موٹروے پر حادثہ: ’ہم مشکل وقت میں مدد کرنے کے بجائے ویڈیو بنانے کو ترجیح کیوں دیتے ہیں؟‘


 

موٹروے

یہ واقع موٹروے پر سکھر سے لاہور آنے والے راستے پر خانیوال کے قریب پیش آیا (فائل فوٹو)

’جب میں حادثے کے مقام پر پہنچا تو آٹھ دس گاڑیاں وہاں پہلے ہی رکی ہوئی تھیں اور اس ٹریفک حادثے میں ایک فیملی بری طرح زخمی تھی۔ جبکہ وہاں موجود لوگ کھڑے تصویریں اور ویڈیوز بنا رہے تھے۔

میں نے وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کہ کسی نے ہیلپ لائن یا ریسکیو کو کال کی ہے؟ جس پر مجھے نفی میں جواب ملا۔ تاہم ایک عورت بچے کو گود میں پکڑے بیٹھی تھیں جو زخمی تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ اس کی کچھ لگتی ہیں تو انھوں نے بتایا کہ نہیں ہم تو حادثہ دیکھ کر رکے ہیں۔ تھوڑی ہی دور اس بچے کے والد سڑک پر زخمی حالت میں پڑے تھے۔

میں نے بچے اور والد کو اپنی گاڑی میں ڈالا تاکہ انھیں قریبی مقام پر ابتدائی طبی امداد دی جا سکے۔ چونکہ میں اپنے ڈرائیور کے ہمراہ سفر کر رہا تھا تو میرے لیے مشکل تھا کہ میں اکیلے باپ اور بیٹے کو زخمی حالات میں سنبھالتا۔ میں نے وہاں موجود لوگوں سے کہا کوئی ایک بندہ ساتھ آجائے، ہم انھیں ہسپتال تک چھوڑ آئیں۔

میری اس درخواست پر کوئی آگے نہیں آیا بلکہ مجھے یاد ہے کہ ایک شخص نے جواب دیا کہ میں نے دور جانا ہے مجھے دیر ہو جائے گی۔‘

یہ واقع موٹروے پر سکھر سے لاہور آنے والے راستے پر خانیوال کے قریب پیش آیا اور تفصیلات اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جب کاشف ممتاز نامی سوشل میڈیا صارف نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ کسی حادثے یا مشکل وقت میں کسی کی مدد کرنا تصویریں اور ویڈیوز بنانے سے زیادہ اہم ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کاشف ممتاز نے انسانی رویوں اور ریاستی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں اتنے وسائل موجود نہیں کہ ہمیں فوری امداد مل جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو لوگ تماشہ دیکھنے کے لیے رکتے ہیں،جن میں مدد کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ اور جو لوگ مدد کرنا بھی چاہتے ہیں وہ اس لیے نہیں کر پاتے کیونکہ ہماری ریاست بروقت امداد دینے میں ناکام ہو جاتی ہے۔‘

انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’موٹروے پر روزانہ کی بنیاد پر سفر کرنے والوں سے کروڑوں روپے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے لیکن پورے روٹ پر کہیں بھی کوئی ٹراما سینٹر یا ابتدائی طبی امداد کے لیے کوئی ہسپتال موجود نہیں ہے۔ جبکہ ہر تھوڑے سے فاصلے پر کھانے پینے کی دکانیں ضرور مل جاتی ہیں۔‘

انھوں نے اپنی تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں دو دن سے سو نہیں سکا ہوں کیونکہ اس حادثے میں زخمی ہونے والے بچے نے میرے ہاتھوں میں اپنی جان دے دی۔ تاہم میں نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس فیملی کی مدد کی لیکن مجھے گلہ ان لوگوں سے ہے جو یہ ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے ویڈیوز اور تصویریں بنا کر چند لائیکس کے لیے سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔‘

ان کا مزيد کہنا تھا کہ ’میں نے جو تصاویر اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لگائی ہیں اس میں بھی کوشش کی ہے کہ بچہ نظر نہ آئے۔ یہی نہیں بلکہ زخمی باپ کی بھی دھندلی تصویر ہی اپ لوڈ کی ہے۔ میں شاید یہ بھی نہ کرتا لیکن میں نے لوگوں کے رویوں سے مجبور ہو کر اپنا تجربہ بیان کیا۔ وہ تصوير اور حادثے کی تفصیلات سوشل میڈیا پر لگانے کا میرا صرف یہی مقصد تھا کہ لوگ ذمہ دار شہری بنیں۔

