شادی کے وعدے پر سیکس ہمیشہ ریپ کے زمرے میں نہیں آ سکتا، دلی ہائی کورٹ کا فیصلہ


 

سیکس

انڈیا میں دلی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ شادی کے وعدے کی بنیاد پر کیا گیا سیکس ہمیشہ ریپ کے زمرے میں نہیں آ سکتا۔ عدالت نے یہ مشاہدہ ایک خاتون کی جانب سے اپنے ساتھی پر لگائے گئے ریپ کے الزام کے مقدمے کی سماعت کے دوران دیا۔

عدالت نے خاتون کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر عورت اور مرد کے درمیان ایک طویل اور غیر معینہ عرصے سے جسمانی تعلقات چل رہے ہوں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سیکس شادی کے وعدے کے سبب تھا۔

خاتون نے ملزم پر شادی کے بہانے ریپ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ملزم نے ان کے ساتھ دھوکہ دہی کی، ان سے شادی کا جھوٹا وعدہ کر کے بار بار جنسی تعلق قائم کیا اور بعد میں دوسری خاتون سے تعلقات کے لیے انھیں چھوڑ دیا۔

جج وبھو باکھرو نے کہا کہ مخصوص حالات میں سیکس کو شادی کے جھوٹے وعدے کا موجب قرار دیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا: ’ایک مخصوص حالت میں ایک لڑکی جو سیکس کے لیے رضامند نہ ہو، شادی کے وعدے سے سیکس کے لیے متفق ہو سکتی ہے۔ ایک مخصوص حالت میں جب لڑکی نہ کہنا چاہتی ہو تو اس طرح کے وعدے سے اس کی رضا مندی مل سکتی ہے۔‘

عدالت نے کہا کہ صرف اس طرح کا معاملہ جس میں لڑکی کے جنسی استحصال کی نیت سے شادی کا جھوٹا وعدہ کیا گیا ہو واضح طور پر ریپ کے زمرے میں آئے گا لیکن اگر مرد اور عورت کے درمیان قریبی تعلقات چل رہے ہوں جس میں ایک لمبے عرصے تک جنسی تعلقات بھی قائم رہے ہوں تو ایسے تعلقات کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ پیار و محبت سے نہیں بلکہ شادی کے وعدے کے دھوکے میں قائم ہوئے۔

عدالت نے درخواست گزار خاتون کے الزام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شواہد سے یہ واضح ہے کہ انھوں نے ملزم سے اپنی مرضی سے جنسی تعلقات قائم کیے اور انھیں ان سے پیار تھا۔

سیکس

Science Photo Library

عدالت نے کہا کہ خاتون نے خود اپنی شکایت میں درج کیا ہے کہ سنہ 2008 میں ان کے ملزم سے جنسی تعلقات تھے اور تین چار مہینے بعد ملزم نے ان سے شادی کا وعدہ کیا اور وہ ان کے ساتھ اپنے گھر سے بھاگ آئی تھیں۔

عدالت نے کہا کہ اس بیان کی روشنی میں خاتون کا یہ الزام کے ملزم نے شادی کے وعدے کے ذریعے سیکس کے لیے انھیں رضامند کیا قطعی غلط ہے۔

‏عدالت کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ انڈیا کے بدلتے ہوئے سماجی پس منظر میں انسانی رشتوں کی نوعیت بھی بدل رہی ہے۔ دلی، ممبئی، کولکتہ، بنگلور اور دیگر بڑے شہروں میں بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اکثر شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔

یہ نیا رواج صرف تعلیم یافتہ، ملازم پیشہ نوجوانوں میں ہی نہیں شہر کی غریب اور ورکنگ کلاس آبادی میں بھی بڑھ رہا ہے اور بعض اوقات تعلقات خراب ہونے کی صورت میں لڑکی کی طرف سے ریپ کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

ملک کی معروف وکیل میرا بھاٹیہ کہتی ہیں کہ اس طرح کے مقدمات تیزی سے بڑھ رہے ہیں جن میں لڑکی کی طرف سے لڑکے پر شادی کے بہانے ریپ کا الزام عائد کیا جاتا ہے حالانکہ ہر معاملہ ریپ کا نہیں ہوتا۔

میرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں 2019 میں یہ فیصلہ سنایا تھا کہ دو لوگ ساتھ رہ رہے ہوں، تعلقات ختم ہو جاتے ہیں اور شادی نہیں ہوتی لیکن دونوں کے درمیان جنسی تعلقات کو رضامندی کا سیکس مانا جائے گا اور تعلقات ختم ہونے پر ریپ کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔‘

میرا کہتی ہیں کہ ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں یہی کہا ہے کہ رضامندی کے سیکس کو اچانک ریپ میں نہیں بدلا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp