رشتہ کروانے والیاں کس طرح کام کرتی ہیں


کراچی میں گھر بنانا اور گھر بسانا ایک بندے کے بس کی بات نہیں رہی ہے اگر آپ کو گھر بنانا یا کرائے پر لینا ہے تو بغیر بروکر کے ممکن نہیں۔ ہمیں اس لفظ کی اردو آتی ہے مگر کیا کریں اس لفظ کی اردو لکھنا نہیں چاہتے عجیب سا لفظ ہے اسی لیے اردو پڑھاتے وقت ہم اپنے اسکول کی انتظامیہ سے گزارش کرتے ہیں کہ کہیں کہیں اردو کی جگہ انگریزی کا سہارا لینے دیا کریں مگر آگے سے معیاری اردو کا سن کر خاموش ہونا پڑتا ہے ورنہ یقین جانیئے جو مزا ”دفع ہو جاؤ“ کہہ کر غصہ نکالنے میں ہے وہ گیٹ آؤٹ میں قطعی نہیں ہے اور مجبوری ایسی کہ آپ گیٹ آؤٹ کا سہارا نہیں لے سکتے بس اسی لیے ”جماعت سے باہر نکل جائیے“ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

خیر بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی ہم یہ کہہ رہے تھے کہ کراچی میں گھر بنایا یا کرائے پر لینا ان بروکر کے ہاتھ میں آ گیا ہے آپ کو لازمی ان کا سہارا لینا پڑتا ہے اگر کسی جاننے والے کے ذریعے کر لیں تو وہ علیحدہ بات ہے۔

بالکل اسی طرح گھر بسانا بھی اب ان بروکر کے ہاتھ میں آ گیا ہے آپ لاکھ انہیں نئے زمانے کے جدید نام دے دیں یہاں ہمیں اردو کا لفظ انہی کے لیے لگتا ہے بس صرف تعلیم مرتبہ اور مقام ہاتھ روک لیتا ہے ورنہ ہم بروکر کی اردو ہی لکھتے۔

ایک زمانہ تھا جب رشتے ایک دوسرے کو بتا دیے جاتے فلاں کا لڑکا اور فلانے کی لڑکی جب معیارات بہت بڑھے نہیں تھے خود غرضیوں نے زیادہ جڑیں نہیں پھیلائیں تھیں ہر گھر کی لڑکی اپنی عزت ہی لگا کرتی تھی۔

خیر ہم بات کر رہے تھے رشتہ کروانے والوں کی ایک زمانے میں اچانک یہ خودرو پودے کی طرح نکلنے لگے، پتا چلا کیوں کہ خاندان والے تو رشتہ نہیں بھیجیں گیں تو اب ان کا سہارا لیا جائے گا تو جناب جہاں چار لڑکیاں ہوتی ہیں وہاں ماں باپ سے زیادہ سارے زمانے کو اور بالخصوص خاندان والوں کو فکر ستانے لگتی ہے ابھی تک شادی نہیں ہوئی اور یہ فکر پندرہ سولہ سال کی عمر سے ہونے لگتی ہے ہاں البتہ رشتے نہیں بھیجے جاتے اور اگر غلطی سے خاندان کی طرف سے کوئی رشتہ آ گیا تو آنکھ بند کر کے سمجھ لیں کہ اپنے سب سے ہونہار نکمے لڑکے کا رشتہ احسان کے طور پر لایا گیا ہے جس کو بطور بیٹا بھی آپ کو گود لینا ہے اور اگر آپ کی بیٹی کمائے تو زندگی تو جنت بن جائے گی اور اگر آپ نے احسان لینے انکار کیا تو جناب خاندانی ایکسرے مشین آپ کی بیٹی کی وہ بھی خوبی بتا دیتی ہے جس کا علم اس لڑکی کو بھی نہیں ہوتا۔

خیر ہم پھر اپنے اصل موضوع سے ہٹ گئے خیر ہم بات کر رہے تھے رشتہ کروانے والے کی، پتا یہ چلا کہ رشتہ کروانے والی کچھ خواتین ہیں جو کہ ان پڑھ ہیں وہ گھر میں بیٹھ کر فون کھڑکھڑا کے رشتے کرواتی ہیں کچھ نے باقاعدہ آفس کھول رکھے ہیں یہ خواتین ذرا پڑھی لکھی ( ہم یہاں تعلیم یافتہ بالکل بھی نہیں کہیں گے ) ہیں اور اپنا وار بہت سوچ سمجھ کے کرتی ہیں جیسے کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کے رشتہ کے لئے آتا ہے تو بہت دبنگ لہجے میں بات کرتی ہیں اور انہیں لڑکی کا اصلی شناختی کارڈ لانے کو کہتی ہیں بھئی آپ لوگ اپنی بیٹی کی عمر چھپاتے ہیں ہمیں آگے بھی سچ ہی بتانا ہوتا ہمارا سارا کام سچ پر چل رہا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

وہ بچارا آدمی جس کی بیٹی ابھی بیس بائیس سال کی ہی ہے اسے لگتا ہے کہ بہت دیر ہو گئی میری بیٹی کی شادی تو بہت پہلے ہو جانی تھی۔

یہ رشتہ کروانے والے کس طرح کام کرتے ہیں آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں اور اس میں سر فہرست مسز خان جیسے لوگ ہیں جنہیں ٹی وی چینلز والے پروموٹ کرتے ہیں آخر کو ٹی وی چینل والوں کو مارننگ شوز بھی چلانے ہوتے ہیں اور ان خواتین کو اپنا بزنس، اور ویسے بھی یہ یقیناً پسے دے کر ٹی شوز میں آتی ہوں گیں ورنہ فی سبیل اللہ یہ لڑکے کی تصویر نہ دکھائیں۔

