وقت کی ریت


آپ کتنی ہی طاقت کے ساتھ مٹھی بند کر لیجیے، وقت کی ریت ہاتھوں سے پھسل ہی جاتی ہے۔ آپ بادشاہ ہوں، وزیر اعظم ہوں، کیوٹ ہوں، کتے پالتے ہوں، یا ورلڈ کپ جیت جائیں، آپ وقت کی ریت کو قید نہیں کر سکتے۔ آنکھیں بند کر لینے سے دھوپ چلی نہیں جاتی۔ اور دائروں میں بھاگنے سے فاصلے طے نہیں ہوتے۔

گزشتہ ہفتے ملک کی عدالتی تاریخ کے بہترین فیصلوں میں اضافہ ہوا۔ بالآخر ہمارے پسماندہ اسلامی ملک میں کچھ لوگوں کو اسلام کے مطابق ایک خاتون کو وراثت میں حصہ دینے کا پابند کیا گیا۔ اسلام کے نام پر بننے والے اس محبوب ملک کے نصیب میں ٹھیکیدار بھی آئے تو وہ کہ جن کی خواہشات دین کہلانے لگیں۔ عورت باہر جائے تو حرام، وراثت میں حصہ مانگ لے تو نافرمان۔ خیر، جج صاحب نے کمال محنت، تدبر، اور امانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت کے حق میں فیصلہ سنایا۔

ظلم کی انتہا دیکھیے، بجائے دیر سے حق دینے پر شرمندہ ہونے کے، ہمارا معاشرہ فخر کرنا چاہتا ہے کہ بالآخر کروڑوں خواتین میں سے ایک خاتون کو حقدار ٹھہرا کر ہم نے اسلام کے سارے تقاضے پورے کر دیے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ قسمت کی دیوی اپنی آنکھیں پھوڑ رہی ہے، کہ فیصلہ آیا تو جب آیا کہ حقدار عورت کو فوت ہوئے بھی بائیس سال بیت چکے ہیں۔ وقت کی ریت نے عدالتی فیصلوں کا بھی انتظار نہیں کیا۔ وقت کی ریت ہمیشہ پھسلتی جاتی ہے۔ آپ کتنے ہی بڑے ادارے کے سربراہ ہوں، عدالت کے جج ہوں، فوجی کمانڈر ہوں، یونیورسٹی کے چانسلر ہوں، انسان ہوں، جانور ہوں، انسان کے روپ میں چھپے جانور ہوں، جانور کا نشان لیے سیاستدان ہوں، آپ کچھ بھی ہوں، اس وقت کی ریت کو روک نہیں سکتے۔

یہ وقت کی ریت پھسلنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی بدلتی رہتی ہے۔ بادشاہوں کی بیٹیاں بازاروں میں، اور بازاروں میں بکنے والے غلام بادشاہوں کے منصب پر نظر آتے ہیں۔ ہمیشہ نوجوانی کی بہاریں روٹھ جاتی ہیں۔ سبھی بچپن خزینوں کا کوئی انجام ہوتا ہے۔ ہم نو عمر تھے تو سنتے تھے کہ ہمارے محلے میں مختلف خاندان آباد ہیں۔ مختلف قبیلوں کے لوگ اپنے پیشے سے پہچانے جاتے تھے۔ فلاں خاندان کا کام دودھ دہی کا ہے، فلاں جولاہے، فلاں لوہار، فلاں حکیم اور فلاں ناچ گانے والے۔

عمر بڑھی تو جانا کہ جنہیں لوہار سمجھتے تھے، ان کے آباء تو صدیوں بر صغیر پر بادشاہت کرتے رہے۔ جنہیں ناچ گانے والا جانتے تھے، وہ معتبر ترین بن گئے۔ دودھ دہی والے سیٹھ بن گئے، وقت پلٹ گیا، بادشاہوں کے بچے بے سرو سامان ہونے لگے، اور بے سرو سامان نظر آنے والے حکمران بنتے چلے گئے۔ بائیس سال کی جدوجہد کے بعد کسی کو حکومت مل گئی، تو کوئی وراثت کا حقدار ٹھہرا دیا گیا۔ وقت کی ریت کا پھسلنا نہیں رکا، وقت کی ریت کا ہاتھ بدلنا بھی نہیں رکا، وقت بھی نہیں رکا، اور وقت کا بدلنا بھی نہیں رکے گا۔

