کیا ہم نے نفرت کی کوکھ سے جنم لیا ہے؟


38th parallel شمالی اور جنوبی کوریا کا درمیانی بارڈر ہے۔ جو سرد جنگ کا ایک پراڈکٹ ہے جسے 1948 میں سویت یونین اور امریکہ نے اپنی رسہ کشی میں بانٹ دیا۔ ایک سوشلسٹ ریاست کا قیام Kim Il sung کی قیادت میں عمل میں لایا گیا جس کی معاونت چائنا اور سویت یونین کر رہی تھی۔ جبکہ جنوبی حصہ میں امریکی حمایت سے Syngman Rheeکی سربراہی میں اینٹی کمیونسٹ اسٹیٹ قائم کی گئی۔ دونوں ریاستیں پورے جزیرہ نما کوریا کی دعوی دار ہے اور بارڈر کو تسلیم نہیں کرتی۔

25 جون 1952 کو شمالی کوریا کی ملٹری جسے چین اور روس کی حمایت حاصل تھی جنوبی کوریا کے بارڈر کو کراس کر گئی۔ اقوام متحدہ کے ادارے سیکیورٹی کونسل نے یونائیٹڈ نیشن کمانڈ بنانے کی منظوری دی اور افواج کو کوریا بھجوا دیا تا کہ شمالی کوریا کے جارحانہ اقدام کا موثر جواب دیا جا سکے۔ 29 ممالک کے اس اتحاد میں 90 فیصد امریکہ کے فوجی تھے۔

جنگ کے پہلے دو ماہ میں ہی جنوبی کوریا اور امریکی افواج نے شمالی کوریا کو شکست سے دوچار کر کے ڈیفینسیو لائن جیسے Pusan Perimeter کہتے ہیں سے پیچھے دھکیل دیا۔ اقوام متحدہ کی افواج نے ستمبر 1950 کو شمالی کوریا کی حدودد میں داخل ہوئیں اور جلدہی دریائے یالو تک پہنچ گئیں جو کہ چین کے بارڈر کے پاس بہتا ہے۔ لیکن 19 اکتوبر 1950 چائنا کی People ’s Volunteer Army نے دریائے یالو کو پار کیا اور جنگ میں داخل ہو گئی۔

اس سرپرائز نے اقوام متحدہ کی افواج کو واپس 38th Parallel پہ آنے پہ مجبور کر دیا اس جنگ میں پہلی بار جنگی جہاز ہوا سے ہوا میں مقابلے پہ آئے. جنگ 27 جولائی 1953 کو Korean Armistice Agreement کے نتیجے میں ختم ہوئی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں کورین ڈی میلٹری زوون قائم کیا گیا جس سے شمالی کوریا کو جنوبی کوریا سے الگ کیا گیا۔ کوریا کی جنگ میں تیس لاکھ سویلین لقمہ اجل بنے۔ یہ تعداد دوسری جنگ عظیم میں مرنے والے سویلین سے بھی زیادہ ہے۔

جنگ تاحال جاری ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں تمام بڑے شہر ایک مرتبہ تباہ ہو گئے۔ دونوں اطراف میں اجتماعی قتل غارت کے کئی واقعات زخموں پہ نمک کا کام بھی کرتے ہیں۔ دس ہزار کمیونسٹ جنوبی کوریا کے ہاتھوں ایک بار مارے گئے اسی طرح جنگی قیدی شمالی کوریا کی جیلوں میں تشدد اور بھوک کے نتیجے میں جان کی بازی ہار گئے یہ واقعات کوریا کے دونوں جانب ابھی تک یاد کیے جاتے ہیں۔ لیکن سمجھدار قیادت نے یکم جنوری 2018 نیک پیغامات بھیجے اور اپریل 2018 میں دونوں سربراہان ڈی ملٹری ذون میں اچانک ملنے آ گئے۔ یہ ایک سرپرائز تھا لیکن بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک آ گئی کہ اب اطراف میں یہ اس بات کی شدت محسوس کی جا رہی ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے علاقے کو پاک کیا جائے۔

اب ایک اور نیا سال ہماری دہلیز پہ دستک دے رہا ہے اور منتظر ہے کہ برصغیر میں بھی کوئی Kim Jong unاور Moon Jae in واہگاہ بارڈر پہ ملنے آ جائیں ان کے حالات شمالی کوریا اور جنوبی کوریا سے ہرگز مختلف نہیں ہیں۔ نہ پاک بھارت جنگوں میں مرنے والوں کی تعداد کوریا کی جنگ میں مرنے والوں کی تعدادسے زیادہ ہے۔ نہ ہی کبھی پاکستان اور نہ بھارت میں کسی حراستی مرکز میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے۔ پاکستان اور بھارت کے پاس دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

