ایک بہادر آدمی: خاور نعیم ہاشمی


یوں تو آسمان صحافت پر بہت سے ستارے جگمگاتے ہیں مگر ان ستاروں میں چاند جیسی اہمیت ایک بہادر آدمی خاور نعیم ہاشمی ہی کے حصے میں آتی ہے۔ خاور صاحب سے میرا تعلق صحافت سے وابستگی کے فوراً بعد ہی 2010۔ 2011 میں شروع ہو گیا تھا۔ اگرچہ اس تعلق کی عمر زیادہ لمبی نہیں مگر گہری ضرور ہے۔ حسب عادت انہوں نے صحافت کے میدان میں میری بہت مدد کی۔ اس راہ پرخار پر چلنے کے گر سکھائے اور مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیا۔ یہ سب کچھ ان کی عملی زندگی سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، مگر میرے لیے ان کی محبت ہمیشہ خاص رہی۔

خاور صاحب کے والد فلم انڈسٹری کے درخشاں ستارے تھے۔ آپ نے بطور ایکٹر، بطور پروڈیوسر اور بطور لکھاری کے بہت نام کمایا۔ سو سے زیادہ فلموں میں بطور اداکار کام کیا۔ نذیر صاحب کی فلموں کی ہدایت کاری بھی کی اور چنگیز خان، جادوگر اور نگار جیسی فلمیں لکھیں۔ اس کے علاوہ شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ فلم انڈسٹری کے ہمہ جہت سپوت کے گھر میں آنکھ کھولنے والے خاور نعیم ہاشمی کی پہلی خواہش اداکار بننا تھی۔ لیکن قسمت کو یہ منظور نہ تھا۔ لیکن والد صاحب کے فرمان کہ ”فن کے ہونٹوں پر ہمیشہ زہر ہوتا ہے“ کے بقول اس زہر کا نشہ ان کے ہونٹوں کو لگ چکا تھا۔ اور صحافتی لکھاری بن کر ملک کو قوم کی خدمت کرنا شروع کر دی۔

اگرچہ صحافت ایک بدنام پیشہ بن چکا ہے کہ گیلپ سروے کے مطابق لوگوں کو صحافی کا ہمسایہ بننا بھی پسند نہیں ہے، لیکن صحافت کا پیشہ اپنے اندر پیغمبرانہ صفات لیے ہوئے ہے۔ پیغام کو آگے پہنچانے کا کام سب سے پہلے جس فرشتے نے انجام دیا ان کا نام جبرائیل ہے۔ اسی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے خاور نعیم ہاشمی نے لگن کے ساتھ اس پیشے کو اپنایا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صحافت کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کو بروقت اطلاع پہنچائی جائے۔ ان کے نزدیک وقت گزرنے کے بعد اطلاع دینا صحافت نہیں بلکہ تاریخ ہے۔

خاور نعیم ہاشمی کے صحافتی کیریئر کا سب سے کٹھن دور وہ تھا جب انہیں ضیاء الحق کے دور آمریت میں ریاست اور حکومت کے خلاف بغاوت کا سب سے بڑا ملزم ٹھہرایا گیا۔ خاور صاحب اپنے صحافتی آغاز کے وقت نہایت محنت اور تندہی سے کام کر رہے تھے کہ اچانک انہیں گرفتار کر لیا گیا اور الزام بغاوت کا لگایا گیا۔ قید و بند کے صعوبتیں چلتی رہیں، حتیٰ کہ جلادوں نے کوڑے بھی لگائے مگر انہیں حق و سچ لکھنے سے روکا نہ جا سکا۔

