2020ء تو چار سو بیس نکلا


نہ دو ہزار بیس تم کیسے چار سو بیس ہو۔ پتہ نہیں تمہاری اماں نے کیا کھا کے تم کو جنم دیا کہ تم نے پوری دنیا کو تین تیرہ کر ڈالا۔

کیا بے سکونی سی بے سکونی ہے۔ نیند تو اڑائی سو اڑائی بھوک چین سب تہس نہس کر دیا۔ پتا بھی کھڑکے تو دل دھڑکتا ہے۔

یہاں، وہاں، کہاں۔ کچھ تو چھوڑ دیا ہوتا۔

کالے، پیلے، بھورے، گورے، لمبے، چھوٹے، موٹے، پتلے، بچے، کچے، عورت، مرد، غریب، امیر، فقیر، حاکم، محکوم، ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھ، جین، یہودی، لادین تم نے ساری تخصیص ختم کردی۔ سب منہ چھپانے پر مجبور ہیں جو نہ چھپائے اسے چھپانے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔

بھلا بتائیے یہ کہاں کی شرافت ہے کہ چہرہ جو ہر انسان کا تعارف ہوتا ہے اسے ہی کردہ ناکردہ گناہ کی پاداش میں چھپانا مرد مومن اور مومنات کی پہچان بنی ہے۔

ٹھنڈ سے سکڑی کرسی پے بیٹھی انتہائی قنوطیت کے عالم میں گزرتے ہوئے سال کے بارے میں سوچ رہی تھی جس کی پونچھ کی نوک گزرنے کو رہ گئی ہے۔

گزرتے ہوئے اس سال کے 366 دنوں کے 8784 گھنٹے اور ان گھنٹوں کے 527040 منٹ اور ان منٹوں کے 31622400 سیکنڈ میری ادھ کھلی آنکھوں میں چک پھیر یاں کھانے لگے۔

کیا کچھ نہیں دیکھ لیا اور سہ لیا ان گھنٹوں منٹوں اور سیکنڈوں کے درمیان سال چڑھا تو چڑھنے کے چند دن بعد ہی امی داغ مفارقت دے گئیں جنھوں نے زندگی کی ڈور کے ٹوٹنے سے دس دن قبل پنشن کی تصدیق کے لئے آنے والے سرکاری ہرکارے سے بلند آواز میں کہا تھا ”بتا دینا جا کے میں اگلے دس سال تک کہیں نہیں جا رہی ہو“۔ صرف دس دن بعد وہ سوتی کی سوتی رہ گئیں۔

بہن بھائی دور نزدیک کے عزیز اقارب، دوست احباب آتے رہے جاتے رہے۔ سمندر پار سے آنے والوں کو بس ایک ہی فکر تھی کہ کسی طرح اپنے ٹھکانوں پے پہنچ جائیں کہ چین سے آنے والی خبریں اچھی نہ تھیں حفظ ما تقدم کے طور پر باقی کی دنیا ان سے فضائی رابطہ منقطع کر رہی تھی۔

وقت آگے کو چلا تو امریکہ نارتھ امریکہ کے در دیوار بھی ہلنے لگے ادھر یورپ میں بھی کچھ تھرتھری سی آئی پہلے انھوں نے آپس میں روابط کو سخت کیا پھر دنیا کی جانب کھلنے والے دروازوں کو مقفل کر لیا۔ پہلے پہل سب ہی کا خیال تھا کہ چند دنوں میں پھر سے سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ایسا ہو نہ سکا۔

میں نہ مانوں کا جیتا جاگتا روپ ڈونلڈ ٹرمپ کے روپ میں اچھلتا کو دتا رہا کہ اسے اپنے انتخابات کی فکر تھی۔

سعودی عرب نے پہلے عمرہ کو قفل لگایا پھر حج کے در بھی بند کر دیے۔ لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں اعمال اور عذاب کی باتیں ہوتی رہیں لیکن حج نہ ہوسکا۔

ہمارے اپنے ہاں بھی بہت کچھ بند ہوا، بند ہو کے کھلا سال گزر گیا کھلنے بند ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔

اپنے ٹھنڈے پیروں کو دھوپ کے رخ کرتے ہوئے میں نے سوچا دنیا پہ کیا وقت آیا ہے کہ وہ جنھوں نے چاند پے کمندیں ڈالیں اس کی خاک کو قدموں تلے روندا وہ بھی آج راندہ درگاہ بنے ہوئے ہیں۔

یوں تو حضرت انساں پر بڑے بڑے وقت آ کے گزر گئے ہیں۔ جنگوں کی شکل میں، وباؤں کے روپ میں، قہر آسمانی بن کے، پانی اور آگ بن کے اس پر بھی بس نہ چلا تو کبھی زمین کا سینہ شق ہو گیا اور کبھی الٹ پلٹ۔