آج سے تقریباً بیس سال پہلے ان رشتہ کروانے والیوں نے اپنا ریٹ فی لڑکی ہزار روپے رکھا تھا یہ ان کی رجسٹریشن فیس ہوتی تھی نکاح پر تیس چالیس ہزار روپے یہ قاضی سے پہلے لیتی تھیں اور لڑکوں والوں کو ہر طرح کی سہولت دینا ان کا اولین فرض ہوتا ہے۔

ان کے پاس ایک لڑکے کا رشتہ ہوتا ہے جسے وہ ہر گھر میں بھیجتی ہیں چاہے وہ ان پڑھ ہو جاہل ہو اس کا رشتہ ایک ایم اے پاس لڑکی گھر چلا جا تا ہے یہ صرف اپنے نمبر پورے کرتی ہیں کہ میں نے دس رشتے آپ کو دکھائے اور آپ کو ایک بھی پسند نہیں آیا اور چھ مہینے تک رجسٹریشن ختم اب دوبارہ کروائیں۔

دوسرا ان کی زندگی کا مقصد لڑکی والوں کو اس بات کا احساس دلانا کہ آپ کی لڑکی کی عمر اب اتنی زیادہ ہو گئی ہے یہ جو رشتہ مل رہا ہے اس پر ہی شکر کریں پھر لڑکی کی تربیت کی بھی انہیں سب سے زیادہ فکر ہوتی ہے پھر خامیاں بھی گنوائیں جاتی ہیں برداشت کرنا پڑتا ہے گزارا کرنا پڑتا ہے آپ اپنی بیٹی کی عمر نکال دیں گے وغیرہ پھر ایسے رشتے لائے جاتے ہیں جو جہیز میں مکان دکان یا رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔

حقیقت تو یہ جس ماں کا لڑکا تعلیم یافتہ ہے برسرروزگار اسے کسی ایسے رشتہ کروانے والے کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی وہ اپنے آس پاس ہی اپنی بہو کو منتخب کر لیتی ہیں ہاں وہ خواتین ضرور جاتی ہیں جنہیں اپنے لڑکوں کو یا تو کیش کروانا ہوتا ہے یا ان کی کوی ڈیمانڈ ہوتی ہے اور جب سے یہ ڈیمانڈز شروع ہوئی ہے جس میں امریکہ یا کینیڈا لڑکوں کو بھیجنا سر فہرست ہے تب سے یہ خودرو پودے تناور درخت بن گے ہیں۔

پہلے انہیں فون کے بل کا خرچہ اٹھانا پڑتا تھا اب یہ سہولت واٹس اپ نے پوری کر دی ہے اس لیے اب یہ واٹس اپ پہ گروپ بنا لیتی ہیں ان کی پوری ایک چین ہوتی ہے جو ایک دوسرے کو رشتے ٹرانسفر کرتی ہیں رجسٹریشن فیس باقاعدہ طے ہوتی ہے پاکستانی لڑکا دو ہزار روپے، دبئی اومان کے رشتے کے لیے پانچ ہزار اور امریکہ اور کینیڈا کے لیے پندرہ ہزار تک کی صرف رجسٹریشن فیس ہوتی ہے اور اب یہ رشتہ طے ہونے کا انتظار نہیں کرتیں اب منگنی طے ہونے پر ہی اپنے پیسے کھرے کر لیتی ہیں جو کہ چالیس پینتالیس ہزار یا شاید اس سے بھی زیادہ تک بھی جا سکتی ہے۔

چلیں یہاں تک بات ہو گئی کہ جب خاندانوں کے درمیان خودغرضی اور منافقت کی بیل چڑھنے لگے گی تو اس طرح کی دکانیں سجنے لگتی ہیں مگر سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ لڑکیوں اور ان کے والدین کو احساس کمتری میں یہی مبتلا کرتی ہیں جبکہ دوسری طرف لڑکے والوں کو بالکل اس بات کا احساس نہیں دلا رہی ہوتی کہ جس لڑکی کو دکھایا اس پر شکر ادا کریں ورنہ آپ کا بیٹا اس قابل نہیں ہے جبکہ پیسے انہیں صرف لڑکی والے دیتے ہیں لڑکے والوں سے انہیں کچھ نہیں ملتا۔ لیکن ان کی تمام ہمدردی اور سہولت صرف لڑکے والوں کے لیے ہی ہے۔

آپ ہی سوچیں جب لڑکی ڈیمانڈ پر آپ کے لڑکے کی زندگی میں شامل ہوگی تو اسے صرف لڑکے سے ہی غرض ہوگا اسے اس کی ماں بہن بھائی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا کیونکہ یہ کھیل کافی عرصے سے کھیلا جا رہا ہے اب ایک نسل تیار ہو گئی ہے وہ بس شادی ہونے تک سارے اخلاقیات نبھا رہی ہوتی ہیں اس کے بعد اسے آپ کے بیٹے کو لے کر اڑ ہی جانا ہے اسی لیے اپنے قابل اور کماؤ پوت بیٹوں کے لیے اسی کی طرح کی لڑکی دیکھیں اور بیٹوں کو محنت کا عادی بنائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا بیٹا امریکہ کو پیارا ہو جائے اور آپ کی خوبصورت بیٹٰی ایسی کسی ڈیمانڈ پوری نہ ہونے کی وجہ سے ان رشتہ کروانے والوں کے ہاتھوں خوار ہوں۔

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).