ہمارا ماضی جتنی قرابت میں گزرا ہے رقابت کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم بھارت کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں جیسے ہم نے بھارت کی غلامی سے آزادی حاصل کی ہے۔ جن کی غلامی سے ہم نے آزادی حاصل کی ہے ان سے پہلے دن سے ہماری پینگیں بڑھی ہوئی ہیں۔ بھارت کا بھی یہی رویہ اب وہاں کی اقلیتوں سے ہے جبکہ اس کے سمجھنے کی یہ بات ہے کہ ہندوستان کی تقسیم اقلیتوں کے حقوق سے ہی شروع ہوئی تھی۔

برطانیہ نے 1892 کے انڈین کونسل ایکٹ نے جب جمہوری اداروں کی بنیاد رکھی تو کانگریس کے رویوں نے مسلمانوں کا یہ احساس پختہ کیا کہ شاید انہیں جمہوری ادوار میں مذہب کی نگاہ سے دیکھا جائے گا کانگریس کے دور اندیش لوگوں نے میثاق لکھنو میں اس چیز کا ادراک کر لیا تھا اور ناصرف مسلمانوں کے جداگانہ انتخاب کے مطالبے کو منظور کر لیا بلکہ جن صوبوں میں مسلمان کم تعداد میں تھے وہاں ان کی تعداد سے زیادہ نشستیں بھی قبول کر لی گئی۔

یہ دادا بھائی نوروجی، گھوکھلے جیسے رہنماؤں کی بصیرت تھی لیکن جب کانگریس کی بھاگ دوڑ لال۔ بال۔ پال کی مثلث سے ہوتی ہوئی نہرو اور گاندھی کی نئی پیڑھی کے پاس آئی تونئی پیڑھی کی قیادت کی دوڑ میں بصیرت کھو گئی۔ قائد اعظم محمد علی جنا ح نے 1940 تک یہی کوشش کی کہ کسی طرح سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی آئینی ضمانت حاصل ہو جائے۔ لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنسز میں بھی جناح اسی ایک نقطہ پہ مرتکز رہے۔ یہاں تک کہ سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کے ایشو پہ مسلم لیگ میں پڑنے والی پھوٹ گوارا کر لی لیکن کانگریس کو اس لیے سپورٹ کیا کہ اقلیتوں کو آئینی تحفظ کا کوئی مشترکہ فارمولا تشکیل پا جائے۔

آج دونو ں اطراف اقلیتیں بدترین زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں ایک نئے بٹوارے کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ ایک نئی دشمنی کو جواز فراہم کیا جا رہا ہے ہم نے 72 سالوں کی دشمنی سے بھوک افلاس، اور تھرڈ ورلڈ کے طعنوں کے سوا کیا حاصل کیا ہے جو اگلی نسلوں کو بھی ایسی ہی نئی دشمنیاں ورثے میں دینے کا اہتمام کر رہے ہیں کوریا سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ہم نے کوریا جتنی تباہی نہیں دیکھی اگر کوریا کے دونوں حصے آپس مین بات چیت کے لیے بارڈر پہ آ کر مل سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ ہم ہزار سال سے زائد عرصے تک امن کے داعی رہے ہیں دشمنی کا وقت بہت تھوڑا ہے محبت کے زمانے کی نسبت۔

ایک ایسی دشمنی جس کے پاس کوئی جواز نہیں وہ ڈیڑھ ارب لوگوں کی زندگی نگلنے کے در پہ ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین جنگ محض انا کی تسکین کے لیے لڑرہے ہیں۔ ہم نے جوہری طاقت حاصل کی، میزائل پروگرامز کو ڈویلپ کیا، لیکن اگر نہیں کر سکے تو بھوکے کو کھانا نہیں دے سکے، بے گھر کے گھر کا بندوبست نہیں کر سکے اور ننگے بدنوں کو لباس سے آراستہ نہیں کر سکے۔ پاکستان نے یہاں بسنے والی اقلیتوں سے ان کی قوموں کے اعمال کی پاداش میں بے گھر کیا۔

50 کی دہائی میں عرب اسرائیل جنگ کی صورت میں یہاں کا یہودی یہاں سے نکل مکانی کر گیا۔ 65 کی جنگ کے بعد یہاں کے ہندو کی زندگی بھی اجیرن ہو گئی۔ یہی کام افغان سرداروں کے ہزار سالہ دور اقتدار کا بدلہ وہاں کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں وہاں کے مسلمانوں سے لے کر کر رہی ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنہوں نے پاکستان پہ ترجیح دے کر ہندوستان کو چنا تھا۔ انہوں نے گاندھی جی، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا آزاد اور نہرو کی ہمدردانہ اپیل کو منظور کیا تھا۔

غیر ممالک کا کاروبار ہماری دشمنی سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارے اپنے ہاں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی روٹی اس دشمنی سے جڑی ہے۔ ہمیں ان دونوں کا ادراک ہونا چاہیے۔ دنیا امن کے لحاظ سے اپنی تاریخ کا پر امن ترین دور دیکھ رہی ہے جب براہ راست کوئی سے دو ممالک علانیہ جنگ کی حالت میں نہیں ہے اگر اس کی گہرائی میں جھانکیں تو دو باتیں اچھی طرح معلوم ہو تی ہیں کہ دنیا نے یہ مقام دو فیکٹرز کی وجہ سے حاصل کیا ہے۔ پہلا گلوبلائزیشن اور دور ایک دوسرے پہ انحصار کرنایا ایک دوسرے سے مفادات کا جڑا ہونا۔ یہ ممالک کی ترقی کا زمانہ نہیں ہے یہ خطوں کی ترقی کا زمانہ ہے۔ ممالک آپس میں جڑ رہے ہیں اور ہم ہیں کہ نفرت کی دیواروں کو اور بلند کرتے جا رہے ہیں۔

ہمیں دونوں ممالک میں ابلاغ کو رسائی دینی چاہیے۔ دونوں ممالک میں ہونے والی پیش رفت سے دونوں ممالک کی عوام باخبر رہے۔ لوگوں کی آمدو رفت کو یقینی بنایا جائے جس سے دونوں اطراف جذبات کا تبادلہ ممکن ہو گا۔ بھارت کے ہندووں اور سکھوں کی مذہبی مقامات تک رسائی کا پروگرام انتہائی خوش آئند ہے۔ بھارت بھی اولیا اللہ کے درباروں تک پاکستانی مسلمانوں کو آسان رسائی دے۔ بارڈر کو جتنا غیر موثر بنایا جا سکے بنایا جائے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو فیورٹ قرار دینے والا فیصلہ پھر سے لیں آپس میں لین دین بڑھایا جائے۔ بھارت آٹوموبائل انڈسٹری اور ٹیکنالوجی میں پاکستان سے آگے ہے پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ ملنا چاہے۔

بھارت انرجی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایران سے گیس کی خریداری کا خواہشمند ہے پاکستان کو اس پہ رضامندی کا اظہار کر دینا چاہیے ساتھ ہی چین کی طرز پہ بھارت سنٹرل ایشائی ممالک تک زمینی راستہ بھی چاہتا ہے ان دونوں عوامل سے بھارتی معاشی ترقی اپنی معراج پہ پہنچ سکتی ہے لیکن یہ ترقی برحال پاکستان کی مرہون منت رہے گی۔ کوئی بھی ملک کسی ایسے ملک کے اندرونی حالات میں خرابی کا خواہشمند کبھی نہیں ہو سکتا جس سے اس کی ترقی کی ڈور جڑی ہے۔

ایکد وسرے پہ انحصار اختلافات کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ 72 سال کی زہر آلود گھٹن کے بعد اب امن کی موقعہ ملنا چاہیے۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے سربراہان کی طرح ہمارے بڑے بھی بارڈ پہ ملیں۔ بارڈر پہ گلاب کے پھول اگانے کی ضرورت ہے تاکہ بارود کی بدبو سے انسانی زندگی متاثر ہونا بند ہو۔ جرمنی تقسیم ہوا لیکن عوامی شعور انہیں الگ نہ کر سکی۔ جاپان پہ امریکہ نے ایٹمی حملہ کیا لیکن 2016 میں دونوں طرف سے معافی مانگ کر ماضی کو بھلانے کی درخواست کی گئی۔ کوریا بھی 30 لاکھ لوگوں کی لاشوں کو کندھوں پہ اٹھانے کے باوجود بدل رہا ہے۔ تو پھر ہم کیوں نہیں بدل سکتے؟ کیا ہم نے نفرت کی کوکھ سے جنم لے رکھا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).