گوادر کی خاموش چیخیں


جب میں شمبے سماعیل ( گوادر شہر کا ایک محلہ) سے نکل کر ساحل سمندر پہ پہنچا تو حسب معمول میری نظر بنتی مٹتی سمندر کی لہروں پر پڑی، جو گیلی ریت پر میری قدموں کو چوم کر میرے لمس میں اتر جاتیں۔ مگر اب کی بار ساحل کے نظارے اور لہروں سے سرشاری کے بجائے دل میں ٹھیس اٹھنے کا احساس ہوا۔ یہ ٹیسیں جیسے پورے وجود میں پھیل جاتیں۔ پھر بھی دل چاہ رہا تھا کہ ساحل کی گیلی ریت پھر ٹہلتے ہوئے چند قدم مزید آگے بڑھوں۔مگر اس خیال نے قدم روک لئے کہ آگے جانا منع ہے۔ کیونکہ آگے اب ایک چیک پوسٹ ہے جہاں سیکیورٹی اہلکار کھڑے ہیں۔ یہیں کھڑے ہو کر حسرت بھری نگاہوں سے تا حد نظر پھیلے نیلے سمندر کو دیکھنے لگا، تو جیسے ماضی کی یادوں نے تمام احساسات اور جذبات پر جیسے شکنجہ کس لیا ہو۔

میں سوچنے لگا کہ یہ وہی ساحل ہے جس کی لہروں پر کھیلتے کھیلتے ہم جوان ہوئے۔ مچھیرے مچھلی پکڑنے کے لئے اپنے جال اور دیگر اسباب گدھوں پر لاد کر اسی ساحل پر لاتے اور پھر انہی سامان کے ساتھ کشتیوں میں سوار ہو کر مچھلی کے شکار پر روانہ ہوتے تھے۔ دو یا تین دن اپنے جال سمندر میں ڈالتے، مچھلیاں پکڑتے۔ کچھ اپنے لئے رکھ لیتے تھے، باقی کو گدھوں پر لے جا کر آس پاس کی آبادیوں میں فروخت کیا جاتا تھا۔ کولڈ سٹوریج کا جدید نظام سرے سے موجود نہیں تھا۔ اس لئے منوں کے حساب سے بچ جانے والی مچھلیوں کو کاٹ کر صاف کر کے سمندر کے نمکین پانی میں ڈبوتے، انھیں سکھانے کے لئے پھیلاتے اور مہینوں تک کے لئے محفوظ کر لیتے۔ پھر یہ خشک مچھلیاں اونٹوں پر لاد کر کئی دنوں کی مسافت کے بعد کیچ تربت، پنجگور، کولواہ اور دیگر علاقوں تک لے جاتے کیونکہ ان علاقوں میں خشک مچھلیوں کی بہت مانگ تھی ( آج بھی ہے ) ۔ لوگ ان کو پانی میں ابال کر اور کوئلے پر بھون کر کھجور اور ابلے ہوئے باقلہ کے ساتھ کھاتے۔

خشک نمکین مچھلی سے بنی روایتی پکوان ”آپشک“ تمام مکران اور کولواہ میں آج بھی مشہور ہے، جس میں خشک نمکین مچھلی کو پانی میں ابال کر پکایا جاتا ہے، پھر اس میں دیسی گھی، ہری مرچ، لہسن ڈال کر اور لیموں نچوڑ کر چاول کی روٹی اور پیاز کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ اونٹ والے یہ خشک مچھلیاں کیچ اور پنجگور میں فروخت کر کے یا مچھلیوں کے بدلے چاول اور کھجور لے کر گوادر آتے۔ کلانچ، دشت اور کولواہ سے ان مچھلیوں کے بدلے گندم، کالی دالیں اور اناج لے کر اسی ساحل پر پہنچتے۔ مذکورہ علاقوں کے درمیان درآمدات و برآمدات کا اپنا ایک خوبصورت روایتی نظام تھا جو زیادہ تر جنس برائے جنس کے اصولوں پر مبنی تھا۔ اس روایتی کاروبار نے پورے مکران ( جو ایران اور پاکستان میں منقسم بلوچستان کا تاریخی علاقہ ہے ) ایک خوب صورت اور منفرد ثقافت کی آبیاری کر کے اسے جلا بخشی ہے، جس پر اہل بلوچستان کو فخر ہے۔