فرق صرف یہ آیا کہ پہلے دنیا بہت بڑی تھی ایک محلے کی خبر دوسرے محلے تک دنوں میں پہنچتی تھی اور اب جو دنیا سمٹ کے مٹھی میں آ گئی ہے تو بات منہ سے نکلتی نہیں کہ کوٹھوں چڑھ جاتی ہے دنوں کے فاصلے سیکنڈوں میں طے کر لیتی ہے اور ہم سب دنیا کا تماشا گھر کی دیوار پے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

سو یہ 366 دنوں کا سال شب و روز کا تماشا دیکھتے دیکھتے گزر گیا۔
اماں کیا گئیں دنیا سے لگتا ہے دنیا ہی روٹھ گئی۔ گھر خالی دل خالی۔

یہ تو ہوا سو ہوا وہ جو عزیز از جان دوست تھی جس کی زندگی کو چار سال سے دھکے لگا لگا کے چلا رہے تھے۔ وہ بھی بہت ساری گفتگو اور بحث کے بعد یہی کہتی تھی ”ارے تو میں کون سا مر رہی ہوں“ ۔ وہ بھی اگست کی ایک شام آنکھیں مو ند گئی۔ دکھوں کی دنیا میں ایک اور دکھ آ ملا۔

ہم سب کی زندگی میں ایسے کتنے ہی واقعات ہوتے ہیں کہ حقیقت حال دیوار پہ لکھی نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن نہ تو نظریں چار کرنے کو دل چاہتا ہے نہ رد گردانی کو بس خود فریبی کے جال میں آنکھیں بند کیے رکھنا ہی اچھا لگتا ہے۔

اپنی دوست کے معاملے میں کچھ ایسا ہی حال ہمارا بھی رہا۔

دوست کو یاد کرتے کرتے ایک بار پھر پیروں کی ٹھنڈک نے ہوشیار کیا تو کرسی کو مزید دھوپ میں کھینچا اور گزرتے سال کی راکھ کو پھونک ماری تو کراچی کی بے ہنگم سی بارش لہریں مارنے لگی کیا پانی سا پانی تھا۔ گھر کا اندر اور گھر کا باہر سب پانی پانی تھا۔ اندھیرے میں ڈوبا پانی سے بھرا اور بھیگا ہوا وہ دن بھی زندگی کا ایک عجیب ہی دن تھا جب آنکھوں کے سامنے کھڑے کھڑے منٹوں میں گھر کے اندر ہر طرف سے پانی منہ اٹھائے در آیا تھا۔ گھٹنوں سے اوپر پانی میں، پانی سے بھرے گھر کو تالا لگا کے نکلنا پڑا تو لگ رہا تھا احساس کی ساری حسیں ختم ہو گئی ہیں۔ نہ ہنسی آتی تھی نہ رونا۔ ہفتے بعد گھر کو واپسی ہوئی تو آیا پانی اپنے سنگین نشانات کے ساتھ اب بھی کہیں کہیں موجود تھا۔ بہت کچھ الٹ پلٹ ہوا اور بات گھر بدلنے پر آ کے رکی۔

اس سے آگے کے دو ماہ تبدیلی مکاں میں گزر گئے۔ مکاں کو گھر بنانے میں کیسا پتہ پانی ہوتا ہے سب ہی پر گزرتی ہے سو ہم پے بھی گزری۔

پتا نہیں کیسا سال چڑھا تھا۔

کان اچھی بات اچھی خبر سننے کو ترس گئے۔ زندگی میں دنیا سے گزر جانے والوں کی جتنی خبریں ان 364 دنوں میں سنی ہیں نہ کبھی سنی تھیں نہ سوچی تھیں۔

خبروں کی اس آپا دھاپی میں کچھ اچھی خبریں بھی جیون کی نیا کو سہارا دیتی رہیں۔

امریکہ میں ٹرمپ کا چراغ گل ہو گیا۔ برطانیہ یورپی یونین کی پتلی گلی سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ چین نے زمین پر قلانچیں بھرتے بھرتے چاند پر بھی زقند لگادی۔ سعودی عرب نے 90 کے زاویہ پر خود کو موڑ لیا اس موڑ مڑنے میں ایک بات بہت اچھی ہوئی کہ صدیوں پرانی روایات میں گھری سعودی عورت کو بھی دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور برتنے کے نہ صرف مواقع مل گئے اسے کھلے آسمان تلے کھلی فضا میں لمبی سانس لینے کی آزادی بھی حاصل ہو گئی۔

