کریمہ بلوچ نے بلوچستان کو کھل کر رونے کا موقع دیا



کریمہ بلوچ کی موت نے بلوچستان کو کئی برس بعد کھل کر رونے، غم منانے، اپنے اندر دبے تکلیف اور اظہار رائے کے لیے ممنوعہ نظام کے خلاف کھل کر اپنے غصے کا اظہار کرنے کرنے کا موقع دیا۔ آج کئی برس بعد سخت ترین سرداری اور بدترین سرکاری اور ریاستی گڈ سردار کے علاقے بارکھان جہاں سردار کے خلاف بولنا اور باہر نکلنا سنگین ترین جرم ہے وہاں سے لے کر باڑ زدہ ساحل بلوچستان تک ہر شہر، قصبہ اور دیہات میں بلوچ خواتین، بچے اور نوجوان احتجاج کر رہے ہیں۔

یہ نظام ایک زاویہ میں رہتے ہوئے محدود سوچنے، اپنے رائے کا اظہار سے پہلے اس کا دم گھوٹنا اور سب اچھا ہے بلوانے پر ہر طرح کا طریقہ کار استعمال کرتا رہا۔ اس بیچ خوف، جبر اور طبقاتی استحصال، لاپتہ کرو اور مارو، پھینکو کے نظام کے خلاف بولنا تو جیسے بلوچستان کے لوگ بھول چکے تھے مگر کریمہ کی موت نے جیسے تمام منصوبے، لگائے گئے سرمائے اور بالخصوص نچلے طبقے کے درمیان بنائی گئی دیوار کو زمین بوس کر دیا۔ آج نہ صرف بلوچ چلا چلا کر رو رہے ہیں بلکہ مظلوم طبقات بھی کم تعداد میں ہی سہی مگر شور کو سن رہے ہیں۔ اس تحریر میں کریمہ کی موت کو بلوچستان کے لیے ایک عام بلوچ کی نظر سے لکھا جا رہا ہے۔

پیر کی رات دیر گئے سوشل میڈیا پر ایک خبر بلوچستان کو افسردہ کر گئی۔ یہ خبر ایسی تھی کہ جسے پڑھ اور دیکھ کر بھی کئی لوگوں نے اس لیے دیکھی ان دیکھی کرنے کی کوشش کی کہ شاید یہ خبر جھوٹی ہو۔ بلوچستان سے سماجی کارکن جلیلہ حیدر سمیت کئی دوسرے بلوچ صحافی، طالب علم اور سماجی و انسانی حقوق کے کارکن جیسے کچھ کہہ بھی رہے تھے اور کچھ چھپا بھی رہے تھے۔ لیکن رات کے بچے کھچے چند گھنٹے پتہ نہیں کیسے گزرے کہ صبح ہوئی تو حسب معمول بلکہ فوراً اور دانستہ طور پر سوشل میڈیا کھول کر دیکھنا چاہا کہ ہو سکتا ہے رات کی بات ایک خواب ہی ہو؟ مگر سوشل میڈیا کی تمام سائٹس پر سیاہی چھائی ہوئی تھی۔

بلوچستان اور دنیا بھر کے بلوچوں کے علاوہ کئی صارفین کی پروفائل تصاویر سیاہ تھیں۔ اور خبر ایک لاپتہ شخص کی ملی ہوئی لاش کی لگی ہوئی تھی۔ بلوچستان اور بلوچوں کے لیے لاپتہ کا لفظ نیا ہے اور نہ ہی لاش کی خبر۔ کیونکہ بلوچستان کی ایک ایک قبر میں کئی افراد کی لاشیں دفن ہوئی ملتی ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے یا غیر بلوچوں کی لاشیں بھی ملتی رہی ہیں لیکن اس دفعہ بلوچستان کی طرز کا یہ واقعہ سات سمندر پار انسانی حقوق کے حوالے سے مہذب مغربی دنیا کے حصے ملک کینیڈا سے تھا۔ اور خبر یہ تھی کہ بلوچ انسانی حقوق کی کارکن اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیش کی سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی لاش دو دن لاپتہ رہنے کے بعد ٹورنٹو کے قریب ایک جھیل کے کنارے ملی ہے۔

اس سے پہلے ایک بلوچ صحافی ساجد بلوچ کی لاش مئی میں ایک مہینہ لاپتہ ہونے کے بعد سویڈن سے ملی تھی۔ ان دونوں واقعات کے بعد بلوچستان کے سیاسی، صحافتی اور انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم سرکلز میں ایک سوال شدت کے ساتھ پوچھا جا رہا ہے کہ اب بلوچ جائیں تو جائیں کہاں؟ اور مغربی دنیا کے دعووں اور انسانی حقوق کے حوالے سے انتظامات پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

