مریم نواز کے بارے میں فواد چوہدری کا تبصرہ: جب عورت سے مقابلہ ہو تو بات کچن تک کیوں پہنچ جاتی ہے؟


’کیا کچن میں کام کرنے والی شرط صرف خواتین سیاستدانوں کے لیے ہے؟‘ وزیرِ اعظم عمران خان کو کون سی دیگیں پکانے کا تجربہ حاصل ہے؟ یہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف کے بارے میں حال ہی میں دیے گئے ایک بیان کے بعد شروع ہونے والی بحث سے لیے گئے دو تبصرے ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا تھا ’مریم نواز نے ایک دن بھی اپنا کچن نہیں چلایا، ساری عمر انھوں نے عیش و آرام کی زندگی گزاری ہے۔۔ اب ان کی خواہشیں اور جرات دیکھیں کہ ایک دن بھی کہیں کام کا تجربہ حاصل کیے بغیر وہ ایک ایٹمی طاقت کی وزیِرِ اعظم بننا چاہتی ہیں۔‘

فواد چوہدری کے اس بیان پر شدید رد عمل سامنے آیا ہے اور اسے معاشرے میں عورتوں کے خلاف متعصبانہ رویے کی مثال کہا گیا جس کے تحت عورت کی قابلیت و اہلیت صرف گول روٹی اور کچن چلانے کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔

بحث کے دوران یہ بھی کہا گیا کہ جب مرد سیاستدان نظریات کی بنیاد پر مقابل کو جواب نہیں دے پاتے تو ایسی باتیں کرتے ہیں لہذا ’عورت کی صنف پر حملہ کرنے کے بجائے نظریات کی بنیاد پر جواب دیں۔‘

تاہم یہ پہلا موقع نھیں کہ خواتین کے بارے میں بات کرتے ہوئے کچن کا حوالہ دیا گیا ہو، آپ کو یاد ہی تو ہو گا رواں برس اگست میں نجی ٹی وی جیو نیوز پر کرکٹ کے حوالے سے منعقدہ ایک شو میں تکنیک کے حوالے سے گفتگو کے دوران پاکستان کے سابق کرکٹر سکندر بخت نے خاتون تجزیہ نگار (عالیہ رشید) کے متعلق بیان دیا تھا کہ ’کچن میں کھانا بنانے والی خاتون مجھے نہ بتائے کس کا فٹ ورک اچھا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’تہذیب کا بوجھ صرف عورت کے کندھوں پر کیوں؟ ‘

پاکستان میں شادی عورت کی ’کامیابی‘ کا پیمانہ کیوں

’کچن میں کھانا بنانے والی خاتون مجھے نہ بتائے کس کا فٹ ورک اچھا ہے‘

سوشل میڈیا پر فواد چوہدری کے اس بیان پر خاصی تنقید کی جا رہی ہے، کئی افراد کا کہنا ہے کہ گھر کا کچن چلانا اپنے آپ میں ایک انتہائی تخلیقی اور محنت طلب کام ہے لیکن اس پر ایسے متعصابہ طعنے دینا انتہائی نامناسب بات ہے۔

انیقہ نثار نے وفاقی وزیر کے بیان کو صنفی لحاظ سے متعصبانہ کہتے ہوئے سوال کیا کہ باقی سیاستدانوں نے کون سے کچن میں کام کیا ہے؟

حنا خالد کا کہنا ہے کہ کسی عورت سے یہ کہنا کہ لیڈر بننے سے پہلے کچن میں اپنی قابلیت ثابت کرو، آج بھی ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے صنفی تعصب کی سب سے نچلے درجے کی مثال ہے۔

انھوں نے فواد چوہدری سے سوال کیا کہ آپ نے کتنے مردوں سے یہی سوال پوچھا ہے؟

صحافی ماریانا بابر نے بھی ایسا ہی سوال کیا کہ ’کیا کچن میں کام کرنے والی شرط صرف خواتین سیاستدانوں کے لیے ہے؟‘ انھوں نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کو ٹیگ کرتے ہوئے پوچھا ’آپ کا دوست عجیب و غریب معیار طے کر نے کے ساتھ ساتھ خواتین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔‘

شکیل رائے کا کہنا ہے کہ عورتوں سے نفرت اور تعصب ہماری اجتماعی نفسیات میں گڑھ چکا ہے۔ خواتین سیاستدانوں کے بارے میں فحش اور بدتمیزی کے زمرے میں آنے والے نامناسب بیانات، انھیں نیچا دکھانے کا ایک قابل قبول طریقہ سمجھے جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ عورتوں کو انسان نہ سمجھنا، ان سے غیر مہذب رویہ اختیار کرتے ہوئے محکومی دکھا کر انھیں ان کے مقام یعنی باورچی خانے بھیجنا، چیلنج بننے والی عورتوں سے نمٹنے کا ایک ہتھیار ہے۔

فواد چوہدری کے ماضی میں دیے گئے بیانات کی روشنی میں کچھ حلقے انھیں عورتوں کے حقوق کے حامی اور ایک لبرل سیاستدان تصور کرتے ہیں شاید اسی لیے انھیں وفاقی وزیر کا حالیہ تبصرہ ہضم نہیں ہو پا رہا۔

اسی بارے میں رائے دیتے ہوئے فریحہ کہتی ہیں ’نام نہاد لبرل بننے والے سائنسی وزیر عورتوں کو بس کچن کی مخلوق سمجھتے ہیں‘۔