مہنگائی بے پناہ بڑھ گئی ہے۔ لوگ روٹی کھانے کو ترس رہے ہیں۔ روٹی کی فکر لوگوں کو کھا رہی ہے۔ ملک کے تین دفعہ کے وزیراعظم صاحب کی دختر رعناء جس ملک کی فضاؤں پر راج کیا کرتی تھیں، اسی ملک کی سڑکوں پر راج کرنے کے لیے رعایا کی تلاش کر رہی ہیں۔ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی تھی، اس بے نظیر کی نظیر پورے ملک کی زنجیر بننے کی تگ و دو میں ہے۔ یہ زنجیر جو سب صوبوں کو جوڑ سکتی ہے، عوام کو قید بھی کرتی رہی ہے۔ جس پارلیمان کی دیواروں کی شان میں عوام کے گندے کپڑوں نے گستاخی کی، وہ پارلیمان اب عوام کو تن ڈھکنے کے کیے بوسیدہ کپڑا دینے سے بھی کترا رہا ہے۔ جو وزیر اعظم عوام کے پیٹ کی فکر کا سنا کر لاک ڈاؤن کا کہنے والو کو غدار اور غریب کش گردان رہا تھا، اس کے کتے بھوک سے بلکتے عوام کو منہ چڑھا رہے ہیں۔ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والے اب بغاوت کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ مگر کسی کو یاد نہیں، وقت کی ریت پھسل جاتی ہے۔

جو آج حکومت میں ہے، اس نے کل حکومت سے بے گھر بھی ہونا ہے۔ جو آج فقیر ہے، کل غنی بھی ہو سکتا ہے۔ جو آج نوجوان ہے، کل بوڑھا بھی ہو گا۔ جو آج خزانوں پر فخر کرتا ہے، کل ریت کے نیچے بھی جائے گا۔ وقت کی ریت ہاتھ بھی بدلے گی، پھسلنا بھی ترک نہیں کرے گی، اور نظام بھی چلتا جائے گا۔

نئی نسل کے نوجوان پوچھتے ہیں، ہم کیا راستہ اختیار کریں کہ کامیابی ہمارا مقدر بنے؟ ہم کون سی فیلڈ میں جائیں، کون سے ملک کی طرف ہجرت کریں کہ ہمارا مقدر بدل سکے؟

پیارے بچو، ملک بدلنے سے، پیشہ بدلنے سے، وقت کی ریت کی فطرت نہیں بدلتی۔ استاد محترم فرمایا کرتے تھے، راستہ کوئی بھی چن لو، فیلڈ کوئی بھی اپنا لو، تم ایسی محنت کرو جو کسی نے پہلے کبھی نہ کی ہو، اللہ ایسی کامیابی عطا فرمائے گا جیسی پہلے کسی کو نہ ملی ہو۔

جن کی خاطر سوشل میڈیا پر بیٹھ کر گالیوں کی جنگ لڑتے ہو، ذرا دیکھو تو سہی کہ وقت کے آگے ان کے ہاتھ کس قدر کمزور ہیں۔ دیکھو تو سہی کہ ان کے لیے اپنے شیر، اپنے گھوڑے، اپنے جنگلات، اور اپنے کتے زیادہ اہم ہیں یا تم لوگ۔ وقت کی ریت کا پھسلنا نہیں روک سکتے، مگر یہ کوشش تو کر سکتے ہو کہ جب تک یہ ریت تمہارے ہاتھ میں ہے، اسے ہوا میں اچھالنے کے بجائے، اسے نئی بنیاد قائم کرنے کے کام لاؤ۔

وقت کی ریت بہت نرم ہے۔ احتیاط اور محبت سے کام لو، محنت میں گوندھ کر، لگن کی مٹی میں ملا کر، خودی کے مضبوط فولاد کے ذریعے دنیا کی مضبوط ترین عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ ورنہ آپ کتنی ہی طاقت کے ساتھ مٹھی بند کر لیجیے، وقت کی ریت ہاتھوں سے پھسل ہی جاتی ہے۔ آپ بادشاہ ہوں، وزیر اعظم ہوں، کیوٹ ہوں، کتے پالتے ہوں، یا ورلڈ کپ جیت جائیں، آپ وقت کی ریت کو قید نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).