کورونا وائرس: سری لنکا میں مسلم بچے کی میت کو زبردستی جلانے پر کووڈ 19 کے حکومتی قوانین پر تنقید


A Sri Lankan Muslim holds a placard as he demonstrates near the office of President Gotabaya Rajapaksa, in Colombo on December 16, 2020.
مذہب اسلام میں کسی مردے کی لاش کو جلانا منع ہے
سری لنکا میں سرکاری حکام کی جانب سے ایک مسلمان نوزائیدہ بچے کی وفات کے چند دن بعد وفات پر تدفین کی بجائے اس کی لاش کو جلا دینے پر ملک کے متنازع کووڈ 19 قوانین پر ایک بار پھر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

حکومت کے ناقدین کہتے ہیں کہ کووڈ سے متاثرہ مریض کو جلائے جانے کا یہ فیصلہ سائنسی بنیادوں پر نہیں لیا گیا ہے بلکہ اس سے مسلمان اقلیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

محمد فہیم اور ان کی اہلیہ فاطمہ شافنہ بے انتہا خوش تھے جب ان کے یہاں چھ سال کے انتظار کے بعد 18 نومبر کو ایک بچے کی ولادت ہوئی۔ لیکن ان کی خوشی بہت تھوڑے عرصے کے لیے قائم رہی۔

سات دسمبر کو انھیں علم ہوا کہ ان کے بچے کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے جس پر وہ اسے سری لنکا کے دارالحکومت کولومبو میں بچوں کے ہسپتال، لیڈی رج وے لے گئے۔

یہ بھی پڑھیے

سری لنکا: کورونا سے ہلاک مسلمانوں کی میتیں جلائی کیوں جا رہی ہیں؟

کورونا وائرس: ’بھائی کی لاش کو چھ دن تک فریزر میں رکھنا پڑا‘

کیا کورونا وائرس لاشوں سے بھی پھیل سکتا ہے؟

بچے کے والد محمد فہیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ ہسپتال گئے تو وہاں حکام نے بتایا کہ ‘بچے کی حالت بہت نازک ہے اور اسے نمونیا ہے۔ پھر رات گئے انھوں نے اس کا اینٹی جین ٹیسٹ کیا اور بتایا کہ بچے کو کورونا وائرس ہے۔‘

ڈاکٹروں نے فہیم اور ان کی اہلیہ کا بھی ٹیسٹ کیا لیکن وہ منفی آیا۔

فہیم کا کہنا ہے کہ ’میں نے ڈاکٹروں سے پوچھا کہ میری اولاد کو کیسے کووڈ 19 ہو سکتا ہے جب ہم دونوں کو نہیں ہے۔‘

لیکن دونوں ماں باپ کی اپیل کے باوجود ہسپتال حکام نے انھیں گھر بھیج دیا اور کہا کہ مزید ٹیسٹس کرنے کی ضرورت ہے اور وہ فون کے ذریعے ہسپتال سے رابطہ کریں۔ اگلے دن انھیں اطلاع دی گئی کہ بچے کی موت واقع ہو گئی ہے۔

محمد فہیم نے بارہا ہسپتال حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ پی سی آر ٹیسٹ کی مدد سے تصدیق کریں کہ آیا بچے کو کووڈ تھا یا نہیں لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔

اس کے بعد ہسپتال کے ڈاکٹرز نے ان سے ایک دستاویز پر دستخط کرنے کو کہا جس میں سری لنکن قوانین کے تحت کووڈ 19 سے متاثرہ افراد کی لاش کو جلایا جاتا ہے اور اس کے مطابق ان کے بچے کی لاش بھی جلائی جانی تھی۔ لیکن محمد فہیم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

مذہب اسلام میں کسی مردے کی لاش کو جلانا ممنوع ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ میت جلانے سے لاش کی بے حرمتی ہوتی ہے۔

مگر ایسا کرنے میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ سری لنکا میں کئی مسلمان خاندانوں نے اپنے مردوں کو لینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ وہ ان کی لاش جلانے کے قانون سے انکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے سری لنکن حکومت کو اپنے خرچے پر جلانا ہوتا ہے اور ان لاشوں کے گھر والے ان کی راکھ بھی لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔

White ribbons tied on a fence at a cemetery in protest against the government policy of forced cremations of Muslims who die of the coronavirus - Colombo, December 14, 2020.