یوں تو خاور نعیم ہاشمی نے اپنے کیریئر کا آغاز پرنٹ میڈیا سے کیا مگر آج کل وہ الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں۔ ان کے نزدیک صحافت کی درسگاہ پرنٹ میڈیا ہی ہے، لیکن پروفیشن کے اعتبار سے وہ الیکٹرانک میڈیا کو بہتر سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا میں تو با اثر لوگ خبر چھپنے سے پہلے ہی رکوا لیتے ہیں، جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں جب تک بات با اثر لوگوں تک پہنچتی ہے، خبر نشر ہو چکی ہوتی ہے، اس لیے وہ رکوائی نہیں جا سکتی۔ اگرچہ اس صورت میں با اثر لوگوں سے خطرہ زیادہ ہوتا ہے لیکن سچی بات بلاخوف و تردید کہنا شاہ صاحب کا وتیرہ رہا ہے۔

خاور نعیم ہاشمی ملکی حالات سے نالاں ضرور ہیں لیکن مایوس قطعاً نہیں۔ ملک میں جو قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، وہ اس سے سخت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اس کا سدباب چاہتے ہیں۔ مگر وہ کسی طرح بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا مشورہ نہیں دیتے بلکہ ان کے نزدیک تمام مسائل کا حل جمہوریت ہی میں پوشیدہ ہے۔ صرف جمہوری عمل کے تسلسل سے ہی ملک میں امن و امان آئے گا اور بے روزگاری، لوڈشیڈنگ وغیرہ جیسی لعنتوں سے چھٹکارا مل سکے گا۔

خاور صاحب اپنی ذات میں انجمن ہیں، الگ کمرے میں بیٹھے لکھنے میں منہمک، یوں لگتا ہے کہ دنیا سے کٹ گئے ہیں مگر وہ اپنے دل میں سارے جہان کا درد رکھتے ہیں۔ ان کے قلم کی مہارت کے کیا کہنے۔ فی البدیع لکھنے میں ایسا ملکہ ہے کہ ادھر قلم اٹھایا اور ادھر صریر خامہ سے قرطاس سیاہ ہونے شروع ہو گئے۔ مجھے اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب جو ان کا قلم چلا ہے وہ تھمے گا نہیں۔

وہ تلوار اور بندوق کی بجائے قلم اور کیمرے کی طاقت کے قائل ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا نئی نسل کے کردار کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ صحافت آزاد ہو اور صحافی اپنے فرائض بلاخوف و خطر انجام دیں۔ اسی بات کا درس وہ ان نوجوانوں کو دیتے ہیں جو اس شعبہ سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمہ تن سیکھنے کی نصیحت کرتے ہیں کیونکہ سیکھنے کا عمل انسان کی تکمیل کا باعث بنتا ہے۔

ایک اور بات جس سے اکثر لوگ ناواقف ہیں وہ یہ کہ شاہ جی شاعر بھی ہیں۔ ان کے کلام کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

بے کیف سی پت جھڑ ہے فقط میرے چمن میں
ہر صحن گلستان میں بہاراں ہے تو کیوں ہے
میں سوچ رہا ہوں
غیروں کا فضاؤں پہ، خلاؤں پہ تسلط
میرے لیے گھر بار بھی زنداں ہے تو کیوں ہے
میں سوچ رہا ہوں
ہیں اطلس و کم خواب وہاں زیر کف پا
صد چاک فقط میرا گریباں ہے تو کیوں ہے
میں سوچ رہا ہوں
شمشیر بہ کف آج بھی قاتل ہے رجز خواں
خاموش مگر خون شہیداں ہے تو کیوں ہے
میں سوچ رہا ہوں
کیوں مہر و مروت کا زمانہ ہوا دشمن
انسان ہی گر غارت انساں ہے تو کیوں ہے
میں سوچ رہا ہوں

دعا ہے کہ خاور نعیم ہاشمی صاحب ہزاروں سال جئیں تاکہ آنے والی نسلیں اس مینارۂ نور سے فیض حاصل کرتی رہیں۔

سید حسن رضا نقوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید حسن رضا نقوی

‎حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں، سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں، آج کل بطور پروڈیوسر ایک نجی ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں

syed-hassan-raza-naqvi has 10 posts and counting.See all posts by syed-hassan-raza-naqvi