پانیوں پر لکھے ہوئے نام والا جان کیٹس


”جانتے ہو شیلے اور بائرن جب بھی روم آئے اسی کیفے میں کافی پینے آتے ہیں۔ سیورن شیلے بھی کیا کمال کا شاعر ہے۔“

اور جب وہ بائرن اور شیلے کے ساتھ اپنی محبتوں کا ذکر کرتا تھا۔ اس نے بہت سے اور اپنے گہرے دوستوں کے نام لینے سے گریز کیا تھا۔ اب ہانٹ کی بیوی کو تپ دق ہے۔ اس کے ڈھیر سارے بچے ہیں اور اس پر قرضوں کا بوجھ ہے۔ اس نے اپنے خوبصورت سر کو مایوسی سے ”ہونہہ“ کے سے انداز میں ہلایا تھا۔ بچنے اور جان چھڑانے کے کتنے خوبصورت بہانے ہیں۔ لیکن یہی تو وہ کڑا مقام ہے جہاں پرکھ کی کسوٹی پر رشتے اور تعلقات پہچانے جاتے ہیں۔

اٹھنے سے قبل اس نے کہا تھا۔

”Leigh Hunt کی یاد نے مجھے مضطرب کر دیا ہے۔ مگر سیورن تمہیں تو میں جان ہی نہ سکا کہ تم کتنے عظیم ہو۔“

اس کی آنکھیں احساس جذبات نے بھگو دی تھیں۔

کیفے ہاؤس کا پرانا بوڑھا اب Saxophone بجا رہا تھا اور وہ دھیمے دھیمے When I have fears کو گنگنانے لگا تھا۔

When I have fears that I may cease to be
Before my pen has glean ’d my teeming brain

اس کی صحت دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ کتنا بدمزاج اور چڑچڑا ہوتا جا رہا ہے۔ گالیاں نکالتا ہے۔ ہر بات کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتا ہے۔

ابھی ایک نئے منظر نے دروازہ کھولا ہے کمرے میں شور ہے۔ کیٹس ہاتھوں میں پکڑے تکیے کو کبھی بیڈ کی پائنتی، کبھی اس کے سرہانے اور کبھی کمزور ٹانگوں پر مارتے ہوئے اپنے حلق اور پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے چلاتے ہوئے کہتا ہے۔

”تمہیں کیا تکلیف ہے آخر۔ میرے لئے عذاب بن گئے ہو۔

مرنے دو مجھے۔ لوڈونم Laudanum کی شیشی تم نے کہاں چھپا دی ہے؟ ذلیل انسان کیوں نہیں دیتے ہو مجھے۔ کیا کرنا ہے مجھے زندہ رہ کر۔ ”

اس کا سانس اکھڑنے لگا ہے۔ بلغم حلق سے جیسے ابلنے لگی ہے۔ سیورن نے فوراً بڑھ کر اسے کلاوے میں بھر کر اس کا سر جھکاتے ہوئے کہا ہے۔

”پھینکو اسے، نکالو اندر سے۔“
اس کے بازوؤں میں نڈھال سا وہ پھر ضدی بچے کی طرح کہتا ہے۔
” مرنے دو مجھے۔“

اور پھر وہ کسی کٹی شاخ کی طرح اس کے بازوؤں میں جھولنے لگا ہے۔ اس نے دھیرے سے اسے لٹا دیا ہے۔ سانس کیسے چل رہا ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ چہرہ پسینے سے تر ہے۔ سیورن اس کے بیڈ پر بیٹھا اس کے چہرے پر نگاہیں جمائے سوچے چلے جا رہا ہے۔ سوچے چلا جا رہا ہے۔

بہت سے اور دن گزر گئے ہیں۔ ہر دن اسے موت کی طرف لے جا رہا ہے۔ ایسی
ہی ایک غم زدہ اور المناک صبح میں وہ سیورن کو ہیجانی انداز میں کہتا ہے۔

”مجھے تھام لو۔ ڈرو نہیں۔ دیکھو موت مجھے لینے کے لیے آ گئی ہے۔ میرے جسم کی پور پور میں درد ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سانس جیسے میری پسلیوں میں ٹھہر گیا ہے۔ میرے اندر شاید اب کچھ نہیں۔ خون کا قطرہ بھی نہیں۔

شیشوں سے باہر کی دنیا میں کتنی چہل پہل ہے؟ کتنے رنگ کھلے ہوئے ہیں۔ یہاں اندر کتنا سناٹا اور کتنی خاموشی ہے؟

کچھ اور دن گزر گئے ہیں۔ موسم نے تھوڑی سی انگڑائی لی ہے۔ لنڈ منڈ درختوں پر سرسبز روئیدگی پھوٹ رہی ہے۔ سیورن بے چین اور مضطرب ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا سانس کہیں اٹکا ہوا ہے۔ بس کسی لمحے کا منتظر ہے۔ اور یہ لمحہ بالآخر تئیس ( 23 ) فروری کی شب کو جب سیورن نے اسے اپنے کلاوے میں بھر کر چھاتی سے چمٹایا تو معلوم بھی نہ ہوا کہ کب اس کے اندر سے کوئی چیز نکلی اور پھر سے بند کھڑکیوں کی کسی چھوٹی سی درز سے باہر نکل گئی۔

