عصمت چغتائی کا ”دوزخی“


بہن اور بھائی کا رشتہ بہت انو کھا، دلچسپ اور دل فریب ہوتا ہے۔ زندگی پل پل جتنے رنگ بدلتی ہے یہ رشتہ انھیں رنگوں سے ہم آمیز ہوتا چلاجاتا ہے۔ کبھی یہ رشتہ گڑ سے میٹھالگتا ہے اور کبھی سقراط کے پیالے جیسا۔ ایک بہن اپنے بھائی سے اتنی ہی محبت کرتی ہے جتنی اپنے آپ سے کر سکتی ہے اور نفرت کا پیمانہ بھی کم و بیش یہی ہے۔ محبت اور نفرت کا یہی رس اس رشتے کو امرت بناتا ہے۔ نفرت کے جھوٹ اور محبت کے سچ سے بنا ایک ایسا رشتہ عصمت چغتائی کے خاکے ”دوزخی“ میں بھی دکھائی دیتا ہے۔

دوزخی کون ہے؟ عصمت کا بڑا بھائی عظیم بیگ چغتائی۔ ایک ناول نگار، ڈراما نگار، مضمون اور افسا نہ نویس اور ان سب پہ بھاری ایک مزاح نگار بھی۔ اس پیدائشی مریض سے زندگی نے جتنے بھی مذاق کیے وہ سب اس نے سود سمیت لوٹا دیے اور یوں اردو ادب کی دنیا کو ایک عمدہ مزاح نگار مل گیا۔ اور ”دوزخی“ بھی۔

خاکے میں عصمت چغتائی نے اپنے بھائی کو دوزخی کے روپ میں پیش کیا ہے۔ جس کی پیش بینی اس کے اعزہ اور اقربا کیا کرتے تھے۔ عنوان کے ساتھ ہی خاکے میں نفرت اور محبت کا کھیل شروع ہو جاتا ہے خاکے میں جا بجا عصمت نے عظیم بیگ کی شخصیت اور عادات سے اپنی نفرت اور چڑ کا اظہار کیا ہے۔ جو ان کے خاندان کے ہر بندے کی دین ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہن کی فطری محبت کا رنگ بھی نمایا ں ہوتا نظر آتا ہے۔ یحیی امجد نے اپنے مضمون ”اردو خاکہ نگاری میں“ عصمت چغتائی پہ یہ اعتراض کیا ہے کہ انھوں نے اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کی خامیاں اتنی محبت سے بیان کی ہیں کہ ان سے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے اور خامیاں خامیاں نہیں لگتیں۔

یحیی امجد کی رائے کا احترام اپنی جگہ در حقیقت یہ خاکہ بہن اور بھائی کے مابین فطری جذبوں کے بہاو پر استوار کیا گیا ہے۔ جس میں ایسی نفرت بھری محبت ہے جو قاری کو آزادی رائے کا بھر پور حق دیتی ہے۔ وہ چاہے تو محبت کرے چاہے تو نفرت سے منہ پھیر لے۔ اہم نکتہ تو یہ ہے کہ اس خاکے میں کہیں خامیوں کی توجیہہ نہیں پیش کی گئی۔ ہاں اس میں ہماری تہذیب کا وہ رویہ ضرور موجود ہے جو ایک مرے ہوئے انسان سے روا رکھا جاتا ہے۔ اس لیے عصمت کی انوکھی محبت و ہمدردی بھائی کے مرنے کے بعد زیادہ شدت سے سامنے آتی ہے۔

20 اگست کی صبح عظیم بیگ چغتائی مر رہے ہیں شمیم عصمت کو جگانے آتی ہے۔ پر عصمت کیا کہتی ہے؟

”وہ کبھی ختم نہ ہوں گے بیکار مجھے جگا رہی ہو“ میں نے بگڑ کر صبح کی ٹھنڈی ہوا میں پھر سو جانے کا رادہ کیا۔

”ارے کمبخت تجھے یاد کر رہے ہیں“ شمیم نے کچھ پریشان ہو کر ہلایا۔

”ان سے کہہ دو اب حشر کے دن ملیں گے۔ ارے شمیم وہ کبھی نہیں مر سکتے“ میں نے وثوق سے کہا۔ (اردو کے بہترین شخصی خاکے ’مرتب‘ مبین مرزا ’جلد اول‘ ص 334 )

اب بڑا بھائی اس دنیا میں نہیں رہا۔

”مرنے سے کیا ہوتا ہے۔ میرے لیے تو وہ مر کر ہی جیے اور نہ جانے کتنوں کے لیے مرنے کے بعد پیدا ہوں گے اور برابر پیدا ہوتے رہیں گے۔“ (ص 334 )

ایک خاکے میں حلیہ نگاری کا حربہ اچھے سنبھایاجائے تو خاکے کا رنگ تو چوکھا ہوتا ہی ہے شخصیت کی لفظی تصویر بھی ہمیشہ کے لیے ادب کے نگار خانے میں جمع ہو جاتی ہے۔ عصمت نے بھی ایک ایسی ہی متحرک تصویر بنائی ہے۔ زرادیکھیے۔

”پل بھر میں وہ غم اور دکھ میں ڈوبی ہوئی مسکرانے کی کو شش کرتی ہوئی آنکھیں، وہ اندوہناک سیاہ گھٹاوں کی طرح مرجھائے ہوئے چہرے پر پڑے ہوئے گھنے بال، وہ پیلی نیلاہٹ لیے ہوئے بلند پیشانی پژمردہ اودے ہونٹ جن کے اندر قبل از وقت توڑے ہوئے ناہموار دانت اور لاغر سوکھے سوکھے ہاتھ اور عورتوں جیسے نازک، دواوں میں بسی ہوئی لمبی انگلیوں والے ہاتھ اور پھر ان ہاتھوں پر ورم آ گیا تھا۔“

(اص 331 )

یہ خاکہ افسانے جیسا لطف رکھتاہے۔ جو آغاز ہی میں اپنے قاری کو اک سحر انگیز تجسس میں جکڑ لیتا ہے کہ دیکھیے کیا گل کھلے ہے فصل گل تو دور۔ ”دوزخی“ کا تانا بانا گھر کی چار دیواری میں بنا گیا ہے اور عصمت نے چاردیوای کے ا س گریباں کو اپنے کمال فن سے چاک کیا ہے۔ گویا انگلیاں فگار اس کی، خامہ خونچکاں اس کا۔ جزئیات نگاری کے فن سے آراستہ یہ خاکہ عظیم بیگ چغتائی کے معمو لات اور دلچسپیوں کو بہ خوبی بیان کرتا ہے۔ مثلاً قرآن شریف کو لیٹ کر پڑھنا، بے شمارآیات اور احادیث ازبر ہونا اور ان کا برملا استعمال کرنا، یزید سے محبت، پردے کے خلاف ہونا، فقیر بچوں کے ناچ اور گانے کا شوقین ہونا، جھوٹ سے دلچسپی، پیری مریدی کو ڈھونگ سمجھنا، اور مکر وفریب سے عشق۔

عصمت کہتی ہیں

”انھیں دھوکہ باز اور مکار آدمی سے مل کر بڑی خوشی ہوتی تھی۔ کہتے تھے دھوکہ اور مکاری مذاق نہیں عقل چاہیے ان چیزوں کے لیے“ ( ص 337 )

صابر لودھی صاحب نے ”بھلایا نہ جائے گا“ کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ

”بھرپور خاکہ اس وقت تک نہیں لکھا جا سکتا جب تک کسی شخصیت کے جمال و کمال کے مختلف پہلو گرفت میں نہ آ جائیں چند ملا قاتوں میں شخصیت کے پرت نہیں کھلتے۔ دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہو۔ (ص 10 )

”دوزخی“ ایک ایسا ہی بھر پور خاکہ ہے جس میں عصمت نے عظیم بیگ چغتائی کی شخصیت اور فن کو پرت پرت بیان کرنے کی سعئی حاصل کی ہے۔ اوران کے فن پاروں کا عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہونے والی تحریروں پہ خود لوٹ پوٹ ہو کے دکھایا ہے۔ ان تحریروں میں ان کی ذات اور زندگی کو تلاشا ہے۔ ”خانم“ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اس میں ان کے اپنے جیسے گھروں کی کہانی کی ہے۔ ”کھرپا بہادر“ کے حوالے سے کہتی ہیں کہ عظیم اپنی زندگی میں جو کرنا چا ہتے تھے وہ اپنے ہیروز کے ذریعے کروا لیتے تھے۔ گویا

”وہ جو کچھ نہ تھے افسانہ میں وہی بن کر دل کی آگ بجھا لیتے تھے۔ کچھ تو چاہیے نا جینے کے لیے“ (ص 333 )

اسلوب خاکے کی جان ہوتا ہے۔ ”دوز خی“ کا اسلوب رواں، دل کش اور جان دارہے۔ لہجے کا خلوص اس بیانیے کو منفرد بناتا ہے۔ اور کہیں کہیں عظیم بیگ چغتائی کی گفتگو کومن و عن شامل کرنے کی تکنیک اسے پر لطف بھی بناتی ہے۔ ذرا عظیم بیگ چغتائی کو خاکے میں بولتا تو سنیے

”اگر دوزخ میں رہے تو ہمارے سارے جراثیم تو مر جائیں گے جنت میں تو ہم سارے مولویوں کو دق میں لپیٹ لیں گے۔“ (ص 338 )

ناقدین نے اس خاکے کو اردوخاکہ نگاری کا اک نیا موڑ قرار دیا ہے۔ لیکن اب ایسی مہار کون موڑے گا؟ کون لکھے گا ایسا خاکہ مگر عصمت کے سوا؟ اسی لیے تو منٹو نے اپنی بہن کے اعتراضات پہ کہا تھا ”اقبال اگر میری موت پر تم ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کرو تو خدا کی قسم میں آج ہی مرنے کے لیے تیار ہوں“

اور کوئی اس خاکے پہ کیوں نہ مرے جس کا اختتامیہ ہو:
”فرق ہی کیا ایک دوزخ سے دوسری دوزخ میں دوزخی کا کیا ٹھکانہ“ (ص 338 )
منٹو نے عصمت کے بارے میں کہا تھا کہ یہ تو کم بخت بالکل عورت نکلی۔ معنی اورلفظ منٹو کی امانت۔
یہ تو کم بخت بالکل بہن نکلی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).