کیا سیکس کے لیے پر سکون ماحول ضروری ہے؟


سیکس ایک ایسا عمل ہے جو دو بالغ افراد کے درمیان باہمی رضا مندی سے ہوتا ہے۔۔ چاہے یہ عمل تخلیق کے لیے ہو یا جنسی سکون کے لیے ہو مگر یہ عمل ہر انسان کی فطرت کا خاصہ ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں۔ مغربی سماج کے برعکس مشرقی سماج میں اس عمل پر گفتگو کرنا بے ادبی اور بدتہذیبی تصور کیا جاتا ہے اور اس عمل کو شادی کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے۔

وقتی طور پر بزرگی کا چولا پہن لینے سے آپ معاشرے کی نظروں میں تو پارسا بن سکتے ہیں مگر اپنی نظروں میں نہیں۔ پارسائی کے تمام حربے اس منہ زور جبلت کے آگے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر زندگی کے اس اہم پہلو سے فرار ممکن نہیں تو اس موضوع کو ڈسکس کرنے میں کیا حرج ہے؟ گفتگو نہ ہونے سے ہمارے نوجوانوں پر زندگی کی ایک خوبصورت حقیقت کی پرتیں نہیں کھلتیں اور ہمارے سماج میں تو ویسے ہی اس عمل کو شادی کی فرسٹ نائٹ کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ کم از کم آگاہی ہونے سے دو پارٹنر اپنے سیکس کے لمحات کو پوری طرح سے انجوائے کر سکتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو سیکس سے جڑے ہوئے پہلوؤں کا پتہ ہی نہیں ہوتا اور وہ جانتے ہی نہیں کہ

1۔ سیکس برائے تخلیق (sex for production ) کیا ہوتا ہے؟
2۔ سیکس برائے تسکین (sex for pleasure ) کیا ہوتا ہے؟
3۔ ابتدائی اور اختتامی اٹکھیلیاں (Fore play & after play) کیا ہوتا ہے؟
4۔ محفوظ اور غیر محفوظ سیکس (safe & unsafe sex ) کیا ہوتا ہے؟
5۔ خود لذتی (self pleasure) کسے کہتے ہیں؟

یہ وہ عناصر ہیں جن پر گفتگو ہونا لازمی ہے کیونکہ یہ سیکس اور شادی شدہ زندگی کا پیکیج ہیں۔ کانوں کو ہاتھ لگانے کی بجائے حقیقت کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے مگر اس کے لیے ہمیں پارسائی کا جبہ اتارنا ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ زندگی کی خوبصورتی ہمارے نوجوانوں پر اس وقت کھلتی ہے جب وہ ہنگامی طور پر رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں کیونکہ ہمارے مشترکہ خاندانی نظام میں بچوں کی شادی کا فیصلہ خاندان کے بڑے کرتے ہیں، لڑکوں سے تو شاید رائے لے لی جاتی ہے مگر لڑکیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور انہیں کسی جانور کی طرح اپنے جبری فیصلے کے کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔

کچھ جبری رشتے نبھ جاتے ہیں اور بہت سارے ”سمجھوتے اور مصلحت“ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ایسے پارٹنرز کے درمیان سیکس کا عمل اپنی معنویت اور دلکشی کھو دیتا ہے اور جوڑا اس عمل کو اپنی خوشی سے نہیں بلکہ معاشرتی جبر کی بنیاد پر ادا کرتا ہے اور پھر یہ دباؤ اس کی طبیعت کا خاصہ بن جاتا ہے اور پھر یہ عمل اس کی نظر میں پروڈکشن سے زیادہ کوئی معنی نہیں رکھتا، سیکس برائے تسکین کس خوبصورتی کا نام ہے اس مرد کو کچھ پتہ نہیں ہوتا وہ تو بس ایک معاشرتی روبوٹ ہوتا ہے اور اپنی بیوی کا آقا اور اپنی لونڈی سے سیکس برائے تخلیق کر کے فارغ ہوجاتا ہے۔