اس خبر کے سامنے آنے کے بعد دیگر مذاہب کے افراد اور حزب اختلاف کی جماعتیں لاش جلانے کے مرکز کے باہر جمع ہوئیں اور کئی لوگوں نے سفید ربن اس کے دروازے سے باندھے۔ جمع ہونے والوں میں بڑی تعداد کا تعلق سنہالا برادری سے تھا

محمد فہیم نے کہا کہ انھوں نے متعدد بار حکام سے کہا ہے کہ ان کہ بچے کی لاش واپس کر دی جائے لیکن انھیں انکار کیا گیا اور اگلے روز بتایا گیا کہ اس کی لاش جلانے کے لیے بھیجی جا رہی ہے۔

‘میں لاش جلانے کے مرکز گیا لیکن ہال میں داخل نہیں ہوا۔ آپ کیسے اپنے نوزائیدہ بچے کی لاش کو جلتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں؟’

کوئی ثبوت نہیں

سری لنکا میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے مذہبی، سماجی اور سیاسی رہنماؤں نے بار بار حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کووڈ 19 متاثرین کی لاشیں جلانے کے قانون پر نظر ثانی کریں اور اس کے لیے انھوں نے دنیا بھر کے ممالک کے مثالیں دیں جہاں پر متاثرین کو دفنایا جاتا ہے اور عالمی ادارہ صحت کی تجاویز کا بھی ذکر کیا۔

انھوں نے یہ معاملہ سری لنکا کی عدالت عظمیٰ میں بھی لے جانے کی کوشش کی لیکن عدالت نے ان کا کیس بغیر کسی وضاحت کے رد کر دیا۔

لاش جلانے کے بارے میں حکومت کا موقف ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کی لاش دفنانے کی صورت میں زیر زمین پانی میں وائرس مل جانے کا خدشہ ہے۔ حکومت نے یہ موقف ایک ‘ایکسپرٹ کمیٹی’ کی تجاویز کی روشنی میں اختیار کیا ہے لیکن اس کمیٹی کے ممبران اور ان کی قابلیت کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔

عالمی شہرت رکھنے والے وائرولوجسٹ پروفیسر پئیرس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں حکومتی موقف پر شبہ ہے۔

’کووڈ 19 پانی سے پھیلنے والا مرض نہیں ہے۔ اور میں نے ابھی تک ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں دیکھا جس سے ثابت ہو کہ یہ کسی مردہ شخص سے کسی کو منتقل ہو جائے۔ وائرس صرف زندہ لوگوں سے منتقل ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص مر جائے تو وائرس کی منتقلی کی صلاحیت بہت کم ہو جاتی ہے۔‘

پروفیسر پئیرس کا مزید کہنا تھا کہ جب آپ کسی لاش کو کپڑے میں لپیٹ کر زمین میں چھ فٹ نیچے دفن کرتے ہیں تو اس سے بہتے ہوئے پانی میں وائرس جانا تقریباً ناممکن ہے۔

Sri Lankan Muslims hold a banner as they demonstrate near the office of President Gotabaya Rajapaksa, in Colombo on December 16, 2020.

سری لنکا میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے مذہبی، سماجی اور سیاسی رہنماؤں نے بار بار حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کووڈ 19 متاثرین کی لاشیں جلانے کے قانون پر نظر ثانی کریں

مسلمانوں کی لاش نہ جلانے کی اپیل پر زیادہ لوگوں نے پہلے پہل زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن فہیم کے بیٹے کی موت کے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔

اس خبر کے سامنے آنے کے بعد دیگر مذاہب کے افراد اور حزب اختلاف کی جماعتیں لاش جلانے کے مرکز کے باہر جمع ہوئیں اور کئی لوگوں نے سفید ربن اس کے دروازے سے باندھے۔ جمع ہونے والوں میں بڑی تعداد کا تعلق سنہالا برادری سے تھا۔

