ملکہ پکھراج کی آپ بیتی، ایک تأثر


بہت عرصے بعد ایسا ہوا کہ کوئی کتاب شروع کی تو اس وقت تک رکھ نہ پائی جب تک ختم نہ ہو گئی اور وہ دلچسپ کتاب ملکہ پکھراج کی آپ بیتی ”بے زبانی زباں نہ ہو جائے“ تھی۔ ملکہ پکھراج اپنی آن بان سے اپنی کہانی قاری کو سناتی جاتی ہیں جس میں ان کا اپنا مرکزی کردار بھرپور قوت سے سربلند رہتا ہے اور دیگر تمام کردار فلم کے پردے پر آتے جاتے رہتے ہیں، کہانی بہت متانت سے آگے بڑھتی جاتی ہے۔ ملکہ پکھراج کی شخصیت ایک خاص کشش کے ساتھ تدبر کی حامل رہی، یہی پہلو تمام کتاب کا خاصہ ہے۔ ذاتی حوالوں سے قطع نظر کتاب تاریخی اعتبار سے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔

ملکہ پکھراج سے میرا ابتدائی تعارف بچپن میں ہی ان کی منفرد غزل گائیکی کے ذریعے ہوا، ان کی مشہور غزلوں پر مبنی وہ کیسٹ جس کا فلیپ فیروزی رنگ کا تھا آج بھی میری یادوں میں تازہ ہے جس پر ان کی ایک تصویر بھی تھی۔ ان کے الفاظ کی ادائیگی میں ان کی انا اور اپنی عزت کا شعور واضح محسوس ہوتا تھا اور یہی تاثر ان کی کتاب میں جابجا بکھرا ہوا ہے۔ آج جو لوگ اپنے آپ کو سنبھالنے اور طریقے سے چلنے کا ہنر بیان کرتے ہیں، ملکہ پکھراج پیدائشی طور پر ہی اس سے آگاہ تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ والدہ کی عمدہ تربیت نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا جس سے ان کی شخصیت میں خاص نکھار پیدا ہوا۔

ہری سنگھ کے دربار سے لاہور آنے تک بے شمار واقعات ہوئے لیکن ملکہ پکھراج کی شخصیت میں انا، شعور اور استقامت قابل تعریف رہے اور ان اوصاف نے ان کو کہیں بھی گرنے نہیں دیا۔ ان کی زندگی میں دو موقعوں پر ایک ہی واقعہ ان کے ساتھ پیش آتا ہے، ایک مرتبہ جب اس کی پیسوں سے بھری صندوقچی ان کے والد اپنی کسی ضرورت کے لیے خالی کر دیتے ہیں اور دوسری مرتبہ محبت کرنے والا شوہر ان کی جمع شدہ رقم ان سے پوچھے بغیر استعمال کر لیتا ہے، ان دونوں مواقعوں میں گو کئی برسوں کا فاصلہ ہے پر ان کو اس سے شدید دھچکا پہنچتا ہے کیونکہ وہ بچپن سے ہی پیسے جمع کرنے کا شعور رکھتی تھیں، مگر وہ اس مشکل وقت سے بھی متانت اور بردباری سے گزر جاتی ہیں۔ اس کتاب میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن سے ملکہ پکھراج کا بے مثال روپ قاری کو حیران کر جاتا ہے۔

ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن ملکہ پکھراج کہیں کمزور نہیں ہوتیں اور سب سچائی سے بیان کر دیتی ہیں، حتیٰ کہ ان کے بیان کے مطابق ان کے داماد ایس ایم ظفر نے ان کی زمینوں کے معاملات میں بھی جو خرد برد کی، اس کا احوال بھی انہوں نے پوری دیانت داری سے بیان کر دیا اور ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ ”سب لکھا تھا تو یہ لکھنا بھی ضروری تھا“ ۔

یہ بیش بہا تحریر آج بھی پڑھنے والے کے ذہن میں ایک سماں باندھ دیتی ہے جس کا تاثر بہت گہرا ہوتا ہے، یہ ایک زمانے کی ایک عہد کی داستان ہے جو بے شک بیت چکا ہے لیکن آج بھی ماضی کے جھروکوں میں زندہ و جاوید ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).