سیاست کا طویل المدتی کھیل


رپورٹر سے ’’کالم نگار‘‘ ہوئے مجھ جیسے قلم گھسیٹ صحافیوں سے تقاضہ ہوتا ہے کہ فقط سیاسی موضوعات پر لکھا جائے۔ ہفتے کے پانچ دن صبح اُٹھتے ہی مگر یہ خیال ستانا شروع ہوجاتا ہے کہ ’’حرکت تیز تر ہے‘‘ نظر آتی لیکن دائروں میں گھومتی ہماری سیاست کوئی نیا پہلو اجاگر کرنے میں قطعاََ ناکام ہے۔ ’’تخت یا تختہ‘‘ والا ماحول بنائے رکھتی ہے اور ہم صحافی اسے ہیجان خیز بنانے کی علت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ Ratings اور سوشل میڈیا پر مقبولیت کی حرص کے غلام ہوئے ہم صحافی یہ اعتراف کرنے میں بھی ناکام ہیں کہ اقتدار کے کھیل کو T-20جیسا سنسنی خیز معرکہ دکھاتے ہوئے ہم پاکستان کو درپیش مسائل کو ڈھٹائی سے نظرانداز کررہے ہیں۔ان میں سے بیشتر کی سنگینی اور گہرائی کو سادہ زبان میں عوام کو سمجھانے کے قابل ہی نہیں رہے۔

ستمبر2020 میں جماعت اسلامی کے سوا تمام اپوزیشن جماعتیں PDM نامی اتحاد میں جمع ہوگئیں۔اس کے بعد حکومت مخالف جلسوں کا آغاز ہوگیا۔وہاں بہت تندوتیز تقاریر ہوئیں۔ گزشتہ اتوار بالآخر لاہور والا جلسہ بھی ہوگیا۔ اس جلسے کے بعد عمران حکومت کو 31جنوری تک ازخود مستعفی ہونے کی ’’مہلت‘‘ دی گئی ہے۔لاہور میں ہوا جلسہ اگر عمران حکومت کے ترجمانوں کو دل سے ’’کامیاب‘‘ ہوا بھی نظر آتا تو کسی بھی حکومت کی طرح اس حکومت نے بھی ’’رضاکارانہ‘‘ استعفیٰ نہیں دینا۔

لاہور والے جلسے کی ’’ناکامی‘‘ کے بعد تو وہ بہت ہی مطمئن اور پراعتماد نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔ اپنے اعتماد کے ٹھوس اظہار کے لئے اس نے اب عندیہ دیا ہے کہ آئندہ برس سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں کے لئے انتخاب مارچ 2021 کے بجائے فروری میں بھی ہوسکتے ہیں۔اپوزیشن میں ہمت ہے تو اسے روک کردکھائے۔حکومتی ترجمانوں کو کامل اعتماد ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکینِ قومی وصوبائی اسمبلیوں کی اکثریت استعفیٰ دینے کو ہرگز دل سے تیار نہیں۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں لوگ بے تحاشہ رقوم خرچ کرنے اور اعصاب شکن مقابلے کے بعد پہنچتے ہیں۔ اپوزیشن نشستوں پربیٹھے ہوئے بھی ’’ٹہکا شہکا‘‘ Enjoyکرتے ہیں۔نیب کے خوف نے اگرچہ ان میں سے بیشتر کے دلوں کو دہلا کر رکھا ہے۔وہ خواہ مخواہ’’کُٹ‘‘ کھانے اور تذلیل برداشت کرنے کو تیار نہیں۔استعفوں کے ضمن میں پیپلز پارٹی کی ’’ٹھنڈک‘‘‘ جاننے کے لئے بھی آپ کو کسی ارسطو کی رہ نمائی درکار نہیں۔سندھ میں یہ جماعت اب بھی برسرِ اقتدار ہے۔ عمران حکومت کی فراغت کی بدولت اگرنئے انتخابات قبل از وقت ہوجائیں تب بھی وہ پنجاب سے وافرنشستیں حاصل کرنے کی امید نہیں رکھتی۔

نظر بظاہر آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں آئندہ انتخابی معرکہ بھی نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے مابین ہی ہوگا۔دُنیا کا ہر سیاست دان اصول پسندی کے تمام تر دعوئوں کے باوجود بنیادی طورپر خود غرض ہوتا ہے۔عادی جواری کی مانند جیت کو یقینی بنانے والے پتوں کے بغیر جوئے کی دری پر بے دریغ پیسہ نہیں پھینکتا۔سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں پر جو انتخاب ہونا ہے وہ عمران حکومت کے نورتنوں کی لگائی تازہ ترین گیم کے عین مطابق بھی ہو تو پیپلز پارٹی اپنی عددی برتری کی بدولت متوقع نشستوں سے کم از کم مزید دونشستیں حاصل کرسکتی ہے۔