سوشل میڈیا پر بھی لوگ اس واقعے کی مذمت کر رہے ہیں۔

کارکن اور وکیل تیاگی روونپیتیرانا بھی دروازے پر سفید کپڑا باندھنے والوں میں شامل تھیں، انھوں نے اپنے تجربے کے بارے میں ٹویٹ کیا: ’جب میں اسے باندھ رہی تھی تو ایک ماں اور بیٹی سڑک پار کر کے سفید کپڑے لیے میرے ساتھ شامل ہو گئیں۔ جب تک میں وہاں کھڑی رہی وہ اسی پریشانی میں رہیں کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔

’پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں کیونکہ ہم سب نے ماسک پہن رکھے تھے۔ پھر انھوں نے پوچھا، ’بچہ صرف دو دن کا تھا ناں؟ گناہ۔ کم از کم اس طرح سے میرا دل مطمئن ہو جائے گا۔‘

سفید کپڑے راتوں رات غائب ہو گئے، خیال یہی ہے کہ حکام نے انھیں وہاں سے ہٹا دیا تھا، لیکن عوام میں اس بارے میں غصہ کم نہیں ہوا۔

People tying white cloth outside the crematorium

سفید کپڑے راتوں رات غائب ہوگئے، خیال یہی ہے ہے کہ حکام نے انھیں ہٹا دیا تھا

مسلم کونسل سری لنکا کے نائب صدر ہلمی احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ واضح رہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی ایجنڈا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سائنس کی بنیاد پر فیصلے نہیں کر رہی ہے بلکہ یہ کچھ متعصب لوگوں کے ایجنڈے پر چل رہی ہے۔

لیکن حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے کہ یہ قوانین مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہیں۔ حکومتی موقف ہے کہ سنہالا بودھوں کو بھی اپنے ہلاک ہونے والے پیاروں کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر جلانا ہوتا ہے جو کہ ان کی روایات کے خلاف ہے۔

سری لنکا حکومتی کابینہ کے ترجمان اور وزیر کیہیلا رمبوک ویلا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں کئی بار ایسے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ہوتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ‘کورونا وائرس کی وبا کے دوران ہر کسی کو قربانی دینی ہوتی ہے کسی نہ کسی قسم کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور میرے اپنے مسلمان دوستوں نے مجھے فون کرکے کہا کہ ان کی مدد کروں لیکن ہم حکومت میں وہی فیصلے لیتے ہیں جو سائنسی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔’

Muslims wearing face masks pray to mark Eid while social distancing in Colombo on 1 August, 2020.

سری لنکا کے وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم مہندا راجاپکشے نے حکام کو کہا ہے کہ ملک میں ایسے خشک علاقے ڈھونڈیں جہاں کورونا وائرس سے متاثرین کو دفنایا جا سکے

دوسری جانب سری لنکا کے وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم مہندا راجا پکشے نے حکام کو کہا ہے کہ ملک میں ایسے خشک علاقے ڈھونڈیں جہاں کورونا وائرس کے متاثرین کو دفنایا جا سکے۔

ملک کے شمال میں واقع منار کے علاقے کو متوقع طور پر اس کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن سری لنکا کے مسلمان اس پر خوش نہیں ہیں۔

نوے کی دہائی میں انھیں اس علاقے سے تمل علیحدگی پسند جنگجوؤں نے زبردستی نکال دیا تھا اور مسلمان برادری کو خدشہ ہے کہ مردوں کو وہاں دفنانے سے ایک بار پھر کشیدگی ہو سکتی ہے۔

ہلمی احمد نے حکومت کی اس پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ وہ یہ صرف دباؤ سے بچنے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔ لیکن دوسری جانب شیخ کے والد فہیم کا کہنا ہے کہ جو سلوک ان کے بچے کے ساتھ ہوا ہے، وہ ابھی بھی اس غم سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میری بس یہی خواہش ہے کہ کوئی اور اس تکلیف سے نہ گزرے۔ میں یہ کسی بھی بچے کے ساتھ ایسا ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا جو میرے بچے کے ساتھ ہوا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp