عمر کی نقدی (5)


ایف ایس سی کے سال اول میں تھے تو ایک دن وسیم نے کہا کہ ایئرفورس میں میٹرک کی بنیاد پر کیڈٹس رکھ رہے ہیں، چلو اپلائی کرتے ہیں۔ ان دنوں راولپنڈی صدر میں ایئرفورس کا رجسٹریشن سنٹر تھا۔ ایک دن ہم دونوں بس پر پنڈی گئے، رات وسیم اپنے کسی رشتہ دار کے ہاں ٹھہرا اور میں نے راجہ بازار کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ صبح ہم دونو ں مری روڈ پر اکٹھے ہوئے اور ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر صدر میں ایئرفورس کے بھرتی دفتر پہنچے۔

وہاں اپنی رجسٹریشن کرائی تو پتہ چلا کہ گیارہ بجے ایک تحریری امتحان ہو گا۔ اس امتحان میں جو پاس ہوں گا، اس کا دو بجے ابتدائی میڈیکل ٹیسٹ ہو گا۔ تیس سے زیادہ بچوں میں سے تحریری امتحان میں نو بچے پاس ہوئے جن میں ہم دونوں بھی شامل تھے۔ ہمیں ایک فوجی گاڑی میں بٹھا کر سی ایم ایچ پنڈی لے جایا گیا جہاں ہمارا ابتدائی میڈیکل ٹیسٹ ہوا۔ دو بچے اس میں بھی فیل ہو گئے۔ اب ہمیں بتایا گیا کہ اب آپ کو تحریری امتحان کے لئے کال آئے گی۔ پندرہ دن کے بعد راولپنڈی میں تحریری امتحان کے لئے بلوایا گیا۔ دو گھنٹے کا تحریری امتحان تھا۔ امتحان دے کر ہم گھر آ گئے۔ ایک ماہ بعد میڈیکل کی کال آ گئی۔ میڈیکل کے لئے سی۔ ایم۔ ایچ پنڈی حاضری دی۔ لیکن انہوں نے ایئرفورس کے لئے ان فٹ قرار دے دیا۔ واپس آ کر ہم پھر اپنی پڑھائی میں مگن ہو گئے۔

گریجویشن کا امتحان دینے پر میں چار ماہ خالہ جان کے گھر وزیرآباد میں رہا۔ انہی دنوں میرے بچپن کے دوست وسیم امجد اور غلام قادر وہاں مجھے ملنے کے لیے آئے۔ انہوں نے دو دن میرے ساتھ گاؤں میں گزارے۔ خالہ جان نے بہت اچھے اچھے کھانے پکا کر کھلائے۔ وسیم نے ہی مجھے ہمارے سکول کے استاد جناب فاروق مرزا صاحب کا پیغام دیا کہ اگر سکول میں پڑھانا ہے، تو آپ آ جاؤ ہم آپ کو عارضی طور پر افضل پور سکول میں رکھ لیتے ہیں۔

جب رزلٹ آئے گا تو ہم آپ کو مستقل رکھ دیں گے۔ ان دنوں سفارش کلچر تھا تو ضرور لیکن اتنا عام بھی نہیں تھا۔ نوکریاں دینے کا اختیار بھی ادارے کے سربراہ کے پاس ہوتا تھا۔ اس لئے نوکری آسانی سے مل جاتی تھی۔ میرا چونکہ پڑھانے کی طرف کوئی خاص رجحان نہیں تھا، اس لئے میں نے منع کر دیا۔ ایسے ہی ایک دن گاؤں میں اپنے ایک رشتہ دار فوجی سپاہی سے گپ شپ ہوئی تو اس نے کہا کہ آپ فوج میں کمیشن کے لئے اپلائی کیوں نہیں کرتے۔

اس کے کچھ دن بعد ہی فوج کی طرف سے اخبار میں کمیشن کا اشتہاردیکھا تو اپلائی کر دیا۔ پہلے کھاریاں کینٹ میں انٹرویو ہوا۔ اس کے بعد فورٹریس سٹیڈیم لاہور میں تحریری امتحان ہوا۔ گوجرانوالہ سی ایم ایچ میں میڈیکل ہوا اور پھر کوہاٹ آئی ایس ایس بی کے لئے کال آئی۔ کوہاٹ میں رپورٹ کی، تین چار دن وہاں گزارے۔ لیکن فوج والوں کو ہم پسند نہیں آئے اس لئے انہوں نے ہمیں آئی ایس ایس بی میں فیل کر دیا۔