کریمہ بلوچ کی یہ خبر بھی حسب معمول پاکستانی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بلوچستان سے تعلق کی وجہ سے چل نہ سکی مگر انٹرنیشنل اور سوشل میڈیا پر ضرور زیر بحث رہی اور اب بھی خبر بنی ہوئی ہے۔ کریمہ بلوچ کی اس طرح کی موت پر کئی سوالات، شکوک شبات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن بلوچستان میں ان حالات میں کریمہ بلوچ کے لیے اس قدر احتجاج، افسردگی، اور غم و پریشانی کا اظہار اور وہ بھی کھل کر اظہار کرنے کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے۔

کریمہ نے اپنے لیے جو راستہ چنا تھا وہ بلوچ طالب علم سیاست کے لیے کوئی نئی اور عجیب بات نہیں تھی۔ کیونکہ بلوچستان کے کئی سیاسی طالب علم کارکن لاپتہ ہیں تو بہت سوں کی مسخ شدہ لاشیں بھی ملی ہیں۔ بقول کریمہ بلوچ کی والدہ کے کہ جب انھیں بھی کریمہ کی موت کی خبر دی گئی تو وہ بھی نہیں روئیں کیونکہ انھیں بھی کریمہ کی سیاست اور اپنے لیے چنے ہوئی راستے کا علم تھا۔ لیکن اس ماحول میں ایک عام بلوچ کے لیے کریمہ کی یہ موت اس قدر دردناک کیسے ہوئی؟ اور کیونکر ہر وہ بلوچ جو کسی سرکاری اعلی ملازمت پر فائز ہو یا عام طالب علم، سب یکساں غم میں مبتلا کیوں ہیں؟

اس کی وجہ کریمہ کی طلبہ سیاست ہی ہے۔ کیونکہ کریمہ نہ صرف ایک ایسی سیاست کر رہی تھی اور ایک ایسی تنظیم کی رکن تھیں جو نہ صرف ریاست کے لیے کالعدم تھی بلکہ بلوچ سرداری، جاگیرداری، اشرافیہ و طبقاتی نظام کے خلاف ایک آواز تھی۔ وہ قدامت پسند کہلانے والے بلوچ معاشرے میں اس وقت طلبہ سیاست کی سرگرم قیادت بنی جب بلوچ مرد بھی خوف کے سائے میں ایسی جرات نہ کرسکے۔ وہ بلوچ خواتین کے لیے بیداری کی وجہ بنی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو اس وقت سنبھالے رکھا جب اس تنظیم کو ناصرف ریاست کی طرف سے پابندیوں کا سامنا تھا بلکہ سرداروں، جاگیرداروں اور اشرافیہ کے لیے بلوچ معاشرے میں سیاسی شعور اور برابری کی بات کرتی رہی۔ پدرشاہی اور سرداری نظام کو للکارتی رہی اور لاپتہ بلوچوں کے لیے آواز بلند کرتی رہی۔

جب بلوچستان میں طلبہ سیاست شجر ممنوعہ قرار پائی تو وہ بلوچ طلبہ کی قیادت کرنے آگے آئی اور انھیں کسی سردار کے درباری یا کسی کے الیکشن مہم میں جھنڈے لگانے سے بچانے کے لیے بلوچ قومی تحریک اور مظلوم اقوام کی حقوق کے لیے متحرک کرنے کے لیے کام کرتی رہی۔ اگر ریاست اور بلوچستان کے سرداروں کا گٹھ جوڑ، بلوچستان کے اکثریتی گڈ سرداروں کی حکمرانی اور ریاست کی پشت پناہی کی بجائے ان سرداروں کی، آئین و قانون اور انصاف و انسانی حقوق کی آزادی پر ہوتی تو شاید کریمہ ملک چھوڑ کر دیار غیر میں سیاسی پناہ نہ لیتی۔

کریمہ کہ موت نہ صرف ان کے تنظیم اور خاندان کے لیے افسوس ناک ہے بلکہ ہر ایک عام انسان کے لئے جو جاگیرداری، سرداری، مافیاز، اور عورت دشمن سماج کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اور خصوصاً بلوچستان جیسے زمین کے لیے تو یہ موت کربلا سے کم نہیں جہاں ایک عام بلوچ طالب علم کے لیے پڑھنے لکھنے کے باوجود بھی کسی سردار، میر، نواب یا کسی سوداگر کے تابع ہو کر زندگی گزارنا لازم ہو تاکہ حاصل کردہ علم کسی سرکاری ٹھیکہ یا پارٹی میں عہدے کے لیے کام آ سکے۔

بلوچستان واقعی ہی غم زدہ ہے کیونکہ نہ تو کریمہ کوئی سردار تھی نہ ہی سرکاری شخصیت۔ باوجود اس کے وہ ایک عام بلوچ طالبہ تھی جو عام بلوچوں کی پابندیوں کی شکار طلبہ تنظیم کی رکن اور لیڈر کے حیثیت سے اندرون بلوچستان کے جاگیرداروں، سرداروں اور سرمایہ داروں کے لیے خطرہ تھی بلکہ آئین و قانون کی مالک ریاست کے لیے بھی کالعدم کا درجہ رکھتی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).