ایک صارف نے لکھا ’فواد چودھری نے کہا کہ مریم نواز نے اپنی زندگی میں کبھی کچن کا انتظام نہیں سنبھالا لیکن وہ ملک چلانا چاہتی ہیں۔ انھوں نے باورچی خانے کا ذکر کیوں کیا؟ کیا وزیر کے خیال میں یہ ایک صنفی کردار ہے؟ کیا فواد چودھری کو کچن کا انتظام سنبھالنے کا تجربہ ہے؟ اگر نہیں، تو انھیں فوراً استعفی دے دینا چاہیے۔‘

اور مشعل شبیر کو تو یقین ہے کہ فواد چوہدری کو خود پانی بھی نہیں ابالنا آتا ہو گا۔ جبکہ کئی صارفین یہ بھی پوچھتے نظر آتے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو کون سی دیگیں پکانے کا تجربہ حاصل ہے؟

’عورت جو بھی کرے، وہ طعنہ ہے‘

مصنفہ اور ڈرامہ نگار آمنہ مفتی کا ماننا ہے ہے ایسے تبصروں کے پیچھے صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ عورت سے نفرت ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آمنہ کا کہنا تھا کہ ایسے تبصرے وہی لوگ کرتے ہیں جن کے ذہن ارتقائی طور پر کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب مرد سیاستدان نظریات کی بنیاد پر مقابل کو جواب نہیں دے پاتے تو ایسی باتیں کرتے ہیں ’عورت کی صنف پر حملہ کرنے کے بجائے نظریات کی بنیاد پر جواب دیں۔‘

آمنہ کا کہنا ہے کہ ’عورت جو بھی کرے، وہ طعنہ ہے۔ عورت خوبصورت لگ رہی ہے تو یہ طعنہ ہے، وہ بدصورت لگ رہی ہے تو یہ بھی طعنہ ہے۔ وہ پتلی لگ رہی ہے تو یہ بھی طعنہ اور موٹی لگے تو وہ بھی طعنہ ہے۔۔۔ اور وجہ صرف اور صرف عورت کو کنٹرول کرنا ہے اور جب اسے کنٹرول کرنا ہو تو اس کی ہر خوبی، برائی بنا کر پیش کی جاتی ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فواد چوہدری کو بھی کسی کچن چلانے والی نے ہی پالا ہے اور ان کی برکات سے آج وہ اس مقام تک آئے ہیں۔

تاہم آمنہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج کل نظریات کی بات کوئی نہیں کرتا اور دوسری جانب سے بھی فواد چوہدری کو ان کی ظاہری خدوخال کی بنا پر مختلف القابات دیے جائیں گے۔

’کیا بڑے مرد سیاستدان کے نام کے ساتھ بھی کچن کا لفظ استعمال کریں گے؟‘

دوسری جانب ایسی خواتین بھی ہیں جنھیں فواد چوہدری کا تبصرہ صنفی طور پر متعصبانہ نہیں لگا۔

لمز یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات سے منسلک معلمہ ندا کرمانی نے ٹویٹ کی ’یہ غلط ہے کہ فواد چوہدری نے مریم پر کبھی باورچی خانے میں کام نہ کرنے کا الزام لگایا۔ دراصل انھوں نے کہا تھا ’مریم نے اپنا کچن نہیں چلایا‘ جو کہ ایک بالکل مختلف بات ہے۔‘

جس پر صحافی زیب انسا برکی نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ’فواد نے مریم کو ایک ’بگڑی ہوئی امیر زادی‘ کہا ہے جس نے کبھی ’اپنے گھر کا کچن‘ نہیں چلایا۔ میرے خیال میں یہ تبصرہ صنفی تعصب سے بھرپور ہے۔‘

بی بی سی بات کرتے ہوئے ندا کرمانی کا کہنا تھا کہ پہلے جب میں نے انگلش میں ہیڈ لائن پڑھی تو وہ مجھے کافی متعصبانہ لگی لیکن جب میں نے ان کا پورا کلپ سنا جس میں مہنگائی کی بات ہو رہی تھی اور اس پر فواد کا کہنا تھا کہ ’مریم نے کبھی اپنا کچن نہیں چلایا کیونکہ وہ اپنے والد کے گھر میں رہ رہیں تھیں‘ اور اس کے تناظر میں میرا خیال ہے ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ’وہ کچن میں کام نہیں کر رہیں بلکہ وہ گھریلو اخراجات ادا نہیں کر رہیں۔‘

ندا کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک یہ صنفی طور پر کوئی متعصبانہ تبصرہ نہیں ہے ’وہ انھیں بگڑی امیر زادی کہہ رہے ہیں جو وہ بلاول کے بارے میں بھی کہتے رہتے ہیں‘ یہ غیر مناسب تبصرہ ضرور ہے لیکن متعصبانہ ہرگز نہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ کچن میں کام کرنے والی شرط صرف عورتوں پر ہی کیوں لاگو کی جاتی ہے اور کسی بھی عہدے پر براجمان مردوں سے یہ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ آپ نے کبھی کچن چلایا ہے؟

ندا کا کہنا تھا کہ فواد کے تبصرے میں یقیناً یہ تھوڑا گرے ایریا ہے اور میرا خود کا بھی یہی سوال ہے کہ ’کچن کا لفظ کیوں استعمال کیا‘ اور ’کیا کسی معروف اور بڑے مرد سیاستدان کے نام کے ساتھ بھی وہ کچن کا لفظ استمعال کریں گے یا نہیں؟‘

بی بی سی نے اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا موقف لینے کے لیے ان سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم اس خبر کی اشاعت تک ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp