بھوری


سردیوں کی یخ بستہ رات تھی۔
سکینہ تھر تھر کانپتی صاف ستھرے، نتھرے نتھرے ستاروں بھرے آسمان کو دیکھ رہی تھی۔

یکایک اس کی نظر ایک شعلے کی طرف لپکی، تاروں سے چم چم کرتے آسمان پر ، وقت کی بہت ہی چھوٹی سی اکائی کے ہزارویں حصے میں شعلہ لپکا اور غائب ہو گیا جیسے کسی کے گلے میں راگ اٹک گیا اور سانس کی ڈورٹوٹ گئی۔

”یہاں پالے میں کیوں کھڑی ہے؟“ حیات نے ماں سے پوچھا ”اس نے ماں کو سردی میں برآمدے میں کھڑے دیکھا تو پریشانی سے سوال کیا۔

پت، پانی پینے آئی تھی۔
”جیون جوگیا“ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ہر سانس کے ساتھ جیون کی دعا دیتے نہ تھکتی۔

” میری آنکھ کھلی تو سوچا کہ اپنی“ بھوری ”کو دیکھتی جاؤں، تجھے پتہ ہے نا وہ اس حال میں ہے۔ نظر تو رکھنی پڑتی ہے۔ دن پورے ہو گئے ہیں۔ وقت قریب ہے۔ وہ بہت سست ہو رہی ہے“ ۔ سکینہ نے تشویش سے بتایا۔

”اسے میں دیکھتا ہوں“
”تو جا جا کر اندر آرام کر “
”بہت پالا ہے بے بے“

اس نے پیار سے ماں کو مخاطب کیا۔ پھر تیز تیز قدم بھرتے بھوری والے ڈھارے کی طرف مڑ گیا۔ اس نے اپنے گرد گرم چادر لپیٹی اور کس کے بکل مار لی۔

وہ اپنے گھبرو پتر کی پشت پہ دعائیں باندھتی رہی۔ اس کا ابا بھی ایسے ہی بکل مارا کرتا تھا۔ یکایک اس کو خیال آیا۔ آسمان پہ لاکھوں تارے چم چم کر رہے تھے۔ ایک تارا ٹوٹنے سے بھلا اتنے بڑے آسمان کو کیا فرق پڑا؟

اس نے خود سے سوال کیا۔ کاش جو تارا ٹوٹا تھا وہ میرے نام کا نہ ہوتا۔ اس نے دکھ سے دہرایا۔ کاش وہ تارا جو ٹوٹا میرے نام کا نہ ہوتا۔

سکینہ کو بیوہ ہوئے سات سال ہونے کو آئے تھے پر کرم داد کا دکھ ابھی تک تازہ تھا، جیسے حقے کی چلم میں تازہ انگارے دہکتے ہوں اس کے دل میں غم کے بھانبڑ جلتے رہتے، عجیب غم تھا پرانا ہونے میں آتا ہی نہیں تھا۔ اس کا چہرہ پل بھر میں آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ کرم داد اس کے مقدر کا تارا تھا۔

بہت سے تارے صاف آسمان پر جگمگا رہے تھے۔ اس کے حصے کا آسمان خالی تھا۔
”اماں، تو ابھی تک ادھر ہی کھڑی ہے۔“ حیات علی عرف حاتو نے دور سے آواز لگائی۔
”بھوری نوں ست تے وی خیراں نیں تو دل
نوں فکراں نہ لایا کر ۔
بیٹے نے ماں کو تسلی دی۔

انہوں نے بھوری کے لیے طویلے کو گرم کرنے کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ لکڑی اور کوئلوں کی انگیٹھی دہکا نے سے ماحول قدرے بہتر تھا۔

ویسے پؤکی سخت سردی تھی اور منہ سے بھاپ نکل رہی تھی۔ دانت کٹکٹا رہے تھے۔
بیٹے کو بھوری کی طرف جاتے دیکھ کر وہ اپنے کھسے گھسیٹتی اپنے بستر کی طرف بڑھ گئی۔
، شکر شکر کا کلمہ پڑھتی لحاف منہ پہ لے کے سوتی بن گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حیات علی بھی اپنے بسترمیں دبک گیا۔

ایک تو رامو جو اس کا دیورتھا۔ کسی قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا۔ اول تو گھر میں ٹکتا ہی کب تھا اوپر سے اس کی دیورانی پھر امید سے تھی۔ وہ اکثر اپنی دیورانی کے بارے میں سوچتی رہتی کہ اس بار پتہ نہیں وہ بیٹے کی شکل دیکھ پائے گی یا نہیں مگر اس وقت اس کی تمام تر توجہ پھل دینے والی اپنی بھینس بھوری پر تھی۔

بھوری کے ماتھے پہ سفید ڈب تھا اور باقی رنگ بھورا سارے ڈنگروں میں اس کی چھب نرالی ہی تھی۔

