تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا؟


نہ جانے کس نے کہا تھا مگر کیا خوب کہا تھا ” تمہاری آزادی کی حد وہاں تک ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے “۔ بخدا ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ ان دانشور کی ناک فطری حدود اربعہ رکھتی تھی یا پناکو کارٹون کی طرح کسی اور جہان کی خبر لاتی تھی۔

جوں جوں عمر ڈھل رہی ہے اس قول کی سچائی پہ مزید سر دھننے کو جی چاہتا ہے۔ استاد ذوق کی خواہش کہ اب تو گھبرا کے کہتے ہیں کہ مر جائیں گے/ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے، سے کچھ یوں لگتا ہے کہ ان کا حال بھی انھی لوگوں سا تھا جن کی ذات دنیا کے لئے مشق ستم ٹھہرتی ہے۔ جو اپنی ذات کے گرد ایک دائرہ کھینچ کے دوسروں کو یہ باور نہیں کروا سکتے کہ ان کے تیروتفنگ کی پہنچ ان کی ذات کے گرد کھنچی لکیر سے باہر ہی رہنی چاہئے۔

ہمارے معاشرے کی بدقسمتی کہ ہم رشتوں اور بندھنوں کی حدود و قیود کے معاملے میں جہلا کے قبیلے سے تعلق تو رکھتے ہی ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ شخصی آزادی کو سمجھنا بھی نہیں چاہتے۔

عزت نفس کس چڑیا کا نام ہے؟ ذاتی زندگی کیا چیز ہوتی ہے؟ کسی دوسرے کی ٹوہ میں رہنا کس قدر شرمناک ہے؟ کسی بھی رشتے میں بندھے ہونے کا معنی دوسرے شخص کی ذات کے پرتیں ٹٹولنا اور سر بازار اشتہار لگا دینا کسی فریق کا حق نہیں ہوا کرتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ محبت اور ملکیت و اختیار کے جذبات کو گڈمڈ کرتے ہوئے مزید پیچیدہ بنا دیا جائے۔

خط کھولنا، کان لگا کے کسی کی گفتگو سننا، رازداری سے فون ٹٹولنا، ای میل کے انباکس میں جھانکنا، موبائل پہ ٹریکر لگوانا، لوکیشن چیک کرنا، بٹوے اور الماری کی تلاشی لینا، ساتھی کے دوستوں کو فون کر کے سرگرمیوں کی تاک میں رہنا، جواب طلبی کی عدالت لگانا یا بنک اکاؤنٹ چیک کرنا، یہ وہ شرمناک حرکات ہیں جو کسی بھی فرد کی اس کائنات میں شخصی آزادی کو چیلنج کرتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں ان پہلوؤں پہ والدین یا اساتذہ کی طرف سے تربیت دی جاتی ہے؟ کیا یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ہر فرد چاہے بچہ ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت، استاد ہو یا شاگرد، میاں ہو یا بیوی، ماں باپ ہوں یا اولاد، مالک ہو یا ملازم، کسی نفس کو دوسرے کی ذات کے کواڑ بنا اجازت کھول کے اندر جھانکنے کی اجازت نہیں اور یہ فعل بنیادی انسانی حق سے متصادم ہے۔

ہمارا بچپن ڈاک، ڈاکیے اور خط کے رومان سے جڑا ہوا ہے۔ فون پہ تو دوسرے شہروں کے کزنز سے گپیں لگانا محال تھا سو خوب طویل خط لکھے جاتے تھے، پوسٹ کرنے کے لئے ابا کے حوالے کیے جاتے اور اسی دن سے جوابی لفافے کا انتظار شروع ہو جاتا۔ ڈاک ادھر سے ادھر ہونے کا خوف سب بہن بھائیوں کو مجبور کرتا کہ جوابی لفافے پہ ابا کے دفتر کا پتہ لکھا جائے۔

ابا سہ پہر ڈھلے گھر لوٹتے تو ہر کوئی اشتیاق سے نہ صرف انہیں سلام کرتا بلکہ سوالیہ نشان بن کے انتظار بھری نظروں سے کچھ یوں دیکھتا کہ وہ مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل کھولتے اور ڈاکیے کا کردار ادا کرنا شروع کر دیتے… یہ لفافہ ہے فاطمہ کا، جاؤ انہیں دے کر آؤ، آپا کے نام آیا خط وہ ہمارے ہاتھ میں تھماتے.. یہ طاہر کا…

ابا ہمارا ؟ ہم اشتیاق سے ان کی بات کاٹتے ہوئے پوچھتے… وہ مسکرا کے کہتے ، ارے بھئی ہے، دے رہا ہوں۔

آخر میں وہ اماں کے نام کا لفافہ لئے کچن میں لے جا کر ان کے پاس رکھ دیتے جہاں وہ گرم گرم پھلکے توے پہ سینک کے اتار رہی ہوتیں۔ اماں بے چین ہو کے پوچھتیں، کہاں سے آیا ہے؟ امتیاز کا ہے یا سکینہ کا؟

وہ ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے، میں نے تو نہیں کھولا، تمہارے نام کا ہے، دیکھ لو!

