اب وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ کیسا؟


ایک انتخابات ہوئے جس میں عدلیہ سمیت ریاستی اداروں کی پسند اور ناپسند بہت واضح رہی، آپ چاہیں تو بے شک یوں کہہ لیجیے کہ حمایت اور مخالفت بہت واضح رہی۔ لیکن آپ نے اس سب کے باوجود انتخابات میں حصہ لیا اور بالکل ٹھیک کیا کہ خود محترمہ بے نظیر بھٹو 1985 کے انتخابات کے بائیکاٹ کو ہمیشہ ایک غلطی قرار دیتی رہیں۔ آپ نے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کے باوجود حلف اٹھانے اور اسمبلی کا حصہ بننے کو ترجیح دی۔ میں آپ کے اس قدم کو بھی بالکل درست سمجھتا ہوں کہ یہی فیصلہ ملک میں جمہوریت اور آئینی نظام کے حق میں بہتر تھا۔ آپ نے سپیکر، وزیر اعظم اور صدر کے لیے ہونے والے انتخابات میں حصہ لے کر ان انتخابات کے نتیجہ میں وجود پانے والے حکومتی سیٹ اپ کو بھی legitimacy بخشی۔

جب آپ یہ سب کر ہی چکے ہیں تو پھر اب وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ کیسا۔ عوامی احتجاج کے ذریعے حکومت گرانے کی دھمکی کیسی۔ میں یہ سمجھنے سے مکمل طور پر قاصر ہوں کہ جلسے جلوسوں، احتجاج اور لانگ مارچوں کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ کیسے جمہوریت اور آئینی نظام کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ کس طرح اس راستے پر چل کر سولین بالادستی قائم ہو سکتی ہے، ووٹ کی عزت کیونکر ایسے یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ اگر حکومت بنانے اور گرانے کو خفیہ رائے شماری اور ووٹ کی پرچی کی بجائے جلسے جلوسوں، دھرنوں اور لانگ مارچوں سے منسلک کرنے کی ریت ڈلی تو مت بھولیے کہ جنھیں آپ پاکستان میں جمہوریت اور آئینی نظام کے مد مقابل سمجھتے ہیں ان کی دھرنے وغیرہ کروانے کی مہارت اور اہلیت آپ سے کہیں زیادہ ہے۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ پچھلے ڈھائی سالوں میں حزب اختلاف کے سیاستدانوں، آزاد منش ججوں، صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو مختلف ہتھکنڈوں سے مسلسل سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پارلیمانی کمیٹیاں مکمل طور پر غیر فعال ہو چکی ہیں۔ سینٹ کی اکثریت کو اپنی مرضی کا چیئرمین منتخب کرنے کی بھی آزادی نہیں۔ اپوزیشن کے لیے آئینی کردار ادا کرنے کی سپیس بہت حد تک سکڑ گئی ہے۔

ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے کہ اپوزیشن اپنی عوامی حمایت کی طاقت کا مظاہرہ کر کے اور بھرپور تحریک چلا کر بطور اپوزیشن کردار ادا کرنے، بات کرنے اور حکومتی و ریاستی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرنے کی چھینی گئی سپیس واپس لے۔ پارلیمنٹ کو فعال بنوائے، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنوائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آئندہ شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے دباو بڑھائے۔

ہاں اگر نمبر پورے ہوں تو آئینی اور قانونی طریقے سے حکومت کی تبدیلی بھی ضرور ہو، لیکن حکومت کے خاتمے کے لیے آئین میں درج طریقہ کے علاوہ کسی اور طریقہ کو اختیار نہ کیا جائے کہ اس سے جمہوریت اور آئینی نظام کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).