دسمبر 1978 میں ہمار ا بی اے کا رزلٹ آیا۔ میں اچھی سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہو گیا تھا۔ اب نوکری کے لئے میں نے اخبار میں اشتہار دیکھنے شروع کر دیے۔ جن دنوں ہم گریجویشن کر رہے تھے تو ہمارے اردو کے استاد پروفیسر خواجہ حنیف صاحب ہمیں کہا کرتے تھے کہ آپ اچھے نمبروں سے گریجویشن کریں۔ حبیب بنک میں ہمارے ایک بہت اچھے دوست خالد لون زونل چیف ہیں، ان سے کہہ کر میں آپ کو بنک میں ملازم کروا دوں گا۔ میں خواجہ صاحب سے ملا۔

انہوں نے ایک خط خالد لون کے نام لکھ دیا کہ یہ میرا عزیز ہے اس کی بنک میں ملازمت کے لئے کچھ کریں۔ میں وہ خط لے کر لون صاحب سے ملا۔ وہ بڑے اخلاق سے ملے، میری سی وی پڑھی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اگر تو آپ کیشئر بھرتی ہونا چاہیں تو میں آپ کو ابھی بھرتی کر لیتا ہوں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ افسر بھرتی ہوں۔ اس کے لئے آپ مارچ تک انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے انتظار کرنا زیادہ مناسب سمجھا، پھر روزانہ اخبار میں اشتہار دیکھنا شروع کر دیے۔

بے روزگاری میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے چین بڑھتی جا رہی تھی۔ سارا دن کتابیں پڑھنا، ریڈیو سننا اور مٹر گشت کرنا روز کا معمول بن گیا۔ شام کو گاؤں کے کچھ لڑے اکٹھے ہو کر میرے پاس آ جاتے۔ وہ کھانا پکاتے، سب مل کر کھاتے اور رات گئے تک ہم تاش کھیلتے رہتے۔ زیادہ تر ہم رمی اور رنگ کھیلتے۔ گاؤں کے بوڑھے بزرگ والد صاحب کی وجہ سے میرا بہت احترام کرتے تھے۔ لیکن ایک دن کسی نے گاؤں کے بزرگ چوہدری سے شکایت لگا دی کہ یہ اکیلا لڑکا ہے اس کے گھر میں شام کو بہت سے لڑکے بیٹھتے ہیں۔

چوہدری صاحب نے جاسوسی کے لئے ایک بچے کو میرے گھر بھیجنا شروع کر دیا۔ وہ کافی دن ہمارے پاس آتا رہا اور ایک دن جاکر ساری رپورٹ چوہدری صاحب کو پیش کر دی، جس سے چوہدری صاحب کو اطمینان ہو گیا کہ لڑکے کوئی غلط کام نہیں کرتے۔ اگلے دن چوہدری صاحب خود میرے گھر آئے۔ کافی دیر ہمارے پاس بیٹھے رہے۔ سب لڑکوں سے کہا مجھے اطمینان ہے کہ آپ کوئی غلط کام نہیں کرتے آئندہ بھی کوئی شکایت نہ آئے۔ مجھے کہا کہ آپ ایک بڑے باپ کے بیٹے ہو۔ ہمیں آپ پر فخر ہے کہ آپ اکیلے ہوتے ہوئے بھی کسی غلط کام میں نہیں پڑے۔

انہی دنوں میں مسلم کمرشل بینک میرپورکے رونل چیف کے پاس ملازمت کے لئے اپنی درخواست لے کر گیا۔ انہوں نے میری درخواست غور سے پڑھی اور پوچھا، یہ خود لکھی ہے۔ میرا اثبات میں جواب پا کر اپنے پی۔ اے سے کا غذ اور قلم منگوایا اور میرے سامنے رکھ کر کہا، ابھی نئی درخواست میرے سامنے لکھو۔ میں نے اطمینان سے دوبارہ درخواست لکھ دی۔ انہوں نے بڑی خوشخط اوربڑے اچھے انداز سے لکھی ہوئی درخواست دیکھی۔ اپنے سٹاف افیسر کو بلاکر انہیں کہا کہ اس لڑکے سے ابھی پیپر حل کرواؤ اور چیک کر کے میرے پاس لے کر آؤ۔