اصل نقصان اس جماعت کا ہوگا جو ان دنوں خود کو ایم کیو ایم (پاکستان) کہلاتی ہے۔ 1988سے پیپلز پارٹی کی اصل شریک ایم کیو ایم ہی رہی ہے۔ اس کے بے اثر ہوجانے کے بعد سندھ کے ’’شہری‘‘ علاقوں کی حتمی نمائندہ تحریک انصاف بن جائے گی۔ طویل المدتی تناظر میں لیکن یہ جماعت صوبہ سندھ میں روشن امکانات کی حامل نہیں۔ٹھوس حوالوں سے پیپلز پارٹی کو البتہ اصل فکر یہ لاحق ہے کہ قومی اسمبلی کے بعد سینٹ میں بھی اکثریتی جماعت بن جانے کے بعد تحریک انصاف تیز رفتار قانون سازی کے ذریعے سندھ حکومت کے ان اختیارات کو محدود تر کرنا شروع ہوجائے گی جو فی الوقت اٹھارویںترمیم کے تحت اسے میسر ہیں۔

اس خدشے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے وہ سینٹ کے انتخابات سے پہلے نہیں بلکہ ان کے ہوجانے کے بعد سندھ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی بابت سنجیدگی سے سوچ سکتی ہے تانکہ اٹھارویں ترمیم کو ’’بچانے‘‘ کے لئے نئی صوبائی اسمبلی کے قیام کے لئے چلائی انتخابی مہم کے ذریعے ’’احتجاجی‘‘ ماحول بنایا جائے۔ اسمبلیوں سے استعفوں کو میری دانست میں بلاول بھٹو زرداری نے اِسی تناظر میں ’’نیوکلیئر آپشن‘‘ پکارا ہے۔ حکومتی ترجمان اگرچہ اس اصطلاح کا مذاق اڑارہے ہیں۔

خود کو تسلی دیتی Spin کے ساتھ مجھے اور آپ کو یاد دلارہے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار دکھانے کے لئے ہوتے ہیں چلانے کے لئے نہیں۔یہ امکان کوئی تصورمیں لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کررہا کہ پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی کو وہاں سے اپنی عددی قوت کے بھرپور استعمال سے سینٹ میں مزید نشستیں حاصل کرنے کے بعد تحلیل کروانے کا فیصلہ بھی کرسکتی ہے۔مذکورہ امکان کو مہارت سے بروئے کار لاتے ہوئے پیپلز پارٹی ’’سندھ کارڈ‘‘ کو نئی توانائی کے ساتھ کھیلنا چاہے گی۔ سیاسی عمل کو T-20بناتے ہوئے ہم صحافیوں کی اکثریت مگر مذکورہ امکان پر نگاہ رکھنے سے قاصر ہے۔

ہماری سوئی مارچ 2021میں سینٹ کا جزوی انتخاب ہوپائے گا یا نہیں والے سوال پر ہی اٹک چکی ہے۔مجھے شبہ ہے کہ بالآخر نواز شریف سے منسوب ہوئی جماعت بھی قومی اور پنجاب اسمبلی سے مستعفی ہونے کو سینٹ کا انتخاب ہوجانے کے بعد ہی ترجیح دے گی۔ اس کی اولین خواہش یہ ہوگی کہ پنجاب اسمبلی میں اپنی موجودہ تعداد کے بل بوتے پر سینٹ کے لئے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی کوشش ہو۔تحریک ا نصاف کو اس ضمن میں Walk Overدینے کے بجائے انتظار کیا جائے کہ سینٹ میں اپنا ’’حصہ‘‘ مانتے ہوئے گجرات کے چودھری تحریک انصاف سے بالآخر جدا ہونے کو مجبور ہوجائیں۔