اسے اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوتا کہ اس کا پارٹنر بھی ایک جیتا جاگتا انسان ہے اور اس کے بھی جنسی جذبات ہیں جن کو پورا کرنا بھی اس پر لازم ہے مگر سماجی ستم ظریفی کا کیا کیجیے کہ جہاں پر سیکس اور جنسی بھوک جیسے عمل سے آگاہی دینے کی بجائے آنکھیں موندھ لی جاتیں ہیں اور ہمارے بچوں کو اپنے ہم جولیوں سے بڑے ہی پر اسرار انداز میں پتہ چلتا ہے کہ ”ہمیں کوئی جہاز والا انکل ہمارے صحن میں چھوڑ کر نہیں گیا تھا بلکہ ہم اپنے والدین کے ملاپ کا نتیجہ ہیں“ یہ سچ اور حقیقت ہمارے بچوں کے سامنے بطور نارمل نہیں بلکہ بطور سرپرائز کے سامنے آتا ہے اور پھر یہی بچے اپنے تجسس کو ختم کرنے کے چکروں میں کئی درندوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری برائے نام روایتی مقدس قدریں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ اس موضوع پر کھل بات ہو یا شاید زیادہ آگاہی ہمیں ہضم نہیں ہوتی اور ہم اندھیروں ہی گم رہنا چاہتے ہیں۔ سیکس کی خوبصورتی کو ماند کرنے والا ہمارا مشترکہ خاندانی نظام ہے ، ہمارے سماج کے بڑے اپنے بچوں کو آزاد نہیں کرنا چاہتے اور اپنا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے لیے مشترکہ خاندانی نظام پر بضد رہتے ہیں۔ ہمارے بڑوں کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ہمارے بچوں کی بھی ایک زندگی ہے اور وہ اپنی زندگی کو آزادانہ طریقے سے انجوئے کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں ان کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے انہیں آزادی سے زندگی گزارنے کی اجازت دے دینی چاہیے۔

یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم خاندان کی نیو عارضی بنیادوں پر اٹھاتے ہیں اور پھر اس سے مثبت اور خوشگوار نتائج کی امید لگا لیتے ہیں، ایک ساتھ کئی خاندان ایک ہی آنگن میں محض ایک ایک کمرے میں محدود رہ کر بہت ساری تلخیوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ان تلخیوں اور لڑائیوں کا خمیازہ مشترک خاندان کے بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ جس طرح کی زندگی ان کے بڑے گزار رہے ہوتے ہیں وہ بھی اسی فریم میں ڈھل جاتے ہیں ۔ یہ مکروہ سرکل ہمارے سماج میں پتہ نہیں کب کا پنپ رہا ہے اور اب تو یہ رچ بس کر سماجی روایت کا حصہ بن چکا ہے۔

اب غور کیجیے ایسے ماحول میں سیکس برائے تسکین ہو سکتا ہے؟ پریشر والے ماحول میں تو بچوں کی لائن ہی لگ سکتی ہے ، سیکس برائے تسکین گیا بھاڑ میں۔ کیا ایسے ماحول میں دو پارٹنر باہمی رضا مندی سے سیکس کر سکتے ہیں؟ مداخلت اور اندیشوں والے ماحول میں فور پلے اور آفٹر پلے ہو سکتا ہے؟ جنجال پورا والے ماحول میں رشتوں کی خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے سماج میں ایسے بھی نوجوان ہیں جو اپنے پارٹنر کے ساتھ مکمل آزادی سے سیکس انجوائے نہیں کر سکتے اور برسوں اولاد سے محروم رہتے ہیں، وجہ پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں انہیں پرائیویسی کے بہت کم لمحات میسر آتے ہیں۔

اس منافق سماج میں آزادانہ طور پر پیار کے دو بول بھی بولنا کتنا مشکل ہے، شادی کے بندھن سے لے کر ایک نجی اور بنیادی ضرورت سیکس تک خاندانی بڑوں کی تانک جھانک کی نذر ہوجاتا ہے۔ ماں باپ بڑے چاؤ سے بیٹے کی شادی کر کے دلہن کو گھر لاتے ہیں ، جونہی ان کے درمیان محبت پنپنے لگتی ہے تو انہی والدین کو یہ تعلق ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اگر زیادہ دیر تک بیوی کے پاس وقت گزار لیا جائے تو والدین کی طرف سے یہ طعنہ سننے کو ملتا ہے کہ اللہ خیر کرے ”ہمارا بیٹا رن مرید ہو چکا ہے“ ہمیں اپنے منافقانہ رویوں سے باہر نکلنا ہوگا کیونکہ جس بندے کی نجی لائف ہی ڈسٹرب ہو وہ بھلا اپنی زندگی میں کیا بہتری لا سکتا ہے۔

بہرحال کہیں سے تو آغاز کرنا پڑے گا مگر اس کے لیے والدین کو بھی give up کرنا ہوگا اور اپنے بچوں کو اپنے پاؤں پر آزادانہ طریقے سے کھڑا کرنا ہو گا، سب سے بڑھ کر سیکس سے جڑی ہوئی حقیقتوں پر گفتگو کا آغاز کرنا چاہیے کیونکہ یہ انسانی زندگی سے جڑی ہوئی بہت اہم حقیقت ہے اور حقیقتوں کو سمجھنے اور جاننے میں ہی زندگی کی خوشی کا راز مضمر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).