یہ وہ سمندر ہے جس کے ساحل کی سنہری ریت پر روزانہ درجنوں اور سینکڑوں لوگ پیدل، گدھوں یا اونٹوں پر اور پھر موٹر سائیکل پر سوار ہو کر پیشکان آتے جاتے تھے، کوئی رکاوٹ یا بندش نہیں تھا۔ گوادر نسلوں سے میرا اپنا شہر ہے۔ میرے آبا و اجداد اسی مٹی میں دفن ہیں۔ بچپن سے لے کر لڑکپن تک، پھر جوانی اور اب بحیثیت دادا اسی شہر کا باسی ہوں۔ آخری خواہش بس یہی ہے کہ میرا جسم خاکی اسی خاک میں مل جائے تاکہ روح کو تسکین ملے۔

مگر اب یہ ساحل میرے لئے بند ہے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ پیشکان جانا تو بہت بڑی بات ہے، میرے لئے گوادر شہر کے ساحل پر چہل قدمی کے لئے بھی حد اور وقت متعین ہیں جو بیڑیوں کی طرح میرے قدموں سے لپٹ جاتی ہیں اور ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتا۔ میں دیر تک ساحل پر کھڑا رہا، ماضی کی مسرور یادیں سوئی کی طرح دل میں چبھتی رہیں۔ اسی طرح ایک دن میں ”دیمی زر“ یعنی مشرقی ساحل سمندر پر ٹہل رہا تھا، جس کے سامنے خاردار تاروں کے حصار میں موجود کوسٹ گارڈ کا مرکزی دفتر ہے، میں یہاں سے گزر رہا تھا کہ کھڑے مسلح اہلکار نے ڈانٹ کر کہا کہ رک جاؤ!

آگے جانا منع ہے۔ میں نے قدم وہیں پر روک لئے۔ ساتھ ہی شرمندگی کے احساس اور مزید بے عزتی کے خوف سے جیسے مجھ سفید ریش بلوچ کا پورا وجود وہیں جم گیا۔ اوسان بحال ہوئے تو ناقابل بیان سی بے بسی کے احساس نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا اور آنسو ٹپکنے لگے۔ میں نے اپنے قدم پیچھے لے لئے اور ساتھ ہی سوچنے لگا کہ یہ وہی ساحل ہے کہ جہاں گرمیوں کے موسم میں روزانہ تین سے چار مرتبہ ٹہلتے ٹہلتے میں سر ( گوادر شہر سے تقریباً 15 سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک قصبہ) جاتا تھا اور پھر سر سے پیدل یہیں آتا تھا۔ اس پیدل سفر میں اونٹوں کی قطاریں بھی میرے ساتھ ساتھ چلتی تھیں جوسر سے سیر و تفریح کے لئے گوادر آتیں، پھر چلی جاتیں۔ مگر اب مجھے یہاں سے نگور ( گوادر سے منسلک ایک آبادی) تک جانے کی بھی اجازت نہیں ہے ”۔

مذکورہ بالا تمام باتیں وٹس اپ کے ذریعے زبانی پیغام ( وائس میسیج ) کی صورت مجھ تک پہنچے ہیں جو ہمارے یہاں ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور گوادر کا رہائشی شخص بلوچی زبان میں بیان کر رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل اس صوتی پیغام میں موجود کرب سے بلوچستان کا ہر فرد واقف ہے۔ چند مہینے پہلے جب اپنے بچوں سمیت سیر و تفریح کی نیت سے گوادر جانا ہوا، تو آمد و رفت اور گھومنے پھرنے کے دوران کچھ ایسے تجربات اور احساسات سے گزر نا پڑا کہ گوادر جانے کو اب دل ہی نہیں کرتا۔ اپنے بچپن اور لڑکپن میں جس گوادر کو میں نے دیکھا تھا، اب پکی سڑکیں چند دفاتر، سرکاری کوارٹرز اور جدید رہائشی اسکیموں کے علاوہ گوادر میں ہمارے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔

البتہ مشکلات میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ مشرف حکومت کے شروعاتی دور سے لے کر اب تک گوادر سمیت پورا بلوچستان وہ نہیں ہے جو مشرف دور سے پہلے تھا۔ ترقی کے نام پر بعض طاقتیں جیسے جیسے یہاں کے عوام کی جمہوری و آئینی اور انسانی حقوق کو یکسر نظر انداز کر کے گوادر سمیت پورے بلوچستان پر اپنا پنجہ گاڑ رہی ہیں عوامی اضطراب اور احساس محکومی و محرومی میں اتنا ہی اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ مگر اپنی طاقت اور ذہانت پر نازاں فیصلہ سازوں کو یقین ہے کہ حالات مکمل طور پر قابو میں ہیں اور ان کے من چاہا مطلوبہ نتائج برآمد ہوں گے۔ عوامی امنگوں کو کچل کر اہل بلوچستان کی برداشت کو مزید آزما یا جا رہا ہے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ محکوم خلق خدا مزید کتنا برداشت کر سکتا ہے۔ اسی لئے اب گوادر کو باڑ لگا کر مظلوموں کا مزید امتحان لیا جا رہا ہے۔

عوام کی حکومت، عوامی نمائندوں کے ذریعے، عوام کے لئے یہی جمہوریت کا آسان اور مختصر خلاصہ ہے۔ مگر مملکت خداداد میں جمہوریت سے مراد ”مخصوص ٹولے کی حکومت، مخصوص ٹولے کے ذریعے، مخصوص ٹولے کے لئے “ ہے۔ اپنے آئینی اختیارات اور ذمہ داریوں سے مکمل طور پر دست بردار نام نہاد عوامی نمائندے و منتظمین برائے نام کے عہدوں، ذاتی نام و نمود اور نمائشی پروٹوکول پر پھولے نہیں سما رہے ہیں اور با اختیاروں کی نظر کرم پر نازاں ہیں۔

اسی لئے نمائندوں اور منتظمین کی اب تک کی تمام کارکردگی کرم فرماؤں کی خوشنودی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر ضمیر کی زنجیروں میں جکڑے چند دور اندیش اور معاملہ فہم لوگ ان تمام تر حالات پر نوحہ کناں ہیں اور ملکی سالمیت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ کیونکہ کسی کو طاقت کے زور پر یا فتح کر کے اپنا نہیں بنایا جا سکتا، اپنائیت کا احساس اور جذبہ برابری و مساوات اور منصفانہ فیصلوں اور ان فیصلوں کے عملی مظاہرے سے مشروط ہے۔

یہی دیرپا امن، اتحاد اور ملکی استحکام اور خوشحالی کا واحد راستہ ہے۔ پسماندہ بلوچستان کو ترقی کی اشد ضرورت ہے۔ ترقیاتی منصوبوں سے ہی دہائیوں پر محیط بلوچ عوام کی محرومیوں اور محکومیوں کا ازالہ ممکن ہے اور انھیں قومی دھارے میں لانے کا بہترین لائحہ عمل ہے۔ مگر بشرطیکہ ترقی میں یہاں کے عوام حصہ دار ہوں، مقامی آبادی اس ترقی کو اون کرے اور صدیوں سے آباد باشندگان کے تمام بنیادی حقوق کو ملحوظ خاطر رکھ کر ان میں معاشی، سیاسی، ثقافتی اور تاریخی شناخت کے تحفظ کا احساس پیدا کرے۔ ناں کہ جو کچھ بچا ہے وہ بھی جاتا نظر آئے۔

بلوچستان کی موجودہ صورتحال میں گوادر کو باڑ لگا کر سیل کر نے کے عمل نے اہل بلوچستان کے خدشات میں اضافہ کر کے بے بسی اور محکومی کے احساس کو مزید ابھارا ہے۔ بلوچ قوم پرست پارٹیاں اور آل پارٹیز الائنس گوادر اس عمل کو غیر انسانی کہہ کر مسترد کر چکی ہیں۔ ملک کے باضمیر سیاسی و صحافتی حلقے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مذکورہ عمل کے خلاف رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ حالات کے جبر سے اپنی گویائی سے محروم فرزندگان بلوچستان کی خاموش چیخیں چہروں پر عیاں ہیں، بشرطیکہ انہیں محسوس کیا جائے اور قابل غور سمجھا جائے۔

بقول نامور بلوچ شاعر عطا شاد کی ایک بلوچی نظم کے چند مصرعوں کے،
اردو ترجمہ؛
میرے روح کی چیخوں نے آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے
مگر تم بہرے ہوچکے ہو، اور میں قوت گویائی سے محروم
میں بھی ابن آدم ہوں!
محبت اور زندگی کی خوشیوں پر میرا بھی حق ہے
(بحیثیت انسان ) میرے بھی حقوق متعین ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).