2020 کے جاتے جاتے


سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، ہفتے، ماہ و سال تو ہم نے سیاروں ستاروں کی گردش کے محتاج ہو کر بنائے ہیں مگر وقت دائمی رہا۔ وقت سے متعلق مابعدالطبعیات کیا کہتی ہے اور سائنس کیا، اس سے ہم فانی انسانوں کو بھلا کیا غرض جو پیدا ہی مرنے کی خاطر ہوتے ہیں مگر ہم دنیا میں موجود وقت کی اکائیوں سے بندھے ہوئے ضرور ہیں۔ وقت سے متعلق عمومی جھوٹ تو ہم عام ہی بولتے ہیں کہ ایک سیکنڈ یار جو سیکنڈ کی بجائے منٹ ہوتا ہے۔ بس ایک منٹ میں پہنچا، چاہے گھنٹے کے بعد پہنچیں۔

کام بس گھنٹے میں ہو جائے گا چاہے ہونے میں دو دن لگ جائیں، ہفتہ، مہینہ، سال، کئی سال یا کبھی نہ ہو۔ اس کے باوجود ہم نے گھڑیاں باندھی ہوتی تھیں، اب یہ کام موبائل اور ٹیبلٹس دینے لگے ہیں۔ جس وقت نے بھلے کے لیے صرف ہونا ہوتا ہے وہ یقیناً ہوتا ہے اور جس وقت نے ضائع ہونا ہوتا ہے، وہ ہو کر رہتا ہے، یہ ہم جیسوں کا خیال ہے۔ مگر ایسے افراد تو کیا پوری کی پوری ایسی اقوام موجود ہیں جنہوں نے اپنے وقت کو کام اور تفریح کے خانوں میں تقسیم کیا ہوا ہوتا ہے لیکن ہم میں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو نہ تفریح کرتے ہیں اور نہ کام وہ بھلا وقت سے متعلق کیا جانیں۔ وقت کی اہمیت سمجھنے اور ناقدری کرنے کا معاملہ تو بعد کی بات ہوگا۔

میں اپنے وقت کو امریکہ جانے اور وہاں سے لوٹ انے کے بعد میں تقسیم کرتا ہوں۔ میں امریکہ 13 دسمبر 1999 کو گیا تھا اور ایک سال کاٹ کر 13 دسمبر 2000 کو لوٹ آیا تھا۔ اس کے بعد کبھی امریکہ نہیں جا سکا۔ البتہ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں کل امریکہ گیا تھا۔ آپ نے شاید سوچا ہو کہ امریکہ جانے سے وقت کو کیوں باندھ دیا۔ وجہ یہ ہے کہ میں 9 مئی 1999 کو پیش آئے ایک حادثے کے بعد مر کر زندہ ہوا تھا۔ اب یہ بھی عقدہ ہے کہ مر کر بھلا کوئی زندہ ہوتا ہے مگر میں ہوا تھا۔

لگنے کو تو لگتا ہے کہ یہ واقعہ کل کی بات ہے مگر اس اثنا میں مجھ سے بہت کچھ سرزد ہوا۔ میں نے ہزار کے قریب مضامین لکھے۔ پانچ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے تین شائع ہوئیں دو غیر مطبوعہ ہیں۔ انٹرنیٹ کا استعمال شروع کیا پھر سوشل میڈیا، خاص طور پر فیس بک کا استعمال کیا۔ اس پر ہزاروں شذرے لکھے، تھوڑی سی شاعری بھی کی۔ کئی نئے دوست بنائے۔ ریڈیو صدائے روس کے ساتھ منسلک ہوا۔ پاکستان میں اس کے سامعین کی چار کانفرنسیں کروائیں۔ کئی ملک دیکھے۔ چھہتر سال کے بعد ریڈیو روس کی اردو سروس بند ہوتے دیکھی۔ بیس نئے سال منائے اب یہ اکیسواں ہوگا، انشا اللہ۔ ان عمومی واقعات و اعمال کے علاوہ خالصتاً ذاتی زندگی کے بھی کئی واقعات و اعمال ہیں۔

پھر ایسا کیوں لگتا ہے کہ امریکہ جانا جیسے کل کی بات ہو۔ اس کا تعلق شاید اس سے ہو کہ پھر سے جی جانے کے بعد یہ ایک سال پر محیط واحد واقعہ تھا ویسے تو میں جی جانے کے بعد مختصر مدت کے لیے یورپ کے پانچ چھ ملکوں میں بھی گیا تھا۔ امریکہ کچھ باتوں میں بالکل نیا ملک تھا۔ امریکہ میں رہنے کی خواہش بھی تھی اور وہاں سے بھاگ لینے کی جلدی بھی۔ روس میں میری زندگی کے 29 برسوں میں سے یہ ایک سال منہا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے یہ بہت یاد رہ گیا اور کل کی بات لگتی ہے۔

2020 میں مجھ سمیت سبھوں کے ساتھ اچھے اور برے معاملات ہوئے ہوں گے ۔ کچھ کے ساتھ سب اچھے اور کچھ کے ساتھ سب برے بھی لیکن اکثریت کے ساتھ دونوں بلکہ پاکستان جیسے ملکوں میں رہنے والوں سبھوں کے ساتھ کیونکہ آپ ملکی معاشی و سیاسی حالات کو علیحدہ نہیں کر سکتے۔ ہم ہر برس دیکھتے ہیں کہ اخبارات جائزہ لیتے ہیں، اس برس میں کیا کھویا کیا پایا مگر ایسے ملکوں میں کھونے کا عمل جاری رہتا ہے اور پانے کا عمل سست بلکہ بیشتر اوقات بہت ہی سست۔

قانع ہونا اچھی بات ہوتی ہے مگر مجبور ہونا کوئی اتنی اچھی بات نہیں ہوتی۔ پھر ہمارے ملکوں کی تو ساری کی ساری آبادیاں مجبور ہوتی ہیں۔ اگر مجبور نہ ہوتیں تو کم از کم اپنے ووٹ کا درست استعمال سیکھ لیتیں۔ اپنی حالت بدلنے سے پہلے ایسے لوگوں کو چنتیں جو ملک کی حالت کو کچھ تو بدل دیں۔ چلیں کوئی بات نہیں 2021 آ رہا ہے۔ دیکھ لیں گے کہ بات آوے ای آوے، جاوے ای جاوے سے نکل کر کچھ ہو۔

کہتے ہیں کہ دنیا مابعد النظریہ جاتی سیاست سے نکل چکی ہے۔ اس پوسٹ آئیڈیولوجیکل عہد میں لوگ نظریے کا چارہ نہیں چرتے بلکہ عملی کام کر کے دکھانے والوں کو اپنا نمائندہ چنتے ہیں۔ دو ایک بڑے شہروں میں میگا پروجیکٹ مکمل کر کے ووٹ بینک کو محفوظ بنانے والوں کو نہیں بلکہ ملک بھر میں بنیادی جیسے صاف پانی، تعلیم پانے اور صحت کا خیال رکھے جانے کی سہولتیں فراہم کرنے والوں کو۔ مگر ہم ہمیشہ دنیا سے پیچھے ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں پارٹیوں کے پاس پروگرام چاہے ہوں یا نہ ہوں، نظریہ ضرور ہوتا ہے اور وہ بھی مارکس سے بڑے، عمران خان کا، نواز شریف کا، آصف زرداری یا ان کے فرزند بلاول کا خیر آصف تو چالاک ہیں انہوں نے تو سسر کے نظریے کی ہی پیپنی بجانی ہوتی ہے۔

ہمارا مخمصہ وقت جلدی گزرنے کے احساس کا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ چالیس برس کی عمر کے بعد وقت تیزی سے گزرنے کا احساس ویسے بھی زیادہ ہونے لگتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی 25 سال سے کم عمر کی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا اور جو 25 برس بعد کے گھوڑے ہیں انہیں پورے پورے کنبوں کو جیتے رکھنے کی خاطر اتنے کام کرنے پڑتے ہیں کہ وہ تفریح کا سوچ ہی نہیں سکتے اور کام، کام بھی ایسے ہوتے ہیں جن سے ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ جس کو آرٹسٹ بننا تھا وہ ڈاکٹر بنا بیٹھا ہوتا ہے جسے ڈاکٹر بننا تھا وہ انتظامیہ کا افسر۔ چنانچہ یہی لگنا ہے کہ وقت رسے تڑا کر بھاگا جا رہا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہم مرنے سے کچھ زیادہ ہی ڈرتے ہیں۔ مرنے سے تو بچ نہیں سکتے مگر یہ سوچنے سے بھی نہیں بچ پاتے کہ ہمارے مرنے کے بعد پیچھے رہ جانے والوں کا کیا ہوگا؟ بھئی جو بھی ہوگا، کم از کم آپ مرحوم و مغفور اس میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گے اس لیے پرسکون ہو جاؤ۔ قانع ہونا سیکھو۔ نہ اتنا بناؤ کہ اس کی تقسیم سے متعلق مرنے سے پہلے ہلکان ہوتے رہو اور نہ اتنے تہی دامن ہوں کہ آپ کے پیچھے بچنے والے آپ کی تکفین و تدفین کے لیے محتاج ہوں۔ مگر آپ کہیں گے کہ میں کیا کر سکتا ہوں، وہی ہوتا ہے جو مقدر ہوتا ہے۔ صحیح جب ریاست اپنی آبادی کے لیے کچھ نہیں کرے گی تو آبادی کو قسمت پر ہی تکیہ کرنا پڑے گا اور اللہ پر بھروسا۔ ویسے بھی ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر پتہ تک نہیں ہلتا۔

2020 نے تو دنیا ہی بدل ڈالی۔ نومبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے نوویل کورونا کا جن کیا نکلا کہ اس نے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ دنیا کی آٹھ کروڑ آبادی میں گھس گیا، ساڑھے سترہ لاکھ کے قریب لوگوں کی جان لے لی۔ ابھی معلوم نہیں کہ کتنے اور لاکھ جان سے جائیں گے۔ دنیا میں رہنے کا چلن بالکل بدل چکا ہے۔ میں 12 مارچ سے یکم اکتوبر تک پاکستان میں اپنے پیدائشی گھر میں محبوس رہا تھا اور اب تک بلکہ حکومت کے حکم کے مطابق ماسکو روس میں مجھے 15 جنوری 2021 تک گھر کے آس پاس کے علاوہ کہیں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس بندش میں میری عمر کا بھی قصور ہے جو پینسٹھ برس سے زائد ہے۔ کورونا کا جن بوڑھوں کو تنگ کرنے یا نگلنے کا عادی تھا مگر 13 دسمبر 2020 سے برطانیہ میں اس نے دوسری شکل اختیار کر لی ہے اور اب بڑوں کی بجائے بچوں اور جوانوں میں بھی سرایت کرے گا۔

ویکسین بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ جو بن چکیں ان کو خریدنے میں امیر ملکوں کی حکومتیں غریب ملکوں کی حکومتوں کو جو رعایتاً یا خیرات میں ویکسین پانے کی محتاج ہیں، کو نہ صرف پیچھے دھکیل رہی ہیں بلکہ اپنی ضرورت سے دگنی، تگنی پیشگی رقوم ادا کر کے خرید چکی ہیں۔ ساری دنیا میں نہ جانے کتنی ویکسین سالانہ بن سکے گی یوں 2021 بھی کوئی بہتر سال نہ ہوگا جبکہ معیشتیں پہلے ہی گر چکی ہیں۔ غربت بڑھ چکی ہے، مہنگائی غریبوں کے لیے کورونا سے سے زیادہ ڈراؤنی ہو چکی ہے۔

بہرطور آپ سب کو 2021 عدد کے نئے برس کی پیشگی مبارک باد!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).