وائرل ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز کسی زندگی پر بری طرح اثر انداز ہو سکتی ہیں

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کے مطابق ایک شخص کو کراچی کی سڑکوں پر برہنہ حالت میں موٹر سائیکل چلاتے دیکھا گیا۔ جس کے بعد لوگوں نے اس شخص کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کیں۔

تاہم اس واقعے کے بعد برہنہ حالت میں گھومنے والے شخص کو پولیس کی جانب سے گرفتار کر کے اسی حالت میں اس کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ اس بیان کے مطابق اس شخص سے جب اس حرکت کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں دنیا میں آزاد آیا ہوں اور آزاد گھوم رہا ہوں۔‘

اس شخص کی اہلیہ کے مطابق ان کے شوہر ذہنی طور پر معذور ہیں اور نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس شخص کی بیوی نے اعلیٰ حکام سے یہ التجا کی کہ ’میرے شوہر کی وائرل ہونے والی ویڈیوز کو جلد از جلد سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم سے ہٹایا جائے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’دو سال قبل ذہنی توازن کھو دینے کی وجہ سے وہ اکثر ایسی الٹی سیدھی حرکتیں کرتے ہیں اور اس وجہ سے ان کا علاج بھی چل رہا ہے۔ جبکہ میرے دو چھوٹے بچے ہیں اور اگر وہ سوشل میڈیا پر اپنے والد کی ایسی وائرل ویڈیو دیکھیں گے تو ان کے لیے زندگی گزارنا بہت مشکل اور تکلیف دہ ہو گا۔‘

اس خاتون نے لوگوں کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے گلہ ہے کہ لوگ جب بھی کوئی ایسا واقعہ دیکھتے ہیں، تو مشکل میں مبتلا شخص کی مدد کرنے کے بجائے اس کا تماشہ بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ میرے شوہر کی ویڈیو بنانے والے شخص کو چاہیے تھا کہ اگر انھوں نے میرے شوہر کو ایسی حالت میں دیکھا تو انھیں سوچنا چاہیے تھا کہ کوئی بھی نارمل شخص ایسا نہیں کرتا۔ اس لیے انھیں چاہیے تھا کہ میرے شوہر کو پکڑ کر گھر تک چھوڑ کر آئیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’تاہم لوگوں نے ہماری فیملی بچوں اور میرے شوہر کی مدد کرنے کے بجائے ہماری مشکالات میں اضافہ کرتے ہوئے ویڈیو بنانے کو ترجیح دی۔‘

حادثہ

فائل فوٹو

ہمارے اندر احساس ذمہ داری موجود نہیں ہے

انسانی نفسيات کی بات کریں تو یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا اور ٹیکنالوجی آنے سے پہلے بھی یہ رویہ دیکھا جاتا تھا کہ کسی بھی حادثے یا واقعے کے رونما ہونے والے مقام پر لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہو جاتا ہے۔ تاہم اب زیادہ تر لوگ ان لمحات کو ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈیجیٹل ماہر ذویا رحمان کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں زیادہ تر لوگ ایسے موقعوں پر یہی کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ کام زیادہ اس لیے ہوتا ہے کہ کیونکہ ہمارے اندر ذمہ دار شہری ہونے کا احساس بہت کم ہے۔

’جہاں تک سوشل میڈیا پر ایسے واقعات کا مواد اپ لوڈ کرنے کی بات ہے تو ہمیں یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقیات کے فقدان کے علاوہ لوگوں کو اپنے پیجز پر زیادہ سے زیادہ فالورز اور لائیکس چاہیے ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’وہ اس بات کو نہیں سمجھتے ہیں کہ ایسے مواد سے کسی کی زندگی کس حد تک متاثر ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ لوگ مدد کرنے کے بجائے چسکا لینے کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔‘

انھوں نے پرائیوسی کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب کوئی حادثہ یا سانحہ ہوتا ہے تو لوگ گزرتے ہوئے بھی ویڈیوز بناتے ہیں، کوئی یہ نہیں سوچتا ہے کہ جب یہ مواد ان کے پیاروں تک پہنچے گا تو ان پر کیا گزرے گی۔ یہاں پر انسان کی یہ نفسیات بھی سامنے آتی ہے کہ ہم دوسروں کی زندگیوں میں ہونے والے واقعات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp