2020 :جاتی شام کا پیغام


شام ڈھل چکی ہے اور سرد رات کی چادر پھیلتی جا رہی ہے۔ دور سے کہیں افسردہ پٹاخوں کی اکا دکا آوازیں سماعت سے ٹکرا رہی ہیں جس سے اس بات کا احساس اچانک مزید گہرا ہو جاتا ہے کہ جاتے سال کی یہ آخری شام بھی آج کی سوگوار فضا دیکھ کر کتنی غمگین ہو گی کہ لوگ یا تو اکیلے یا اپنے پیاروں کے ساتھ گھروں میں قید ہو کر اسے رخصت کر رہے ہیں۔ میں بھی اپنے اپارٹمنٹ میں اکیلے اپنے موبائل فون کے ساتھ اس وقت کو گزار رہی ہوں، لاک ڈاؤن ہے لیکن کرم یہ ہے کہ آج انٹرنیٹ کی بدولت ہم باہر کی دنیا سے رابطے میں ہیں۔

آج مجھے بہت برسوں پہلے پڑھا گیا روسی ادیب چیخوف کا ایک افسانہ The bet یاد آ رہا ہے جس میں ایک بینکار اپنے گھر کچھ لوگوں کو مدعو کرتا ہے۔ اس دعوت میں کچھ عالم، صحافی اور شہر کے دوسرے معزز لوگ شریک ہیں۔ دوران گفتگو سزائے موت اور عمر قید کے حوالے سے ایک بحث چھڑ جاتی ہے۔ ذاتی طور طور پر میزبان بینکار سزائے موت کا حامی ہوتا ہے، اس کا موقف ہے کہ عمر قید ایک بھیانک اذیت ہے جس میں انسان روز مرتا اور روز جیتا ہے اس لیے اپنے گناہ کی سزا ایک بار ہی کاٹ لینا زیادہ مناسب ہے۔

دعوت میں موجود ایک عالم شخص کہتا ہے کہ اصل میں تو دونوں سزائیں اخلاقی طور پر درست نہیں کیوں کہ قانون کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انسان سے وہ چیز چھین لے جو وہ اسے واپس نہیں دے سکتا۔ یعنی کہ اس کی زندگی۔ دعوت میں موجود ایک وکیل اس عالم کی بات سے بے حد متاثر ہوتا ہے، وہ آگے بڑھ کر کہتا ہے کہ میرے نزدیک بھی دونوں سزائیں غلط ہیں لیکن میں پھر بھی سزائے موت کے مقابلہ میں عمر قید کا انتخاب کروں گا۔ وکیل کی یہ بات سن کر بینکار بہت غصے میں آ جاتا ہے اور میز پر ہاتھ مار کر کہتا ہے کہ میں تمھیں دو ملین روبیل دوں گا اگر تم 5 سال میری قید میں گزار دو۔

پرجوش وکیل بینکار سے کہتا ہے کہ 5 سال کیا میں 15 سال بھی تمہاری قید میں گزار سکتا ہوں۔ بینکار وکیل کو اپنے گھر کے ایک کمرے میں قید کر لیتا ہے اور قید کی چند شرائط وضوابط اسے بتاتا ہے۔ بینکار کہتا ہے کہ تم اس کمرے میں بالکل تنہا رہو گے۔ انسانوں کی آواز اور لمس سے محروم ہو گے، اخبارات نہیں پڑھ سکو گے، تم خط صرف لکھ سکتے ہو لیکن کسی کا خط پڑھنے کی تمھیں اجازت نہیں ہو گی۔ تم شراب اور سگریٹ پی سکتے ہو، پیانو بجا سکتے ہو اور اپنی من پسند کتابیں بھی پڑھ سکتے ہو لیکن سماجی میل جول کی اجازت بالکل نہیں ہو گی۔

تمہیں جو چیز درکار ہو وہ تم ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پٹ کھول کر باہر کی طرف رکھ دو گے۔ اور اگر تم نے بھاگنے کی کوشش کی تو میں تمہں ایک ٹکا بھی نہیں دوں گا۔ وکیل ان سب شرائط کو مان کر اس کمرے میں قید ہو جاتا ہے۔ اس افسانہ کا اختتام پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو میں یہاں بیان نہیں کروں گی لیکن اس خود ساختہ عمر قید کو وہ کس طرح جھیلتا اور اس قید سے کیا کچھ کشید کرتا ہے وہ دراصل زندگی کا حاصل اور عطر ہے۔

قید کے دوران اس کا جی بہلانے کے لیے کتابیں اور پیانو کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جب وہ پیانو سے دل بہلا کے اکتا جاتا ہے تو کتابیں پڑھنا شروع کر دیتا ہے اور پھر ان 15 برسوں میں وہ نہ صرف دنیا کا کلاسک ادب پڑھ ڈالتا ہے بلکہ چھ زبانوں پر عبور بھی حاصل کر لیتا ہے۔ وہ کتابوں سے ایک ایسی دنیا حاصل کر لیتا ہے جس کا ادراک وہ ایک آزاد فرد کی حیثیت سے کبھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ان جزیروں کی سیر کرتا ہے جن کا علم اسے ان کتابوں سے ملا تھا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سچائی اور خوبصورتی دراصل وہ نہیں جو انسانوں کو بہ ظاہر نظر آیا کرتی ہے۔ ظاہری اور دنیاوی خوبصورتی ایک واہمہ کے سوا کچھ نہیں۔ اصل خوبصورتی تو ہمارے اندر کہیں چھپی بیٹھی ہے جس کی کھوج اور تلاش کا سفر انسان کو ضرور کرنا چاہیے۔