خوبصورت کمروں کے ایک پھیلے ہوئے سلسلے میں گھستے ہوئے بے اختیار ہی میں نے سوچا تھا تھا کہ زندگی میں جن چیزوں کے لئے بندہ سسکتا ہوا مرجاتا ہے۔ موت بعض اوقات کتنی فیاضی سے وہ سب کچھ اسے دان کر دیتی ہے۔ یہ سب جو یہاں بکھرا ہوا ہے اس کے لافانی ہونے کی خواہش کا عکاس ہی تو ہے۔

یہ سیورن کا کمرہ ہے۔ ان تصویروں کے پاس کھڑی ہوں جو کیٹس کے بھائیوں کے پورٹریٹ ہیں اور جنہیں سیورن نے بنائے۔ فینی براؤن کے پوٹریٹ کو بہت دیر دیکھا ہی نہیں اس سے باتیں بھی کیں۔

”کبھی تم نے اپنے مقدر پر رشک کیا۔ تم عام سے گھر کی عام سی لڑکی جسے شاعر کی محبت نے کتنا خاص بنا دیا کہ انجانی سرزمینوں اور دور دیسوں کی لڑکیاں اور عورتیں شاعر کو پڑھنے والے مرد اور لڑکے تم سے محبت اور نفرت کے ساتھ ساتھ تم پر رشک بھی کرتے ہیں۔

Leigh Hunt اور ولیم ورڈز ورتھ کے پوٹریٹ۔ کیٹس کا لائف ماسک اور اس کی نظموں کے پہلے ایڈیشن یہاں ہیں۔

بڑے کمرے میں کرسیاں، تصویریں، خوبصورت فرش، چھت کو چھوتی الماریاں، دنیا بھر کے رومانی لٹریچر کے خزانوں سے بھری ہوئیں۔ نادر اور نایاب چیزوں سے سجی ہوئیں۔ چھوٹا سا دروازہ ساتھ کے کمرے میں کھلتا ہے۔ شو کیسوں میں اس کے سکرپٹ، فریم کیے ہوئے خطوط، ڈرائینگز کیٹس کی مدح میں ایک سونیٹ، اس کے سنہری بال، فینی کی انگوٹھی، آسکر وائلڈ کی تحریر، والٹ وٹمین Walt Whitman کی ذاتی لکھائی میں لکھا گیا مضمون۔ ماسک جیسے بائرن نے venetian carnival پر پہنا۔ الزبتھ Barrett کا تعریفی خط اور خوبصورت سینریاں سب ماحول کو اس مخصوص فضا میں لے جاتے ہیں۔ مجسمے اور دیدہ زیب فرنیچر شان میں مزید اضافے کا موجب ہیں۔

اسے میوزیم بنا دینے کی داستان بھی بڑی عجیب ہے۔

وہ کمرے جن میں کیٹس اور سیورن رہے تھے ان میں 1903 میں امریکی لکھاریوں کا ایک جوڑا ماں بیٹا جمینر وال کوٹ Walcott یہاں ٹھہرے اور انہوں نے یہاں کافی وقت گزارا۔ دونوں کو بڑا تجسس تھا۔ کمروں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ خاتون اسے خریدنا اور ایک یادگار کے طور پر محفوظ کرنے کی حد درجہ خواہش مند تھی۔ جذبے بڑے طاقتور تھے مگر پیسہ پاس نہیں تھا۔

انہی دنوں ایک امریکی شاعر رابرٹ انڈروڈ جانسن نے اسے دیکھا اس کی ابتر حالت نے اسے بہت متاثر کیا۔ روم میں رہنے والے بہت سے امریکیوں کو اس نے آواز دی۔ ان کاوشوں نے برطانوی ڈپلومیٹ رینل روڈ (Rennell Rodd) کی توجہ کھینچی۔ اس نے اس اجلاس کی صدارت کی۔ جس نے گھر خریدنے اور اس ادبی ورثے کو محفوظ کرنے کی حکومتی سطح پر کاوشیں کی تھیں۔

1906 میں اسے ایڈورڈ ہفتم کی مالی اعانت سے خریدا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی اسے نازیوں سے محفوظ رکھنے کی حد درجہ کوششیں ہوئیں۔

چھوٹے سے سینما گھر میں لوگ بھرے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر ڈاکومنٹری دیکھی۔ گفٹ شاپ میں کتابوں کی قیمتوں کا جائزہ لیا۔ میرے حساب سے مہنگی تھیں۔ تین دن میں نے روم میں رہنا تھا۔ کتابوں کی دکانوں پر جانا بھی ضروری تھا تو جلدی کاہے کی ہے۔ خود سے کہا گیا۔

دونوں لڑکیوں کو رخصت ہونے سے قبل خدا حافظ کہا۔ ان کی یہ بات کتنی اچھی لگی تھی۔

یہاں آنے والے کچھ لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ کہاں آئے ہیں۔ مگر کچھ لوگ جب یہاں سے رخصت ہوتے ہیں۔ تب جانتے ہیں کہ وہ کہاں آئے تھے۔

اس کی قبر پر کیا عمدہ لکھا ہوا ہے۔ مارگریٹ نے ہی بتایا تھا۔
یہاں وہ شخص لیٹا ہوا ہے۔ جس کا نام پانیوں پر لکھا ہوا ہے۔

کاش وہ اپنی چھوٹی سی عمر میں جان سکتا کہ صدی کی اگلی نصف دہائیاں اس کے لیے بے پناہ شہرت لے کر آنے والی ہیں اور وہ وقت بھی آنے والا ہے جب وہ سب سے زیادہ پسندیدہ اور کوٹ کیا جانے والا شاعر بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3