یہ بھینس گاؤں کے چودھری نے سکینہ کے ابا کو دی تھی۔ جب چودھری نے دوسرا بیاہ رچایا تو وہ بہت خوش تھا۔

چونکہ یہ رشتہ سکینہ کے ابا شوکے میراثی نے کرایا تھا۔ اس کی دوسری ووہٹی جہیز میں دیسی ولائتی بہت سا سامان اور سونا اور ٹومبیں اور ان گنت بھینسیں لائی تھی۔ جس میں سے چودھری نے بھوری سکینہ کے باپ شوکے میراثی کو دے دی تھی جو اس نے اپنی بیٹی کے بیاہ پر سکینہ کو جہیز میں دے ڈالی تھی

ویسے تو اس طرح ”بھوری“ خالصتاً سکینہ کی تھی، پر اس کے سائیں کرم داد کی وفات کے بعد اس کو پالنے کا بندوبست اس اکیلی کے بس کا روگ نہ تھا یا شاید اس نے دیور کی بات کا مان رکھا، جب وہ بولا، ”بھرجائی میں بھوری کا خیال رکھوں گا۔ تب اس نے اپنا ڈنگر ادھ پہ اپنے دیور کو دے ڈالا۔

وہ کوشش کر رہی تھی کہ آرام سے سو سکے۔ وہ اپنا دھیان بار بار ہٹاتی مگر وہ دھیان ہی کیا جو اس کے قابو میں آ جاتا اتھری گھوڑی کی طرح بے قابو تھا۔

رات بھر بھوری میں اٹکا رہا

اس بار کے پھل پہ اس کے اور اس کے بیٹے کا نام تھا۔ اسے لگتا تھامقدر بھی اس کا ساتھ نہ دیتے پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا جب بھی ان کی باری آتی تقدیر ساتھ نہ دیتی۔

پچھلی بار کے پھل پہ رامو کا حق تھا تب تو ”بھوری“ نے کٹی کو جنم دیا تھا اور رامے نے گاؤں بھر میں لڈو بانٹے تھے بالکل ایسے لڈو جیسے اس کے مرحوم چہیتے سائیں کرم داد نے اپنے پہلوٹھی کے پتر کے ہونے پہ بانٹے تھے۔ وہ دیر تک حساب کتاب لگاتی رہی کب چاننا ہو گیا اسے گھپ گھور کوٹھڑی میں پتہ ہی نہ چلا

اس کی دیورانی کے ہاں تین لڑکیوں کی ولادت ہوئی تھی۔ اس کی دیورانی سہاگن تھی اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ دکھ سے ناآشنا تھی۔ وہ اپنے حصے کے دکھ چپکے چپکے سہہ رہی تھی۔ اب کے بار شاید رب سوہنا سن لے۔ وہ مسیتی تیل ڈالتے وقت دعا کرنا نہ بھولتی یا اللہ سوہنے اس بار میری دیورانی پتر کا منہ دیکھے۔ نروئی اولاد ہو۔ سکینہ دعا کے معاملے میں بڑے دل کی تھی۔ وہ ہر ایک کا بھلا سوچتی

وہ دیورانی جٹھانی تھیں۔ ایک دوسرے سے دل کا سارا دکھ سکھ کہہ دیتی تھیں۔ رامو دن بہ دن اپنی حرکتوں سے اپنی گھر والی کو پریشان کرنے لگا تھا۔ وہ بھی شرمسار رہتی۔ زیادہ شور کیسے کرتی وہ نر اولاد تو اسے دے نہ پائی

رامو نے اب تو چودھریوں کے ”دارے“ پہ ہی رہنا شروع کر دیا تھا۔ گاؤں بھر میں کوئی کچھ بولتا کوئی کچھ سکینہ بھی دکھ سے پاسے پلٹتی رہتی اور اس کی دیورانی داراں بھی۔ دونوں اندر کہیں سے خالی تھیں۔ سہاگن کا دکھ اور تھا بیوہ کا دکھ اور ایک دن دیورانی نے پوچھا کہ
بھرجائی اک گل تے دس ”سکینہ بولی، کی؟“
”تیرا دکھ وڈا اے یا میرا“
سکینہ ماتھا پکڑ کے بیٹھ گئی۔

دونوں ساگ بنانے بیٹھی تھیں۔ باتوں میں کام کا کیا پتہ چلتا جب دو کی بجائے چار ہاتھ چلتے کام پل میں نبٹ جایا کرتا تھا۔ اتفاق میں ڈاہڈی برکت تھی۔ بھرجائی کو لگتا کہ بیوگی کا دکھ ڈاہڈا اے پراس کی دیورانی ”داراں“ کو لگتا وہ سہاگن ہو کے بھی دکھی ہے۔ ”سر دا سائیں دل دی گل نہ سنے ایس نالو تے رنڈاپا چنگا۔“ سکینہ اسے ایسی باتیں کرنے سے منع کرتی تو وہ کہتی ”تو اونچا اونچا رو سکتی ہے بین ڈال سکتی ہے پر میں کی کراں“ میرا قصور کی اے