مواقع کی اس دوڑ میں خلیجی ریاستیں بھی پیچھے نہ رہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئیں۔ شاید اس لئے کہ تفریح کے لئے آنے والے سیاح ان کا بہت بڑا ذریعہ آمدنی ہیں۔

مندھی آنکھوں سے شیشے کے پار دیکھتے ہوئے میں نے سوچا میں کیوں قاضی جی بنی ہوئی ہوں دنیا کے غم میں۔

تب ہی کانوں میں کشمیر اور انڈیا کے مختلف شہروں میں مذہبی، نسلی اور زبان کی بنیاد پر ہونے والے ظلم و ستم کی آہ و بکا گونجنے لگی۔ کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے ایک خیال سرسراتا ہوا گزرا کہ ہمارے پڑوسی بھی عجیب فطرت کے مالک ہیں نہ خود سکون سے بیٹھتے ہیں نہ دوسروں کر بیٹھنے دیتے ہیں۔ افغانستان سے جو کچھ اچھی خبریں آنے لگی تھیں گاہے با گاہے ہونے والے دھماکے ان میں دراڑیں ڈالتے رہتے ہیں۔

آف یہ دنیا!

میں نے دوبارہ سے پاؤں پھیلاتے ہوئے سوچا کتنے دکھ ہیں ہمارے دامن میں، ہمارے اطراف میں لیکن پھر بھی ہم سب جینا چاہتے ہیں اور جینے کی خواہش میں مرتے رہتے ہیں۔

مرنے کا خیال آتے ہی اس ختم ہوتے سال کے تین سو چونسٹھویں دن کی شام ساڑھے چھ بجے مجھے صرف کورونا نامی وبا سے مرنے والوں کے اعداد و شمار نے کچھ لمحوں کے لئے گنگ کر دیا۔

دنیا نامی اس کرے پر 2020 کے دوران اب تک آٹھ کروڑ سترہ لاکھ پچھتر ہزار پانچ سو چھیاسی افراد اس وبا سے متاثر ہوچکے ہیں ان میں سے ایک کروڑ سات لاکھ چوراسی ہزار دو سو ستر انسانوں نے داعی اجل کو لبیک کہا ہے۔ امریکہ میں اب تک ایک کروڑ ستانوے لاکھ اکیاسی ہزار سات سو اٹھارہ افراد متاثر اور تین لاکھ تینتالیس ہزار ایک سو بیاسی دنیا چھوڑ کے جا چکے ہیں اس دوڑ میں بھارت کا نمبر دوسرا ہے یہاں بھی ایک کروڑ بائیس لاکھ چار ہزار سات سو ستانوے متاثرین میں سے ڈیڑھ لاکھ موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

برازیل میں پچھتر لاکھ چھ ہزار آٹھ سو نوے میں سے ایک لاکھ اکیانوے ہزار چھ سو اکتالیس گزر چکے ہیں۔ روس کے اکتیس لاکھ متاثرین وبا میں سے اب تک ستائیس ہزار پیوند خاک ہوچکے ہیں۔ پڑوسی ملک ایران میں اب تک چون ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں جبکہ بارہ لاکھ کے لگ بھگ متاثرین ہیں۔ ساؤتھ افریقہ میں یوں تو وبا خاصی دیر سے پہنچی ہے لیکن اموات کا نمبر وہاں بھی ستائیس ہزار کا ہے۔

آف خدایا!

میں نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے ان تمام دوستوں کے بارے میں سوچا جو اس سال کی بھری دو پہروں اور صبح شام کے درمیان ادھر ادھر سے گزر گئے۔

سوچوں کے بھنور سے نکلتے ہوئے خود کو یقین دہانی کرائی کہ ان 364 دنوں میں بہت کچھ اچھا بھی ہوا ہے۔

اس ساری افراتفری کے باوجود چھوٹا بھائی بھاوج دو مرتبہ پاکستان ملنے آئے، بھتیجا باپ بننے والا ہے، دوسرے بھائی نے باوجود ان حالات کے ایک اور ریسٹورنٹ کھولا، بھانجے کا آسٹریلیا میں گھر تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، دوست شمیم نے سان فرانسسکو کی فضاؤں سے متاثر ہوکے شاعری شروع کردی، کزن نے کیلی فورنیا میں نیا گھر خرید لیا، دوست طارق کا بزنس بہتر ہو گیا، شین فرخ کے چہرے پہ بعد مدتوں کے رونق آ گئی، مجاہد نے پھر سے سکرین سے رابطہ جوڑ لیا، شیریں کی من پسند ملازمت میں توسیع ہو گئی،

اور
نہ نظر آنے والی وبا کے گلے کا پھندا بھی ویکسین کی شکل میں آ گیا۔
میں نے ایک عرصے بعد لکھنا شروع کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).