تحریک انصاف کے کئی ’’بنیادی‘‘ اراکین اور اس جماعت کی اٹھان کے لئے بے تحاشہ وقت اور سرمایہ خرچ کرنے والوں کو ایک کثیر تعداد جنونی انداز میں اپنے لئے سینٹ کا ٹکٹ حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔حکمران جماعت کے لئے ان سب کو ’’کھپانا‘‘ممکن ہی نہیں۔ سینٹ کارکن ہونے کی امیدکھودینے کے بعد ایسے افراد میں سے ’’دھڑوں‘‘ اور حلقوں کی سیاست کرنے والے ڈیرے دار ناراض ہوکر ’’نئے آپشن‘‘ ڈھونڈنا شروع ہوجائیں گے۔شہباز شریف ان کی دلجوئی کے لئے اپنا کندھا پیش کرنے کو ہر صورت آمادہ ہوں گے۔

سیاسی عمل کو T-20جیسا ہیجان خیز معرکہ بناتے ہوئے ہم مذکورہ امکانات پر غور کرنے کو بھی تیار نہیں۔ہم صحافیوں نے ’’عمران خان وزیر اعظم رہیں گے یا نہیں‘‘ والے سوال کو فی الوقت ملکی سیاست کا کلیدی سوال بنارکھاہے۔ اس تناظر میں مارچ 2021کو ’’ڈیڈ لائن‘‘ دکھاکرپیش کیا جارہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہماری ’’خبریں‘‘ اور ٹی وی ٹاک شوز مارچ 2021کے ہدف تک پہنچنے کے لئے جاری ’’دوڑ‘‘ کی بابت ’’کون آگے کون پیچھے ‘‘ والی کمنٹری میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ سیاست بنیادی طورپر ایک طویل المدتی کھیل ہے۔

5روزہ ٹیسٹ کی طرح اس میں بھی ’’وقفے‘‘ آتے ہیں اور کلاسیکی کرکٹ کے اکثر مقابلے پانچ روز گزرجانے کے باوجود  Draw ہوجاتے ہیں۔کھیل ہارجیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوجاتا ہے۔اس فیصلے کے لئے آئندہ میچ کا انتظار ہی کرنا ہوتا ہے۔

2014کے بعد ہمیں یہ حقیقت بھی دریافت کرلینا چاہیے تھی کہ 126دنوں تک جاری رہا ’’دھرنا‘‘ بھی حکومت کو گھر بھیجنے میں ناکام رہتا ہے۔کرونا کے موسم میں فقط پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں عوامی شرکت کے اعتبار سے ’’تاریخ ساز‘‘ نظر آنے والے اجتماعات کی گنجائش فی الوقت میسر نہیں۔کرونا کے خوف کے باوجود مگر ہمارے ہمسائے میں مشرقی پنجاب سے چلتے ہوئے ہزاروں کسان گزشتہ کئی ہفتوں سے دلی کو محاصرے میں لئے ہوئے ہیں۔

مودی سرکار مگر ان کے اجتماع کے دبائو سے ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ تھائی لینڈ میں وہاں کے بادشاہ اور فوجی آمریت کے خلاف نوجوان طلباء کی ایک کثیر تعداد بنکاک کے چوراہوں پر گزشتہ چھ ہفتوں سے جمع ہورہی ہے۔ وہاں جو ’’باغیانہ‘‘ نعرے لگائے جارہے ہیں ان کا تصور بھی تھائی ثقافت کے پس منظر میں ذہن میں نہیں لایا جاسکتا تھا۔ ’’باغیانہ‘‘ مظاہروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کم از کم ایک مہینے سے تھائی لینڈ کی تاریخ اور سیاست پر نگاہ رکھنے والے اس ملک میں ایک بارپھر ’’مارشل لائ‘‘ کے منتظر رہے۔

مظاہرین کو وہاں کی حکمران اشرافیہ مگر مسلسل نظرانداز کررہی ہے۔عمران حکومت اسلام آباد میں PDMکی بدولت ہوئے ممکنہ لانگ مارچ اور دھرنے کو بھی نظر اندازکرسکتی ہے۔یہ نظراندازی مگر اسی صورت ممکن ہے اگر بازار میں قیمتوں کو کنٹرول کرتے ہوئے لوگوں کو مطمئن رکھا جائے۔شدید سردی میں گیس کی وافر فراہمی قابلِ برداشت قیمت پر میسر ہو اور چند ہی ہفتوں بعد IMFکے حکم پر بجلی کے نرخ بڑھانے سے گریز کیا جائے۔

بجلی اور گیس کی فراہمی اور ان کے نرخوں کے حوالے سے مگر اطمینان بخشتی فیصلہ سازی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ PDMکا تمسخر اڑانے میں اپنا وقت اور توانائی ضائع کرنے کی بجائے حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفرِ موج کو اس جانب توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).