ہم چھ بہن بھائی اور اماں ابا، اور رشتے داروں اور دوست احباب کا ملک بھر میں پھیلا سلسلہ، سو ڈاک کی آمدو رفت کا سلسلہ کبھی نہ ٹوٹتا۔ رمضان، عیدین، نیا برس، امتحان، نتیجہ اور سالگرہوں کے مواقع پہ یہ ڈاک دوگنی ہو جاتی۔

لیکن ایک وضع داری جو ابا نے نہ جانے کہاں سے سیکھی تھی، کبھی نہ ٹوٹی۔

لفافہ کھولنا تو دور کی بات تھی، کس کا خط ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ متن کیا ہے؟ جیسے سوالات بھی ابا نے کبھی نہیں پوچھے۔ تردد، تجسس، یا کسی بھی قسم کی برہمی ان کے چہرے سے کبھی نہیں چھلکی۔ زندگی کی راہوں پہ اکھٹے چلتے، ایک ہی چھت کے نیچے زندگی بتاتے اور والد کے مقام پہ فائز ہوتے ہوئے بھی کسی فرد کی ذات کی ٹوہ نہ رکھنا، چاہے وہ اولاد ہو یا شریک حیات، یہ ذات کے احترام کا وہ سبق تھا جو انہوں نے اپنے بچوں کو سکھایا۔

ہماری متجسس طبعیت ہمیں بہت دفعہ مجبور کرتی کہ ہم بھائی کے نام آنے والے رنگا رنگ خوشبو سے اٹے ہوئے لفافے کبھی تو کھول کے دیکھیں کہ ان غضب کے ناموں میں بھلا کیا لکھا ہے؟ لیکن جونہی ایسا سوچتے، ابا کا طریق یاد آ جاتا۔ زندگی کے بہت سے مقامات محض ابا کے تصور سے ہی ہم پہ سہل ہو گئے۔ ہم اور وہ، دونوں نے ہی ایک دوسرے کو کسی امتحان سے نہیں گزرنے دیا۔

انہی دنوں کی بات ہے کہ ہمیں ڈائری لکھنے کا شوق چرایا۔ شام ڈھلتے ہی ہم ایک گوشے میں بیٹھ جاتے اور اس دن کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے جڑا حال دل لکھتے۔ ایک آدھ دفعہ ہمیں شک ہوا کہ بہن بھائی ہماری ڈائری چوری چھپے پڑھتے ہیں۔ ہم فوراً ابا کے حضور پہنچے اور شکایت داغ دی۔ ابا نے دھیمے سروں میں گوشمالی تو کی لیکن ساتھ میں کچھ ایسے الفاظ کہے جو دل پہ کندہ ہو گئے،

“دیکھو بیٹا، ہر انسان کی ذات کی کچھ نہاں پرتیں ہوا کرتی ہیں جہاں وہ صرف اپنے آپ سے مخاطب ہونا چاہتا ہے۔ دل کے وہ گوشے جہاں کا اکلوتا مکین وہ خود ہی ہوا کرتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس کی اجازت کے بنا ہم ان پردوں کے پیچھے نہ جھانکیں۔ اس اصول کا اطلاق تمام رشتوں پہ یکساں طور پہ ہوتا ہے”۔

کسی کی ذات کے مخفی گوشوں کا احترام! یہ دوسرا سبق تھا جو ہم نے سیکھا۔

گو کہ آنے والے برسوں میں بہت بار یہ سبق فراموش کرتے ہوئے ہم ابا جیسے ظرف کا مظاہرہ نہ کر سکے لیکن جب جب بھولے، تب تب تصور کی آنکھ سے ابا کو خطوں کے بند لفافے اپنے بچوں کے ہاتھ میں دیتے دیکھا،ان کی درویشانہ بے نیازی یاد کی اور عرق ندامت میں ڈوبتے ہوئے اپنی گوشمالی خود ہی کر ڈالی۔

آج یہ کتھا یوں کہہ ڈالی کہ گیس لائٹنگ سے بات آگے بڑھاتے ہوئے ہمیں معاشرے کے ہر فرد کی ذات کے گرد ایسی لکیر کھینچنے پہ بات کرنی ہے جس کے اندر وہ شخص اپنے آپ سے بات کر سکے، اپنے خواب بن سکے، اپنی عزت کر سکے، اپنی ذات کا احترام کر سکے، اپنی خواہشات کا محل تعمیر کر سکے اور اپنی ذات کو روندے جانے اور مسخ ہونے سے بچا سکے۔

طاقت اور اختیار کے مختلف حربوں میں گیس لائٹنگ کے علاوہ ذاتی حدود کو مشترکہ سمجھ کے ملیامیٹ کرنا بھی شامل ہے۔ ہم اس پہ مزید لکھیں گے سو تب تک اجازت!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).