مینوں رب نے ”گجی“ مار ماری اے۔ بے شک تیرا دکھ تے سورج ورگا اے تے میرا دکھ بجھے دیوے ورگا پر دکھ تے دکھ ای اے ناں ”

گل سن، ”رب گجی یا کھلی مار نئی ماردا،
اوہ تے مکھن دے پیڑے ورگا اے ”

”سچا ستھرا تے پاک اناج تے دودھ ورگا۔“ جیون موت تے اودھے ہتھ وچ اے نا ”داراں بھرجائی کی بات کا جواب دیتی

کٹے، کٹیاں، کڑیاں منڈے
رزق سب اوہدی ہی تے مرضی اے ”
یہ سن کے سکینہ کہنے لگی ”
”اے تے سچ اے“
پر اے تے رب نہیں کہندا جے منڈے ہون تے لڈو ونڈو تے جے کٹے دی خبر آوے تے سوگ وٹا پالوو ”
اونہیں کدے نئی کہیا کہ سر دا سائیں چنگا نہ ہووے تے اونہوں چھڈ نئی سکدے
طلاق لینا گال کوئی نئی اینوں گال اساں آپ بنایا اے
داراں حیران پریشان بھرجائی کی باتیں سنتی گئی، پھر ہانڈی چڑھاتے بولی ”ساویاں مرچاں کینیاں پاواں۔“
اس کی عادت تھی کچھ نہ کچھ پوچھتی رہتی۔
ایک دم بولی
”بھر جائی تو وی نکاح کر لے“
سکینہ سیانی عورت تھی جواب دیا
”رب سوہنے نے تے منع نئی کیتا
کجاک پتر اے میرا ’میرے موہڈے تو اوچا لوکی کی کہن گے
میں نکاح کر سکنی آں جیویں تو کہنی ایں رامے نوں نئی چھڈ سکدی،
تین کڑیاں لے کے کتھے جاواں انج ای میں وی کجھ نئی کر سکدی بس اک کم کرتے اکو سبق یاد کر لے
”رکھی سکھی کھا گوپالا تے رج کے پانی پی تے ڈیٹھاں ونگو جی“
”دونوں دکھ سکھ کرنے میں رجھی تھیں
اے سارا کھیڈ فیر اونہاں دا اے جنہاں نے پرم پرا بنائے نیں تے فیر رب دے ذمے کیوں پا دیتا؟ کیوں؟
سکینہ بولی
”آہ رب تے ستھرا پاک ملائی تے مکھن دے پیڑے ورگا اے
”ہولی بول پر جائیے جے مولوی نے سنیا تے پنڈو بار کڈ دے گا“
دونوں ہنسیں
اتنی دیر میں پورے گھر میں تھر تھلی سی پڑ گئ
سب اکٹھے ہو گئے ایک نازک مرحلہ طے ہوا
اتنے میں حیات علی حاتو بھاگا آیا
”اماں، صندقچی چوں پیسے کڈ،“
”ایدکی آپا لڈو ونڈاں گے“
”بھوری نے اک ہور بھوری دتی“
گڑ۔ پیویاں دی کھل۔ لون دی ڈلی ہر شے کا بندوبست کیا گیا
بھوری کی ٹہل سیوا بنتی تھی نا۔
داراں حسرت سے دیکھ رہی تھی۔
یعنی آدھے دکھ سکھ پیسے تے قبضے نے بنائے ہوئے نیں
وہ بالوں کی لٹیں اور سوالوں کی گنجلیں کھولتی حیرت سے دیکھنے لگی۔

”واہ سوہنیا ربا۔“ وہ زور سے ہنسی۔ ایسے لگا دکھ نے کبھی اس گھر میں جھاتی ماری ہی نئی۔ پورے گھر میں بھاگ دوڑ شروع ہو گئی۔ چاندی کے ورق لگے لڈو تام چینی کے پھولدار رنگین تھال میں رکھ کے بانٹے گئے۔

بہت دنوں کے بعد سکینہ کو سکون کی نیند آئی۔ لے بھئی بھرجائی دے تے وارے نیارے ہو گئے نیں پتہ نہیں مینوں پتر رب نے دینا یا نہیں پتہ نہیں او دن آئے گا یا نہیں جدوں میں وی لڈو ونڈاں گی۔ داراں نے اپنے پیٹ پہ نرمی سے ہاتھ رکھا جیسے ٹٹول رہی ہو کہ اس بار بیٹا ہو گا یا بیٹی۔

آج داراں کے جاگنے کی باری تھی، وہ سوچتی رہی آدھے دکھ تو ربی ہوتے ہیں اور آدھے سببی جو دینے والا ہمیں سماج کا نیوندرا ہوتا ہے۔ بات اس کی سمجھ میں آ رہی تھی۔ یہ یخ بستہ رات پہلی راتوں سے زیادہ ٹھنڈی تھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).