اگر دیکھا جائے تو لاک ڈاؤن میں قید لوگوں نے اپنا بیشتر وقت کتابیں، موسیقی اور فلمیں دیکھ کر گزارا ہے۔ کورونا کی بدولت اس بات کا بھی ادراک ہوا ہے کہ زندگی آرٹ و ادب اور موسیقی کے بغیر بے رنگ ہے۔ سلام ہے ہر اس ادیب، موسیقار اور فنکار پر جنہوں نے اپنے خون جگر سے اپنے فن کو وسعت دی اور کورونا کے دنوں میں تنہائی کا عذاب سہنے والوں کے غم خوار بنے۔

کورونا کی بدولت 2020 ہم نے انسانی لمس کو اپنی زندگیوں سے چھینے جانے کے کرب کو محسوس کیا ہے۔ اس بات کا ادراک وہی افراد کر سکتے ہیں جو مہینوں اپنے پیاروں کی خوشبو سے محروم رہے ہیں۔ خاص طور سے وہ بچے جو اپنے گرینڈ پیرنٹس سے دور رہے اور ان جذبوں کی حرارت کے لئے ترستے رہے جو ان کے آغوش میں انہیں حاصل ہوا کرتی تھی۔

مجھے 2019 کی وہ شام یاد آ رہی ہے جب میں نے اپنی دوست صدف کے ساتھ نئے سال کا جشن وینس میں منانے کا فیصلہ کیا تھا اور ہوٹل کی بکنگ بھی کرا لی تھی لیکن 30 دسمبر کی صبح مجھے انوج کا پیغام موصول ہوا کہ میں اپنی گرل فریند کے ساتھ مل کر نیو ائر پارٹی ترتیب دے رہا ہوں، اگر آپ لوگوں کے وینس جانے کا پلان حتمی نہیں تو پھر ہماری تقریب میں ضرور شریک ہوں۔ میں نے پیغام پڑھ کر صدف کو سنایا، اگلے ہی لمحے جو بات ہم دونوں کی زبان پر تھی وہ یہ تھی کہ ٹھیک ہے وینس کا پروگرام منسوخ کر دیتے ہیں، وینس کی آتش بازی اگلے برس دیکھ لیں گے لیکن ایک ساتھ سب دوستوں کی یہ سنگت ہمیں پھر کہاں نصیب ہو گی، ہم نے جھٹ پٹ انوج کی پارٹی میں جانے کی ہامی بھر لی۔

انوج کی تقریب میں شرکت کی تین اہم وجوہ تھیں ایک تو یہ کہ انوج کی اٹالین گرل فرینڈ فراٹے سے اردو بولتی تھی اور انڈین فلمی گانوں کی دلدادہ تھی اور کئی گانے اسے ازبر تھے۔ دوسری وجہ انوج کا گٹارسٹ ہونا تھی۔ وہ نہ صرف بہت اچھی دھنیں کمپوز کرتا ہے بلکہ گانے پر بھی اسے خوب ملکہ حاصل ہے اور تیسری سب سے اہم وجہ سب دوستوں کا ایک ساتھ ملنا تھی۔

ہم سب کی ایک مشترکہ دوست کیٹی جو نیو ائر کی چھٹیاں منانے اپنے دوست کے ہمراہ تورینو گئی ہوئی تھی جو ہمارے شہر پادوا سے 3 گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ اسے بھی پیغام بھیجا کہ ہم وینس جانے کا پروگرام منسوخ کر کے انوج کی تقریب میں جا رہے ہیں اس لیے تم بھی واپس آ جاؤ اپنے دوست کے ساتھ ۔ کیٹی نے بھی کیا خوب دوستی کا حق ادا کیا اور دیوانہ وار واپس آ گئی۔ ایسے دلدار دوست قسمت سے ہی ملا کرتے ہیں۔ کیٹی کی شرکت نے پارٹی کو چار چاند لگا دیے، وہ ہم سب کی محبت اور توجہ پا کر بہت ہی سرشار تھی۔ 31 دسمبر کی سرد شام میں ہم تقریباً 20 دوست انوج کی تقریب میں جمع تھے۔ قہقہے تھے، باتیں تھیں، رنگ رنگ کے کھانے تھے اور موسیقی اور رقص کے نئے انداز۔ سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے، ایک یاد گار شام گزاری۔ وہ شام ایک یاد گار ہی بن گئی ہے جو اب شاید کبھی واپس نہیں آئے گی۔

آج ہم سب دوست یورپ کے مختلف ملکوں میں مقیم ہیں لیکن جس خلوص و محبت کے احساس سے بندھے ہوئے ہیں وہ ہر چیز سے ماورا ہے۔ ملنے کی امید ایک کرن کی صورت سب کے دلوں میں زندہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ موت کے بعد جدائی ایک اٹل حقیقت ہے لیکن کرونا کی بدولت جیتے جی جدائی کا عذاب جو ہم سب جھیل رہے ہیں وہ کسی سفاک ترین اذیت سے کم نہیں۔

2020 کی سب سے امید افزا بات کورونا ویکسین کی دستیابی ہے، امید کی جا سکتی ہے کہ نئے سال کا سورج ملن کی کرنیں بکھرے گا اور ہر سو قہقہے ہوں گے۔ جاتی شام کا یہی پیغام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).