سٹاف افیسر نے مجھے اپنے کمرے میں بٹھایا، سائیکلو سٹائل ہوا ایک پیپردیا اور اسے ایک گھنٹے میں حل کرنے کو کہا۔ میں نے کمرے میں بیٹھے چالیس منٹ میں پرچہ حل کر کے انھیں دیا۔ انہوں نے مجھے دو گھنٹے بعد دوبارہ آنے کو کہا۔ میں دو گھنٹے بعد ان کے دفتر گیا تو وہ مجھے پھر زونل چیف کے کمرے میں لے گئے۔ ک۔ بی۔ خان ان دنوں میرپورکے زونل چیف تھے۔ انہوں نے میرا انٹرویو لینے کے بعد مجھے کہا کہ ہم آپ کا کیس افسر گریڈ کے لئے اپنے ہیڈ آفس بھیج رہے ہیں۔ ہم آپ سے جلد رابطہ کریں گے۔

اب میں روزانہ اخبار میں اشتہار دیکھتا، ان دنوں میں نے کوئی چھ سات جگہ اپنی درخواست بھیجی۔ اسلام آباد میں بھی دو تین جگہ درخواست بھیج رکھی تھی۔ فروری کے پہلے ہفتہ میں اسلام آباد سے انٹرویو کی ایک کال آئی۔ یہ نیشنل ٹیلنٹ پول کا دفتر تھا جہاں میں نے گریڈ سولہ اور گریڈ گیارہ کی دو آسامیوں کے لئے اپلائی کر رکھا تھا۔ انٹرویو گریڈ سولہ کے سٹیٹسٹیکل انویسٹگیٹر کی آسامی کے لئے تھا۔ میں انٹرویو سے ایک دن پہلے اسلام آباد اپنے کلاس فیلو نذیر احمد کے پاس پہنچا۔

نذیر احمد ہائی سکول میں میٹرک تک ہمارا کلاس فیلو اورمیرا گہرا دوست تھا۔ اس نے میٹرک کے بعد پی ڈبلیو ڈی اسلام آباد میں ملازمت کر لی تھی۔ چند ساتھیوں کے ساتھ وہ جی سکس میں رہتا تھا۔ اس نے بڑی خوش دلی سے مجھے خوش آمدید کہا۔ رات اپنے پاس رکھا، صبح انٹرویو کے لئے نیشنل ٹیلنٹ پول کے دفتر میں میرے ساتھ گیا۔ پہلے دن گریڈ سولہ کی آسامی کے لئے انٹرویو تھا۔ پینل انٹرویو تھا، کافی مشکل اور سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن حالات حاضرہ کی واقفیت اور کتابیں پڑھنا اور سب سے بڑھ کر مرحوم ماں باپ کی دعائیں یہاں پر کام آ گیا۔ میں نے سارے سوالوں کے جواب دے دیے۔ دوسرے دن گریڈ گیارہ کے لئے انٹرویو دینے گیا تو انٹرویو پینل کل والا ہی تھا۔ انہوں نے کہا کہ کل آپ کا تفصیل سے انٹرویو ہو گیا تھا۔ ہم غور کریں گے اور اگر آپ موزوں ہوئے تو آپ کو تقرری کا خط مل جائے گا۔ انٹرویو دے کرمیں نذیر کے دفتر اس کو گھر واپسی کا بتانے گیا تو اس نے زبردستی روک لیا۔ اگلے دن سارے اسلام آباد کی سیر کرائی۔ اس سے اگلے دن میں واپس اپنے گاؤں آ گیا۔

