کریمہ بلوچ اور دلیل کا مقدمہ


خادم کا بنیادی مقدمہ عقلیت اور دلیل ہے۔ اور اس کی اک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ہر قسم کا لیجنڈ اپنی بنت میں احمقانہ محسوس ہوتا ہے۔

بہن کریمہ بلوچ مبینہ طور پر 20 دسمبر کو ٹورنٹو سے غائب ہوئیں اور پھر دو دن بعد ، یعنی 22 دسمبر کو ان کی لاش ملی۔ خادم ان کے سیاسی مقدمے میں دو رخ دیکھتا ہے :

1۔ وہ بلوچستان کی آزادی چاہتی تھیں : مجھے اس سے کوئی اتفاق نہیں۔ 2010 کے بعد ، بلوچستان میں جاری مسلح کارروائیاں عین ویسے ہی دہشتگردی ہیں، جیسے طالبان دہشتگردی کیا کرتے تھے۔ محترم اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ، 2010 تک بلوچ، پاکستانی نظام سیاست میں اپنا مقدمہ مضبوط طریقے سے استوار کر چکے تھے۔ تشدد اور دہشتگردی کی بہرحال اپنی معیشت ہوتی ہے، اور اس پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے اکثر نہیں، بلکہ تمام کے تمام رہنما گزرتے وقت کے ساتھ اپنے اپنے سیاسی و معاشی مفادات کے اسیر ہوتے ہیں۔

2۔ پاکستانی ریاست بلوچوں کے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہی: مجھے اس سے اتفاق ہے۔ بلوچوں کا سیاسی مقدمہ، بلوچوں سے بہتر کوئی نہیں لڑ سکتا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بلوچوں کے ساتھ، تاریخی طور پر زیادتیوں کی اک طویل فہرست موجود ہے، اور اس Realpolitik میں کسی بھی باشعور اور محب الوطن پاکستانی کو ریاست کے حوالے سے اپالوجسٹ ہونے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہونی چاہیے۔

دلچسپی اب بھی قائم ہے، مگر جب بلوچستان کے معاملات پر لکھا کرتا تھا تو یہی مدعا رہا تھا کہ جاری شدہ تشدد میں فریقین کو اک اک قدم پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے، اور پہل ریاست کو کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر مالک صاحب کے دور میں اس طرف معاملات گئے بھی تھے، مگر پھر اسی پراسیس کے دوران، پاکستانی ریاست کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں نے کھٹائی کی اور معاملہ تب سے، شاید اب تک، جامد ہے۔ بلوچستان کے مقدمہ کو سیاسی انداز میں دیکھنے اور حل کرنے کی ضرورت ہے، تشدد کوئی حل نہیں ہوتا۔ مگر Realpolitik کی ہی دلیل ہے کہ جس کے پاس تشدد کی بڑی طاقت ہوتی ہے، اور جو تشدد کو زیادہ دیر تک چلا سکتا ہے، وہ چھوٹے تشدد والی طاقت کو کچلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس سلسلہ میں خرابی بہت ہوتی ہے، اور اس میں اکثر، عوام ہی کھیت رہتے ہیں۔

بہن کریمہ بلوچ کی پراسرار موت کے حوالے سے بھارتی میڈیا اور ”آسانی کے پاکستانی لبرلز کے لہوری گروپ“ سے متاثرہ افراد پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں کے حوالے سے مسلسل چوٹیں کر رہے ہیں، اور اک فضا بنائی جا رہی ہے کہ جیسے یہ کام پاکستانی ریاست نے کیا، یا کروایا ہے۔ اس معاملہ میں، ہمیں فی الحال The jury is out والا رویہ ہی رکھنا چاہیے، گو کہ کچھ ایسا پروپیگنڈا، سویڈن میں ساجد حسین بلوچ کی گمشدگی اور پھر قتل کے حوالے سے بھی پایا گیا تھا، جو بعد میں جھوٹا نکلا۔

میں ریاست، اس کے اداروں اور ان کے اقدامات پر تنقید کا حامی ہوں۔ اس لیے نہیں کہ ”مجھے بچپن سے ہی تنقید کرنے کا شوق تھا،“ بلکہ، اس لیے کہ یہ عین حب الوطنی اور شعور کا تقاضا ہے۔ میں بات کو طریقے، تہذیب، اسلوب اور طنز و مزاح کے پیرائے میں کرنے کا حامی ہوں، اور یہ اس لیے نہیں کہ گھٹی خوف کی لی ہوئی ہے۔ اس لیے کہ گفتگو کرنے اور بات کو پھیلانے کا یہی طریقہ درست رہتا ہے۔

پھیلائی جانے والی ردعمل کی مسلسل منفیت کے کنزیومر بھاری قیمتیں ادا کرتے ہیں، جب کے اس عمل کے لیڈرز، شام کے وقت اپنی اپنی وائنز پی کر موج مستیاں کرتے پھرتے ہیں، اور یہ اصول، معاشرتی سیاست کے تمام شعبوں پر لاگو ہوتا ہے۔ ملٹری ازم صرف اسلحہ استعمال کرنے کا نام نہیں ہوتا، یہ کام زبان، اور اب سوشل میڈیا سے بھی سرانجام دیا جاتا ہے۔

بلوچ اپنا بہت نقصان کر بیٹھے ہیں۔ انہیں رک کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ریاست بھی اس نقصان میں بڑی حصہ دار ہے۔ اسے بھی رک کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ میں چونکہ عام شہری ہوں تو، اس حوالے سے اپنا تعلق، عام بلوچ اور اس کے مسائل کے ساتھ زیادہ محسوس ہوتا ہے تو کہتا ہوں کہ موجودہ تشدد کی کیفیت، عام لوگوں کے لیے فائدہ مند نہ تھی، نہ ہے، نہ ہو گی۔ سیاست کے میدان میں، زبانی یا جسمانی تشدد کے خلا میں موجود لوگ Realpolitik کے گنجلک دائروں میں دوسروں کے ہاتھوں بہت آسانی سے استعمال ہو جاتے ہیں۔

خدا بہن کریمہ بلوچ کے درجات بلند کرے، اور کینیڈین حکومت اس راز کی تہہ تک پہنچے۔ ریاست اور سیاست کے اک شوقین طالبعلم کی حیثیت سے جانتا ہوں کہ جاری شدہ پروپیگنڈا غلط ثابت ہو گا۔
مکرر: خادم کا بنیادی مقدمہ عقلیت اور دلیل ہے۔ اور اس کی اک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ہر قسم کا لیجنڈ اپنی بنت میں احمقانہ محسوس ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).