا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

ناول میں کئی جملے ہیں جو کاٹ دار لہجے میں حقیقت نگاری کی معراج پہ ہیں۔ مثلاً ”بعض لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں، جب ایک قلعہ فتح کر لیں تو دوسری زمینوں کی طرف کوچ کر جاتے ہیں کہ کوئی نئی مہم سر کر سکیں! مفتوحہ علاقہ ان کے لیے باعث کشش نہیں رہتا“ (21)

تمثال کی شخصیت ثنویت اور معاشرے کے دہرے معیار کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ وہ دراصل کسی ہم زاد کی تلاش میں ہے لیکن آسودگی کی تلاش کا یہ سفر اسے خود اذیتی میں مبتلا کر رہا ہے۔

یہ ناول دراصل پدرسری سماج کے حاکموں کو توجہ دلانے کی ایک کوشش بھی ہے کہ نسائی جذبات کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ جب ان فطری جذبات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تو یہ جبلتیں نکاسیٔ جذبات کے لیے ایسے راستوں کا انتخاب کرتی ہیں جو عام طور پہ مشرقی روایات پہ سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہیں۔

یہاں ایک اور اہم توجہ طلب نکتہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ عموماً ازدواجی زندگی میں داخل ہونے کے بعد سماجی حاکمین کا passive behavior بھی نہ ختم ہونے والے خلا کو جنم دیتا ہے۔ تمثال جسے اپنے حسن کا ادراک بھی ہے مگر اپنے تیسرے عشق (شوہر) کی لاپرواہی کی بنا پہ کسی ایسے شخص کی متلاشی ہے جس کی توجہ اس کے مزاج میں شگفتگی بکھیر دینے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

تمثال کو عام افراد کی بجائے باشعور افراد میں شامل کیا جانا بہتر ہوگا کیونکہ اس کا تخلیقی مزاج اور ادب سے لگاؤ اسے عام افراد سے ممیز کرتا ہے۔

ہر شخص کسی بھی کہانی کے مرکزی کردار کو اپنے آئینے کی رو سے اس کا عکس دیکھنے کا خواہاں نظر آتا ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ”میں تمثال ہوں“ کی کہانی کے مرکزی کردار پہ سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کوئی یہ نہیں دیکھنا چاہے گا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ ناول کیوں لکھا گیا۔ یہ معاشرے کے کن رویوں کو نشان زد کرتا ہے۔ قارئین کے لیے اس کا بولڈ طرز تحریر اور ایک عورت کا اس موضوع پر لکھنا ایک ایسا دھچکہ ہے جس سے وہ شاید ہی سنبھل پائیں!

”میں تمثال ہوں“ از عارفہ شہزاد
صفحات:134
ناشر: عکس پبلی کیشنز لاہور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).