اسلام آباد سے واپس لوٹنے کے چند دنوں بعد یونائیٹڈ بنک کی طرف سے اخبار میں بینک افیسرز کی بھرتی کا اشتہار دیکھا۔ فوراً ًدرخواست لکھ کر بھیج دی۔ دو ہفتے بعد ان کی طرف سے میرپور میں تحریری امتحان کی کال آ گئی۔ فروری 1979 کے تیسرے ہفتے میں ڈگری کالج میرپور میں یونائیٹڈ بینک کی طرف سے امتحان کا انتظام کیا گیا۔ بنک کی مقامی انتظامیہ نے تین گھنٹے کا پیپر لیا۔ اس سے دو دن بعد مجھے نیشنل ٹیلنٹ پول اسلام آباد سے گریڈ سولہ میں تقرری کا خط آ گیا۔

پوسٹ آفس میرے گھر کے پاس ہی تھا۔ میری قلمی دوستی کی وجہ سے روزانہ کافی ڈاک میرے نام آتی تھی۔ ملازمت کی تقرری کا خط پا کر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس آسامی کے لئے آزاد کشمیر کا ایک سیٹ کا کوٹہ تھا اور میں اس آسامی کے لئے آزاد کشمیر سے واحد امید وار تھا۔ پہلی نوکری وہ بھی بی۔ اے کا رزلٹ آنے کے تین ماہ کے اندر مل جانے پر میرا اللہ تعالی پریقین اور پختہ ہو گیا۔ میں نے اسی وقت اپنے قریبی احباب کو خط لکھ کراپنی خوشی میں شامل کیا۔

ایک عام سے دیہاتی نوجوان کو اسلام آباد جیسے شہر میں اتنی اچھی نوکری بغیر کسی سفارش کے مل جانا ایک بڑی بات تھی۔ کچھ رقم ادھار لے کر ایک اچھی سی پینٹ شرٹ اور نئے جوتے لئے اور اسلام آباد جانے کی تیاری شروع کر دی۔ پولیس سے کریکٹر سرٹیفیکیٹ بنوایا، ایک بیگ میں کپڑے ڈالے، بستربند میں بستر باندھا اور ایک دفعہ پھر اپنے دوست نذیر کے پاس اسلام آباد پہنچ گیا۔ اس نے پہلی سی خوش دلی سے پھر میرا استقبال کیا۔ میری نوکری وہ بھی سولہویں گریڈ کا سن کر اسے بھی بہت خوشی ہوئی۔ ان کے پاس رہنے کو جگہ نہیں تھی کیونکہ دو کمروں کے فلیٹ میں وہ پہلے ہی پانچ افراد مقیم تھے۔ پھر بھی انہوں نے کہا کہ جب تک کوئی انتظام نہیں ہو جاتا آپ ادھر رہو۔ اگلے دن نیشنل ٹیلینٹ پول کے دفتر میں نے رپورٹ کر دی۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک وژنری لیڈر تھا۔ ا س کا وژن یہ تھا کہ بیرون ملک کی اچھی یونیورسٹیوں۔ ہسپتالوں اور دیگر ریسرچ کا کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹروں۔ پروفیسروں۔ انجینئروں۔ سائنسدانوں اور اقتصادی ماہرین کو پاکستان بلایا جائے تا کہ وہ یہاں کی یونیورسٹیوں، ہسپتالوں اور ریسرچ لیبارٹریوں کو یورپ امریکہ اور برطانیہ کے اداروں کے معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنے میں پاکستان کی مدد کریں۔ پاکستان سے اچھی شہرت کے حامل اور ٹیلینٹڈ افراد کو اعلی تعلیم اور تربیت کے لئے یورپ امریکہ اور برطانیہ کے اداروں میں بھیجا جائے تا کہ وہ ملک میں واپس آ کر ملکی اداروں کا معیار بلند کر سکیں۔ 1976 میں ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر لیبر منسٹری کے زیر انتظام ایک ڈیپارٹمنٹ نیشنل ٹیلنٹ پول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ڈیپارٹمنٹ کا بنیادی مقصد پاکستان کے اندر اور بیرون پاکستان سے اعلی تعلیم یافتہ پاکستانی مرد و خواتین کا ڈیٹا اکٹھا کرنا تھا۔ اس لسٹ میں ڈاکٹر۔ انجینئر۔ پروفیسر۔ سائنسدان اور اقتصادی ماہر شامل تھے۔ (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).